’نشانات ارض النبوی‘ سیرت نبویؐ کا شاندار انسائیکلوپیڈیا

نشاناتِ ارض النبوی ہر لحاظ سے ایک تاریخی، تحقیقی، اور تخلیقی دستاویز ہے


سہیل یوسف September 16, 2023
نشانات ارض النبوی برسوں کی محنت سے لکھی گئی ہے۔ (فوٹو: ایکسپریس)

نبی آخرالزماں، صاحبِ کبریا، امام الانبیا، محبوبِ خدا ،حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر لاتعداد کتب لکھی جاچکی ہیں، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اورجاری رہے گا۔ لیکن یہاں ذکرہے ایک ایسی کتاب کا جو سیرت النبی کا تصویرنامہ ہے، تاریخی روداد ہے اور انسائیکلوپیڈیا بھی ہے۔

اردو زبان میں ایسی ہی ایک شاندار کتاب بالکل مختلف انداز سے مرتب کی گئ ہے جو پرت در پرت اپنی خوبیاں کھولتی ہے۔ اس میں بطورِ خاص ان مقامات کا ذکر تاریخ وار ملتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے وابستہ رہے۔ لیکن یہی نہیں اس کتاب کا ہرصفحہ اپنے موضوع کے لحاظ سے نایاب تصاویر سےبھرا ہے۔

"نشانات ارض النبوی صلی اللہ علیہ وسلم " نامی اس کتاب پر میری چند سطریں اور مختصر تعارف اس شاندار تصنیف اور کاوش کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ پیارے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے ان گنت پہلو اور بطورِ خاص ان مقامات مقدسہ کا ذکر ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدم رکھے گئے۔ پھر ہر مقام کا مختصر احوال اور نایاب تصویر اسے ایک انسائیکلوپیڈیا بناتی ہے۔

کتاب کے ہر باب میں قرآن اور حدیث کے حوالے دیئے گئے ہیں جو عنوان اور موضوع کی عین مناسبت میں ہیں۔ یہ تصنیف ملک کے ممتاز مؤرخ اور مصنف شاہ مصباح الدین شکیل کی شبانہ روز کاوش کا ثمر ہے، جسے فضلی سنز پبلشرز شے نہایت خلوص سے شائع کیا ہے۔



شاہ مصباح الدین شکیل کی ایسی ہی پہلی کتاب "نشانات ارض القرآنٗ سال 2005 میں منظرِ عام پرآئی تھی۔ اس کی ہمہ گیر کامیابی کے بعد یہ کتاب لکھی گئی جو پہلی کتاب کی طرح یادگار شاہکار ٹھہری ہے۔ یہ کتاب سیرت النبوی پر ان کی شبانہ روز 50 سالہ محنت کا نتیجہ ہے۔ اس محنت و محبت کا اطہار ورق ورق سے ہوتا ہے۔



عربستان کی جغرافیائی روداد

عربستان کی سماجی، سیاسی، دینی اور جغرافیائی دنیا کا 4000 سال کا تجزیہ گویا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے برابر ہے۔ یہ طبعی دنیا کا ایک مختصر انسائیکلوپیڈیا ہے جو روحانی اثر بھی رکھتا ہے۔ بالخصوص مدینہ اور مکہ میں آج بھی آپ کی حیاتِ مبارکہ سےوابستہ لاتعداد آثار موجود ہیں۔ اس کتاب میں نثر، تصاویر، نقشہ جات اور احوالِ آثار کے تحت آپ خود کو گھرا ہوا پائیں گے۔

پیغمبرانِ اسلام کا مبارک ذکر

اس کے بعد جلیل القدر پیغمبران کا مبارک ذکر آتا ہے ان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت اسماعیل علیہ السلام، پھر خانہ کعبہ کی تعمیر، بیت اللہ کی تاریخ اور مرحلہ وار ترقی، حج کا آغاز اور مبارک تاریخ کا بیان کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسجد النبوی اور حرمِ کعبہ کی توسیع بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔



اس کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک خاندان کا ذکر ہے جو آپ پر ان کے مبارک شجرے کی تٖفصیلات کھولتا ہے۔

اگلے مرحلے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش کامتبرک احوال ہے۔ اس میں بھی تاریخی تصاویر آپ کو عین سینکڑوں برس پیچھے لی جاتی ہیں۔ پھر اس کے بعد صبح سعادت کے نام سے ولادت کا مبارک ذکر ہے جس میں حضرت فاطمہ بنت عبداللہ اور حضرت آمنہ کا تاریخی احوال بھی پیش کیا گیا ہے۔

اسی کی مناسبت سے ایک شاندار شعر ملاحظہ کیجئے

عنبر افشاں ہیں، فضاوں کے معطر گیسو

آخری پھول کھلا، باغ نبوت مہکا

اس کےبعد آپ کو حضرت حلیمہ سعدیہ کی بستی میں لے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ دائی حلیمہ کا پورا جد اور خاندان کا تعلق بھی ہے۔

اس کے بعد آپ کی مبارک بچپن اور جوانی پر بھی سیرِ حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ یہاں وقتِ نزع بی بی آمنہ کے پڑھے گئے اشعار بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ جب بی بی آمنہ پر وقتِ نزع آیا تو انہوں نےیہ اشعار پڑھے اور اپنے جلیل القدر بیٹے کو تسلی کچھ اس طرح سے دی تھی:

'ہرزندہ کو ایک نہ ایک دن مرنا ہے، ہر ایک کی منزل آخر فنا ہے، میں مروں گی لیکن میرا ذکر باقی رہے گا، اس لیے کہ میں نے خیرِ عظیم کو بطور نشانی چھوڑا ہے، میں نے ایک طیب و طاہر کو جنم دیا ہے۔' (بحوالہ مواہب، لدنیہ)

مبارک جوانی میں ازواجِ مطہرات کا ذکر آتا ہے۔ یہاں گیارہ امہاتِ المومنین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہہ سے لے کر حضرت میمونہ رضی اللہ عنہہ تک کا مختصر ذکرخیر پیش کیا گیا ہے۔

اس کے بعد پیارے نبی کی نورانی اولاد کا تذکرہ ملتا ہے۔



اس کے بعد جبلِ نور اور غارحرا کی شاندار تفصیلات پیش کی گئی ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا آغاز سچے خوابوں سے ہوا۔ یہاں بھی غیرمعمولی تاریخی تصاویر آپ کی منتظر ہیں۔

نزولِ قرآن

اگلے مرحلے میں قرآن عظیم کا متبرک ذکر آتا ہے اور چند صفحات میں آپ اس کا جائزہ لے سکتے ہیں ۔ پہلی وحی لکھنے کا شرف حضرت خالد بن سعید بن العاص کا ذکر ہے۔ یہاں میں نے دلچسپ بات پڑھی کہ غالب آسمانی کتب ماہِ رمضان میں ہی نازل ہوتی رہیں۔ اس کے علاوہ قدیم خطاطی کے نمونے اور قرآن کی تاریخ بھی یہاں پڑھی جاسکتی ہے۔ قرآنِ کریم کی قدیم تدوین اور تحریر کے نادر نمونے مصنف نے بہت محنت سے جمع کرکے ایک ہی صفحے پر رکھ دیئے ہیں۔

سفرِ طائف

سفرِ طائف کا احوال، اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو گزری ، اس کا دردناک احوال بیان کیا گیا ہے۔ البم میں طائف کے اس مقام کی تصویر بھی ہے جہاں آپ نے لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دی اور اب وہاں ایک مسجد تعمیر کردی گئی ہے۔



جنات کا ایمان لانا میں سفرِ طائف کے بعد اور مسجدِ جن کی تصویر بھی ہے جہاں سات جن اسلام پر ایمان لائے۔

اس کے بعد اسرا و معراج کا احوال نایاب تصاویر کے ساتھ ہے جس میں قوانینِ فطرت کے برخلاف اللہ تعالیٰ کو اپنی قدرت دکھانا مقصود تھی۔ رات کے ایک قلیل حصے میں جسم وجاں کے ساتھ حالتِ بیداری میں بیت المقدس سے صدرالمنتہیٰ تک کا سفر زماں و مکاں کی قیود سے آزاد تھا۔

فاضل مصنف نے مکہ المکرمہ کے قدیم قبرستان جنت المعلیٰ پر بھی ایک باب باندھا ہے۔ یہاں خود آپ کے آباواجداد مدفون ہیں۔ اس کے بات معجزہ شق القمر کا مختصر اور جامع احوال ہے۔

بیعتِ عقبہ جب چند اولین لوگ گھر سے باہر تبلیغ کی صورت میں ایمان لائے ۔ اسی مضمون میں مکہ کے محلہ بنی ہاشم میں حضرت عبداللہ کے مکان کا ذکر اور تصویر بھی ہے۔

غارِ ثور حیات نبوی کا ایک اہم باب ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس کا راستہ کیوں دشوارگزار ہے اور اس کی نایاب تصاویر بھی دی گئی ہیں۔

اس سے آگے دینِ اسلام کی راہ میں مبارک ہجرت کا مختصر احوال پیش کیا گیا ہے۔ جسے تفصیلی نقشوں سے سمجھایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امِ معبد اور حضرت ہند رضی اللہ کا وہ مختصر بیان ہے جس میں آپ کے چہرہ انور کے خدوخال لفظی تصویر میں بیان کئے گئے ہیں۔



اس کے بعد پہلے جمعے کا پہلا خطبہ جس سے وابستہ مسجدِ جمعہ کا بیان بھی کیا گیا ہے۔ اس کے بعد قبہ و یثرب کا احوال ہے۔

آقائے دوجہاں، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کی مختصر تاریخ مدینتہ النبی کے نام سےکی گئی ہے۔ اس مضمون میں اثرب سے یثرب کا سفر اور پھر مدینہ کا دلچسپ جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مضمون نگار نے مسجدِ نبوی کے نام سے عقیدت بھرا ماجرہ لکھا ہے۔ اس مضمون میں گویا آپ مسجدِ نبوی کی ایک ایک گوشے کو نایاب تصاویر کے ساتھ نئے سرے سےدریافت کرسکیں گے۔

اسی ضمن میں محراب نبی کا علیحدہ سےذکر کیا گیا ہے جس کا احوال عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معمور ہے۔ اس کے مبارک منبر کا ذکر ہے۔ پھر ایک باب صرف گنبد پر باندھا گیا ہے۔ ابوابِ مسجدِ نبوی کی تاریخ ، توسیع اور تزئین کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے میناروں کا احوال بیان کیا گی اہے۔ مصنف نے گویا ماہرِ تعمیرات کا لبادہ اوڑھ کر عرب دنیا میں مینارات ، ان کی اقسام ارتقا ار طرزِ تعمیر کو آسان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

مدینہ میں بسنے والے یہودی قبائل کے بعد غزوات اور سرایا کا مفصل ماجرہ بیان کیا گیا ہے۔ ان میں غزوہ احد، خندق، خیبر، موتہ، تبوک، جیسے مشہور معرکے بھی شامل ہیں۔ صلح حدیبیہ اور بیعتِ رضوان کا مفصل تعارف بھی ہے۔

پھر ایک دور آتا ہے جب نورِ اسلام کی تابانی سرزمین عرب سے باہر نکلتی ہے اور دعوت وتبلیغ بین الاقوای سطح پر شروع ہوجاتی ہے۔

اس کے بعد فتح مکہ کا شاندار بیان ہے جسے تصاویر سے مزین کیا گیا ہے۔ پھر انسانیت کا سب سے عظیم اور پہلا چارٹر حجتہ الوداع اور خطبے کی صورت میں ہمارے سامنے آگیا ہے جس کا ایک ایک لفظ بار بار پڑھنے اور سننے کے قابل ہے۔

آؒخر میں جنت البقیع جائیں اور وہاں کا احوال پڑھئے۔ اس کے بعد آپ کے وصال اور مملکتِ سعودی عرب کا ماضی اور حال تاریخ وار بیان کیا گیا ہے۔

لیکن ہم اس تاریخی کتاب میں چند نایاب تصاویر کا ذکر نہ کریں تو ناسپاسی ہوگی۔



اسلامی عہدیں عکاظ کے بازار کے آثار، مقامِ ولادت حضرت ابراہیم، ، نمرود کا بنایا ہوا چاند دیوی کا مندر ،قبرِ مبارک حضرت ابراہیم علیہ السلام، محلہ بنی ہاشم، والد ماجد کی قبر جو اب باقی نہ رہی، اور حضرت عبداللہ کا مکان،اور ان کا محلہ، ولادت پر بجھنے والا آتش کدہ وغیرہ۔

اس کے علاوہ مقبرہ حضرت خدیجہ جو اب باقی نہ رہا، اور آپ کا مبارک مکان جو اب بھی برقرار ہے۔ طائف کا دعوتِ مقام ، طائف کا باغ اور زید بن حارثہ، مسجدِ اقصیٰ کی دیوار براق، غارثور کی نایاب تصاویر۔



وہ مکان جہاں مدینے کی بچیوں نے گیت کاکر استقبال فرمایا، ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تلوار، توپ کاپی میوزیم، ، میدانِ بدر کا اہل نایب کتبہ، ، قصویٰ اونٹنی سے منسوب نشانات، ، غزوہ احد کا غار جہاں حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے آرام فرمایا، ، صلح حدیبیہ کے پاس تاریخی کنواں، ، خیبر اورقلع قموص کی شاندار یادگار تصاویربھی آپ ہی کے لیے موجود ہیں۔

مشاہیر کی رائے

ممتازعلمی و ادبی شخصیات نے اس کتاب کو سراہا ہے اور اسے نہایت مفید قرار دیا ہے۔

عبدالجبار شاکر جیسی علمی شخصیت اس تصنیف کے بارے میں رقمطراز ہیں:

"اس راہِ ہجرت کا جائزہ لیجئے، غارِ ثورکا تصور کیجئے، امِ معبد کا حلیہ نامہ سماعت فرمائیے، قبا میں ورود کا نظارہ کیجئے، سلع کی چوٹیوں پر نبی آخرالزماں صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا استقبال دیکھئے، مسجدِ نبوی کی تعمیر پرتوجہ دیجئے، صفہ کے چبوترہ پر بیٹھیے، اسطواناتِ رحمت، سے ٹٰیک لگایئے، ریاضِ الجنہ کے ماحول میں آجایئے، مسجدِ نبوی کے محراب ومنبر کو دیکھئے، ابوابِ مسجد نبوی سے گزریئے، اسی کے قریب، بقیع الغرقد میں تشریف لے جائیے۔"



سرسید یونیورسٹٰی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے چانسلر زیڈ اے نظامی نے لکھا،

سیرت البنی صلی اللہ علیہ وسلم ، کو آثارکی تحقیق سے مزین کرکے برصغیر میں سیرت نگاری کو ایک نئی اور اہم جہت دی گئی ہے۔ جہاں سیرت نگاری کو ٹھوس علمی بنیادیں فراہم کی گئی ہیں، وہیں اس کے نقد و تحقیق کا حق بھی ادا کردیا گیا ہے۔

محمد ذاکر علی خان

شاہ صاحب کی تازہ تخلیق، نشانات ارض ہے جو اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ منظر عام پرآئی ہے۔ 348 صفحات پر مشتمل یہ شہ پارہ ، ہر لحاظ سے ایک تاریخی، تحقیقی، اور تخلیقی دستاویز ہے۔ اس کا ہرصفحہ نہ صرف دماغوں کو جلا بخشتا محسوس ہوتا ہے بلکہ ایمان کو تازگی بھی فراہم کرتا ہے۔ انہیں دیکھ کر قاری پر عجیب سی روحانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

آئینہ ماہ و سال میں تاریخ وار سیرت بیان کی ہے جو آپ کی ولادت با سعادت سے شروع ہوتی ہے۔ مصنف نے اس میں عرب رہن سہن ، اونٹ کے نام اور دیگر تفصیلات کو بھی بیان کیا ہے۔ ماہ و سال کے ساتھ ہی مشہور اور اہم واقعاتِ سیرت کا طائرانہ جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں