انسان کے خواب اور ہزاروں خواہشیں

دیگر تمام تخلیقات اور انسان میں بنیادی فرق علم و عقل کا ہی ہے ...


S Nayyer May 04, 2014
[email protected]

گزشتہ کالم میں ، ہم نے انسان کی خواہشات اور انسان کے خوابوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان خواہشات اور خوابوں کے حقیقت میں تبدیل ہونے کا ذکر کیا تھا ، اورعمروعیار کے فرضی اور طلسماتی کردار کی زنبیل کا حوالہ دیتے ہوئے اسے موجودہ دورکے کمپیوٹر سے تشبیح دی تھی کہ کمپیوٹر میں اس کی میموری کے مطابق جتنا چاہیں ڈیٹا فیڈ کردیں۔ کمپیوٹر کی جسامت میں عمرو عیارکی فرضی زنبیل کی طرح کوئی فرق نظر نہیں آتا اور اس کے وزن پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اسے با آسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔

عمرو عیار کی زنبیل دراصل انسان کا ایک خواب اور اس کی ایک خواہش تھی کہ کاش کسی ایسی چیز کا حقیقت میں کوئی وجود ہوتا ، جس میں اس کائنات کی ہر چیز سما سکتی اور اس کو با آسانی اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی کیا جاسکتا ۔ آج کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی شکل میں یہ انسانی خواب عملی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ انسان پرندوں کی طرح آسمان کی وسعتوں میں اڑنے کا خواہشمند تھا اور سمندر کی گہرائیوں کو بھی ناپنا چاہتا تھا ۔ یہ بھی ممکن ہوچکا ہے ۔ چاند پر قدم رکھنے کی خواہش بھی پوری ہوچکی ہے اور اس کائنات کے مزید سیارے آنے والے وقتوں میں انسانی قدموں تلے روندے جانے کے منتظر ہیں ۔

پچھلے کالم میں سب سے بنیادی عنصر یہ باقی رہ گیا تھا کہ ایسا کیوں کر ممکن ہوسکا ؟ اسی بنیادی سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے زیر نظر تحریر کی ضرورت محسوس ہوئی اور اسی تشنگی نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کردیا تا کہ موضوع کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا جاسکے ۔ کمپیوٹر میں آپ وہی کچھ دیکھ سکتے ہیں جو اس میں فیڈ کیا گیا ہو ۔ یا وہی فارمولا اس میں روبہ عمل آسکتا ہے جو اس میں ڈالا گیا ہو ۔ یعنی کمپیوٹر دراصل اپنی حدود اسی مقام تک محدود رکھتا ہے ، جس جگہ تک اسے محدود کردیا جائے اور یہ حدود متعین کرنے والا دراصل اس کا خالق یعنی انسان ہے۔

کمپیوٹر اپنی یادداشت اور مصنوعی ذہانت کے حوالے سے انسان کی شاہکار ایجاد ہے ۔ خود انسان کی یادداشت اتنی تیز ہے اور نہ ذہانت اتنی تیز رفتاری کے ساتھ نتائج مہیا کرسکتی ہے ، جس تیزی کے ساتھ انسان کے ہاتھ سے تخلیق کردہ یہ کمپیوٹر کرسکتا ہے ۔ لیکن اس کی رفتار اور اس کی حدود کا تعین اس کے تخلیق کار یعنی انسان کے ہاتھ میں ہے ۔ کوئی بھی تخلیق اپنے خالق کی مرضی و منشاء کے بغیر بذات خود اپنی طاقت میں اضافہ نہیں کرسکتی ۔

نادرا کا ڈیٹا بیس سسٹم جس میں تقریباً پورے پاکستان کی آبادی کا ڈیٹا موجود ہے ۔ کسی بھی ایسے شخص کے بارے میں معلومات مہیا کرنے سے قاصر ہے ، جس کے بارے میں کوئی معلومات اس سسٹم کو فراہم ہی نہیں کی گئی ہوں ۔ کمپیوٹر کی یادداشت اپنے خالق یعنی انسان کی یادداشت سے لاکھوں گنا تیز ہے ،لیکن یہ دراصل انسان کی یادداشت کا ضمنی حصہ اور اسی کی تیزی ہے ، جسے انسان نے ایک آلے کی شکل میں ڈھال دیا ہے ۔ اب اسی فارمولے کو آپ خود انسان پر لاگو کریں اور خود انسان کے خالق یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود پر غور کریں جو صرف انسان ہی نہیں اس پوری کائنات کے ایک ایک ذرے کا بھی خالق ہے ۔ اسی نے انسان کو اس اعزاز سے نوازا کہ اسے اشرف المخلوقات قرار دیا ۔ اس کائنات کے تمام سیارے چرند ، پرند خونخوار درندے ، شجر ، حجر ، سمندر اور پہاڑ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہیں۔ اور انسان اس کی تمام تخلیقات میں سب سے افضل قرار پایا۔

دیگر تمام تخلیقات اور انسان میں بنیادی فرق علم و عقل کا ہی ہے ۔ یہ علم و عقل ہی ہے جس نے بندوق ایجاد کی اور شیر جس کی جسمانی طاقت انسانی طاقت کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے ، اسے انسان کئی فٹ کی دوری سے کسی قسم کی جسمانی طاقت استعمال کیے بغیر اسی بندوق کی مدد سے بھیجا اڑا کر مار ڈالتا ہے ۔ جس طرح کوئی کمپیوٹر انسان کی متعین کردہ حدود سے باہر نہیں جاسکتا ۔ اسی طرح خود انسان بھی تو اپنے خالق کی متعین کردہ حدود کے اندر ہی رہنے پر مجبور نہیں ہوگا ؟ جس انسان نے کمپیوٹر اور دیگر لاتعداد حیرت انگیز ایجادات کر کے زمانے کو حیرت زدہ کر رکھا ہے ، خود اس انسان کو یہ عقل و شعور عطا کرنے والا خالق کیسا ہوگا ؟

ہوش اڑا دیتا ہے ایک خاک کے پتلے کا جمال

وہ خود کیا ہوگا ؟ اسے ہوش میں لانے والا

یہاں پر میں ایک تھیوری قائم کرتے ہوئے اگر یہ کہوں کہ پتھر کے زمانے سے لے کر آج تک کے انسان نے اپنے ارتقائی سفر کے دوران جتنے خواب دیکھے اور جو اس کی خواہشات تھیں پہلے کہانیوں اور فلموں کی صورت میں سامنے آئیں لیکن رفتہ رفتہ مختلف علوم بالخصوص سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے یہ حقیقت کا روپ دھار گئیں ۔ طلسم و ہوش ربا اور دیگر جادوئی کہانیاں اس کی بہترین مثال ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ انسان کے خالق رب کائنات نے انسان کو وہی خواب اور خواہشات عطا کی ہوں جو کہ علم و عقل کے ذریعے حقیقت میں تبدیل ہوسکتی ہوں ؟ جو خواب اور خواہش حقیقت نہ بن سکے ہوسکتا ہے انسان ان کے بارے میں سوچتا ہی نہ ہو ؟ اور ان کے خواب اس لیے نہ دیکھ سکتا ہو کہ انسان کے خالق نے اپنی اس تخلیق کی حدود متعین کردی ہوں ؟ یعنی انسان وہی کچھ سوچتا اور خواہش کرتا ہے ، جو خدا تعالیٰ نے انسان کے لیے ممکن بنا رکھا ہے ، بشرطیکہ علم و عقل استعمال کرتے ہوئے محنت کرے ۔

ہمیں ایسے کئی واقعات تاریخ میں ملتے ہیں جب قدرت کی طرف سے انسان کو اشارے دیے گئے کہ ایسا ممکن ہے ۔ مثلاً فتح مصر و ایران کے معرکے میں ایک جنگ کے دوران دشمن ایک پہاڑی کے پیچھے سے اسلامی لشکر پر حملہ آور ہونے ہی والا تھا اور اسلامی فوج کے سپہ سالار اس حملے سے بے خبر تھے ۔ مقام جنگ سے ہزاروں میل کی دوری پر خلیفہ وقت اور حکمرانوں کے حکمران سیدنا عمر فاروقؓ اس وقت مسجد نبوی میں وضو کر رہے تھے ، وہ اچانک کھڑے ہوئے اور انھوں نے فرمایا '' خبردار جبل ( پہاڑ ) کے پیچھے '' یہ سن کر دوسرے لوگ حیران ہوئے کہ امیر المومنین کس سے مخاطب ہیں ؟ لیکن لشکر اسلام جب فتح کے بعد مدینہ لوٹا تو سپہ سالار نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ '' میں بے خبر تھا جب امیر المومنین کی آواز میرے کانوں تک پہنچی '' خبردار جبل ( پہاڑ ) کے پیچھے ۔'' میں سنبھل گیا اور ہم نے دشمن کی چال ناکام بنا دی ''۔

مدینے میں لوگوں نے تصدیق کی کہ یہ وہی وقت تھا جب حضرت عمر ؓ نے یہ جملہ ادا کیا تھا ۔ کیا یہ قدرت کی طرف سے ایک اشارہ نہیں تھا کہ ہزاروں میل دور بیٹھ کر جنگ کا منظر دیکھا جاسکتا ہے اور آواز کا سفر بھی ممکن ہے ؟ کیا ڈیڑھ ہزار قبل برس کوئی سیٹلائٹ اور موبائل فون کے بارے میں سوچ بھی سکتا تھا ؟ لیکن آج یہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ زندگی کے معمول کا حصہ ہے ۔ اس کے علاوہ واقعہ معراج آسمانوں کے سفر کی ایک ایسی رواداد سناتا ہے ، جس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام خدا کے حکم سے نبی کریم ﷺ کو براق نامی سواری کے ذریعے آسمانوں کی سیر کرانے لے گئے اور واپس لے آئے اور یہ اتنی مختصر مدت کا سفر تھا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو بکر ؓ سے فرمایا '' جب میں معراج سے واپس آیا تو میرا بستر گرم تھا اور دروازے کی زنجیر بھی ہل رہی تھی ۔''

کیا اس دوران کائنات کے ہر دم حرکت پذیر نظام کو ڈی وی ڈی کے ذریعے دیکھی جانے والی فلم کے کسی سین کی طرح ریموٹ سے جام (Pause) کردیا گیا تھا ؟ جب کہ سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ نظام شمسی کا یہ عمل ایک مرتبہ رکا تھا اور یہ تقریباً وہی زمانہ بتایا جاتا ہے جب رب جلیل نے اپنے محبوب ترین انسان کو آسمانوں کی سیر کروائی تھی ۔ کل جو نا ممکن تھا آج ممکن ہوچکا ہے۔ اور جو آج نا ممکن دکھائی دیتا ہے ہوسکتا ہے کہ کل ممکن ہوجائے ۔ اگلی نشست میں ہم مذہب اور جدید علوم پر بحث کریں گے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں