امید مکرر

اوروں کی طرح اکثر میرا بھی اسکول کالج گلی محلے کا پرانا دوست آ ملتا ہے ....


Hameed Ahmed Sethi May 04, 2014
[email protected]

DASU: یورپ امریکا اور دیگر سرد ممالک میں موسم سرما کی ابتدا ہوتی ہے تو بے شمار پاکستانی جو بغرض ملازمت تعلیم یا نقل مکانی کر کے وہاں قیام پذیر ہیں اپنے عزیزوں دوستوں سے ملنے کے لیے پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ اوروں کی طرح اکثر میرا بھی اسکول کالج گلی محلے کا پرانا دوست آ ملتا ہے اور کبھی تو یوں سمجھئے بچھڑے دوست سے تجدید ملاقات ہو کر خوشگوار دن لوٹ آتے ہیں۔ اس بار نصرت جاوید ذرا طویل غیر حاضری کے بعد آیا لیکن قیام کا دورانیہ بھی زیادہ لے کر آنے کی وجہ سے میرے حصے میں چھ سات دن آ گئے۔ اس کا مطالبہ بھی مجھ سے ایسی جگہوں اور باتوں کا تھا جنھیں اکثر آنے والے نظر انداز کر دیتے یا غیر ضروری گردانتے ہیں۔

میں اسے کار میں لیے ایک نئی آبادی کی بارونق دو رویہ سڑک پر تھا کہ اس نے ایک گیس اسٹیشن کے سامنے کھڑی گاڑیوں کی طویل قطار کے سامنے رک جانے کے لیے کہا۔ کئی گاڑیوں کے ڈرائیور ان میں بے سدھ پڑے دیکھ کر اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا میں نے اسے دور و نزدیک مزید CNG اسٹیشن دکھا کر بتایا کہ دو گھنٹے بعد سپلائی کھلے گی اس مقصد کے لیے گاڑیوں والے قطاریں لگائے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ میرے دوست نے پوچھا کہ اگر گیس کم تھی تو اتنے زیادہ اسٹیشن کیوں کھلے۔میں لاجواب ہو گیا کیونکہ پلاننگ اور کرپشن میں آپس کا رشتہ خود میری فہم کی گرفت سے بھی باہر تھا۔ بہرحال اس بارے میرے دوست کا مطالبہ تھا کہ وہ پاکستان کے ان معاملات و حالات کے بارے میں آگہی چاہتا ہے جن پر اس نے پہلے کبھی توجہ نہیں دی تھی۔

ایک روز شہر کی لوڈشیڈنگ والی رات سیر کے دوران اس نے ایک گرائونڈ میں تاریکی میں بیٹھے بہت سے لوگوں کو تاک لیا اور گاڑی رکوا کر مجھے ہمراہ لے کر گروپ کی شکل بیٹھے لوگوں کے پاس رک کر مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ وہ گروپ بے کار یاروں دوستوں کا تھا جو ہنسی مذاق کرتے ہوئے سگریٹ وغیرہ پی رہے تھے۔ میں نے اپنے دوست کو واپس کار کی طرف لیجاتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ چقماق پتھروں کی تلاش میں نہیں بیٹھے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ ختم ہونے کے انتظار میں وقت KILL کر رہے تھے بتائو اتنی زیادہ تاریکی میں یہ لوگ اس سے بہتر اور کیا کام کر سکتے تھے۔ ہماری مین پاور کے ضیاع کا نمونہ دیکھ کر میرا دوست بولا کیا تمہیں معلوم ہے تمہاری حکومت کتنی بڑی دولت کے استعمال سے خود کو محروم رکھے ہوئے ہے۔

ہم ایک مصروف سڑک پر جا رہے تھے کہ نصرت جاوید نے کار ایک طرف رکوا کر کہا وہ دیکھو پانچ ٹریفک وارڈن ایک درخت کے سائے میں کھڑے آپس میں خوش گپیوں کے ساتھ ساتھ موبائل فونوں پر دوستوں یا ہم سروس ساتھیوں سے گپ شپ کر رہے ہیں۔ وہ حیرت سے پھر بولا یہ ٹریفک کنٹرول کرنے کی بجائے جمگھٹا لگائے تفریح میں کیوں مشغول ہیں میں نے جواب دیا ہماری ٹریفک خود اپنا رستہ بنا لیتی ہے۔ یہ کسی بتی والے اشارے کو بھی خاطر میں نہیں لاتی اور یہ ٹریفک وارڈن بھی جاہل ان پڑھ نہیں ماشاء اللہ گریجویٹ ہیں۔ میرا دوست بولا وہ پرانی والی ٹریفک پولیس کافی محنتی اور متحرک ہوتی تھی۔ پھر وہ مجھ سے پوچھنے لگا کیا تم نے کبھی ہمارے ملک میں سڑکوں پر پولیس کا ہجوم دیکھا ہے۔ میں نے چونکہ ان کی سڑکوں پر پولیس دیکھی ہی نہیں اس لیے چپ رہا۔

چند روز بعد ایک جگہ ہم نے لوگوں کا ہجوم دیکھا تو قریب چلے گئے۔ دو آدمی تھپڑوں گھونسوں سے لڑائی کر رہے تھے۔ لوگ ایک کو پکڑتے تو دوسرا اسے پیٹنے لگتا دوسرے کو روکتے تو پہلا اس پر گھونسوں کی برسات کرنے لگتا۔ تھوڑی دیر میں دونوں لہولہان ہو گئے تو پولیس بھی وہاں آن پہنچی اور دونوں کو پکڑ کر پولیس وین میں بٹھا لے گئی اور ہجوم مایوس ہوکر تتر بتر ہو گیا۔ میرا دوست بولا ایسے مناظر دیکھے بہت مدت ہو گئی تھی۔

میں نے کہا تمہارے ملک میں تو ریسلنگ دیکھنے کے لیے ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔ ایک روز میرے اس دوست نے تمام اخباریں اکٹھی کر کے پڑھنی شروع کیں۔ خبروں میں اس نے بھتہ خوری، اغوا، زنا، قتل، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں جیسی خبروں کے گرد پنسل سے دائرے لگانے شروع کیے اور پھر بولا اللہ کرے میں خیریت سے زندہ سلامت واپس چلا جائوں۔ میں نے کہا پوری اخبار پڑھو ان میں خیر خوشی کی اور اچھی خبریں بھی ہیں اور ہمیں اچھے دنوں کی امید بھی ہے۔

ایک شام میں اسے ایک پینٹنگز کی نمائش پر لے گیا جہاں ایس اے رند کی پینٹنگز کی نمائش تھی۔ افتتاح کے بعد وہ میرے ہمراہ اس REVIVERA GALLERY نامی گیلری میں کافی خوش گھومتا رہا اور بولا بعض پینٹنگز کے نیچے یہ سرخ ڈاٹ کیا لگے ہیں میں نے بتایا کہ یہ فروخت ہو چکی ہیں اس پر وہ حیرت سے بولا اس کا مطلب ہے پاکستان میں بہتری کے امکانات موجود ہیں۔

میں اسے ایک رات کار میں ہلکا پر سرور میوزک لگا کر شہر کی بھر پور رونق اور مہنگی مارکیٹ کے بازار لے گیا۔ کار روکی تو ریستوران سے ایک باوردی ملازم سیلوٹ مار کر کار کی ویلے پارکنگ کے لیے حاضر ہو گیا میں نے کار کی چابی اس کے سپرد کی اور مہکتے چہکتے ریستوران میں داخل ہو کر خالی میز تلاش کرنے میں ناکام ہو کر انتظار والے صوفے پر بیٹھ کر اسے بتایا کہ میز خالی ہونے کا انتظار کرنا ہو گا۔ میرا دوست بولا مجھے امید ہے حالات اچھے ہو جائیں گے۔

اس سے اگلے دن اس نے آرمی چیف کا اخباروں میں چھپا بیان کہ ''فوج جمہوریت اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے'' اور اس سے اوپر وزیر اعظم کا بیان پڑھا کہ ''اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے'' یہ خبریں پڑھ کر میرا دوست بولا میں اب ملک میں بہتری آنے کے بارے میں مزید پر امید ہو گیا ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں