عالمی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ

ملک میں زرمبادلہ لانے کا اہم ذریعہ ٹیکسٹائل کا شعبہ ہے جسے ایک طویل عرصے سے اس کے حال پر چھوڑا ہوا ہے



ٹیکسٹائل انڈسٹری کو پاکستان کی سب سے بڑی اور ترقی یافتہ صنعت کا درجہ حاصل ہے۔ یوں بھی صدیوں سے پاکستان کا ایک بہت بڑا علاقہ کپاس کی پیداوار کے لیے مشہور رہا ہے اور دنیا میں جب کپاس کی پیداوار کی رینکنگ ہوئی تو یہ ملک کبھی چوتھے اور کبھی پانچویں نمبر پر براجمان نظر آتا رہا، لیکن ملک کو قیمتی زرمبادلہ کما کر دینے والے کسانوں کی حالت زار میں کوئی خاص تبدیلی نہ آئی۔

زمینوں کی تقسیم در تقسیم کاشتکاری کے مسائل پانی کی قلت اور گزشتہ دو دہائی سے بجلی نرخوں کے زبردست اضافے اور دیگر کئی مسائل نے کپاس پیدا کرنے والے کسانوں کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ اب تو کپڑے کے تاجروں سے لے کر ٹیکسٹائل مل اونرز تک کے اوسان خطا ہوچکے ہیں۔

گزشتہ کئی صدیوں سے برصغیر کے کپڑے کے تجارت کرنے والے خاندان خوش حال زندگی بسر کر رہے تھے۔ پاکستان میں کئی معروف و مشہور خاندان ایسے ہیں جوکہ صدیوں سے پشت در پشت کپڑے کی تجارت سے وابستہ تھے۔

صنعتی انقلاب کے بعد ترقی یافتہ ملکوں نے کپاس سے کپڑے اور کپاس تیار کرنے میں بڑی جدت اور ترقی حاصل کی، لیکن چونکہ پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس کی ضرورت انگلینڈ کے کارخانوں کو تھی۔

لہٰذا انگریزوں نے یہاں پر ٹیکسٹائل ملیں لگانے کی طرف توجہ نہ دی اور کپاس سے لدے بحری جہاز لے کر برطانیہ روانہ ہوجاتے اور وہاں کی ٹیکسٹائل ملوں کا کپڑا ہندوستان یا پاکستان کی مارکیٹوں میں آتا تو یہاں کے کپڑے کے تاجروں کی تجارت خوب چمکتی رہی اور اسی میں وہ مگن رہے اور خوش حال بھی رہے، روپے پیسے کی ریل پیل بھی رہی۔

قیام پاکستان کے بعد یہاں کے کپڑے کے تاجر درآمدی کپڑوں کی فروخت سے مالا مال ہو رہے تھے کہ جلد ہی پاکستان میں صنعتوں کے قیام کی باتیں ہونے لگیں۔ ایسے میں حکومت کے معاشی حکام کی نظریں ملک کی روپہلی ریشوں پر گڑ گئیں۔

یہ نرم و نازک روپہلی ریشے یہ سرگوشیاں کر رہے تھے کہ ٹیکسٹائل ملوں کی اونچی چمنیوں پر وہ کمند ڈالنے کے لیے تیار ہیں۔ لہٰذا حکام نے یہاں کے کپڑے کے تاجر خاندانوں کو ترغیب دی کہ وہ ملک میں ٹیکسٹائل ملز قائم کریں کیونکہ ان کے پاس سرمایہ بھی تھا اور کپڑے کی تجارت کا وسیع تجربہ بھی تھا۔

لہٰذا بتدریج ملک کے مختلف علاقوں میں ٹیکسٹائل کے شعبے کے مختلف ذیلی شعبے بھی قائم ہونے لگے جن میں اسپننگ، ویونگ، ٹیکسٹائل پروسیسنگ، میڈاپس، نٹ ویئر اور گارمنٹس، دھاگے اور کپڑے کے کارخانے یونٹس وغیرہ قائم ہونے لگے اور جلد ہی ٹیکسٹائل انڈسٹری نے بلند و بالا ہو کر پاکستان کی سب سے بڑی انڈسٹری کا روپ دھار لیا اور ملک بھر میں ٹیکسٹائل انڈسٹری سے وابستہ بڑے بڑے گروپس قائم ہونے لگے۔ اس طرح 1950 اور 1960 کی دہائی میں سوتی صنعت نے دنیا بھر میں اپنا مقام بنا لیا تھا۔

1970 کی دہائی میں بھی کئی بڑے کاروباری خاندانوں نے اس شعبے کو اپنایا اور ان علاقوں میں بھی ٹیکسٹائل ملیں قائم ہونے لگیں جہاں کپاس کی پیداوار نہیں تھی لیکن ٹیکسٹائل ملوں کے قیام سے علاقے کے بے روزگار افراد کو روزگار میسر آیا۔

ملک کے طول و ارض میں پھیلے ٹیکسٹائل انڈسٹری سے ملک کے بڑے بڑے صنعتکاروں کی وابستگی نے اس شعبے کو چار چاند لگائے اور پاکستان نے اس شعبے میں اپنا خاص مقام بنا کر عالمی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں اپنا حصہ ڈالا۔

نئی صدی کا آغاز ہوا۔ نائن الیون نے پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت پر منفی اثر ڈالا۔ پھر ملک بھر میں دھماکوں نے بیرون ممالک تاجروں کے قدم روک لیے۔ اس سے قبل لوڈ شیڈنگ تک بجلی کے بڑھتے بلوں، مہنگائی کے باعث دیگر بڑھتے اخراجات نے اس صنعت کو شدید متاثر کیا۔ بہت سے صنعتکار دیگر ممالک کو ہجرت کرگئے۔

حتیٰ کہ پاکستان ٹیکسٹائل کی صنعت میں دنیا کے ان ملکوں سے پیچھے چلا گیا جو کہ پہلے پاکستان سے کم درجے پر تھے۔ اس طرح اب تازہ ترین رپورٹ کے مطابق عالمی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ کم ہو کر 1.76فیصد رہ گیا ہے۔

اس سلسلے میں اپٹما نے وزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھ دیا ہے۔ خط کے متن کے مطابق عالمی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ 2.2 فیصد سے کم ہو کر 1.76 فیصد رہ گیا۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے مطابق عالمی خریداروں کو قیمت اور وقت پر مال بنا کر دینا شدید متاثر ہوا ہے۔ اس سلسلے میں بھارت، بنگلہ دیش اپنا حصہ بڑھا رہے ہیں۔

بتایا جا رہا ہے کہ بھارت میں بجلی کے نرخ 6 سینٹ، بنگلہ دیش میں 8 جب کہ پاکستان میں 16 سینٹ فی یونٹ ہے۔ بنگلہ دیش میں شرح سود 6 فیصد، بھارت میں 5 سے 7 فیصد اور پاکستان میں 22 فیصد ہے۔ اب پاکستانی حکام کو اس جانب فوری توجہ دیتے ہوئے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان جس قسم کے معاشی حالات سے گزر رہا ہے اور حکومت معاشی اصلاح کا عزم بھی رکھتی ہے ایسی صورت میں پاکستانی برآمدات کا 60 فیصد حصہ جو کہ ملکی معیشت میں اپنا بڑا حصہ ادا کر رہا ہے اس کے ساتھ ملک کے بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرنے میں پیش پیش ہے۔ ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ اس شعبے کا زوال پذیر ہونا ملکی معیشت کے لیے انتہائی بدشگونی کا باعث بن رہا ہے۔

اپٹما اپنا مقدمہ ایک طویل عرصے سے ایوان کے اقتداروں میں بیان کر رہا ہے، لیکن بہت ہی کم اس کی شنوائی ہو رہی ہے۔ اس وقت جب کہ برآمدات میں گزشتہ سے پیوستہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 13 فیصد کی کمی لمحہ فکریہ ہے۔

ملک میں زرمبادلہ لانے کا اہم ذریعہ ٹیکسٹائل کا شعبہ ہے جسے ایک طویل عرصے سے اس کے حال پر چھوڑا ہوا ہے۔ پاکستان کے خصوصی معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ بڑھانے کے لیے خصوصی فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس کے لیے اپٹما کے ساتھ مل کر لائحہ عمل طے کیا جانا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |