آخر کیا
اپنے غلط موقف سے رجوع کرنا اور اپنی غلطیوں پر ندامت اور اصلاح کرنا یہ کسی بھی طرح خامی نہیں کہی جاتی
حالات کو دیکھیے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب چیئرمین پی ٹی آئی اپنی سیاسی زندگی کے اختتامی دور سے گزر رہے ہیں، عجیب بات یہ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جو خوبیاں ہیں وہی ان کی خامیاں بھی ہیں، ان کی ہر خوبی اب ان کی خامی بنتی جا رہی ہے وہ اپنے انجام کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
وہ کہتے تھے کہ ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ یہاں قانون کی عمل داری نہ ہو۔ یہ سولہ آنے کھری بات ہے نہ صرف یہ کہ کوئی بھی اس سے اختلاف نہیں کر سکتا بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ملک کی تقدیر بدلنے کا واحد راستہ قانون کی حکمرانی ہے، مگر قانون کی یہ حکمرانی چیئرمین پی ٹی آئی اپنے علاوہ ہر شخص پر چاہتے ہیں، وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں، اپنے مخالفین کو تو قانون شکن سمجھتے ہی ہیں مگر وہ اپنے ساتھیوں اور بہی خواہوں (اگر کچھ ہوں تو) کو بھی قانون کے تابع رکھنا چاہتے ہیں مگر ان سے بھی وہ غیر قانونی اطاعت کے خواہاں ہیں۔
یہی وہ تضاد ہے جو ان کی ناکامی کا باعث ہے۔ اس سلسلے میں نہ وہ کسی کی بات سمجھتے ہیں نہ کسی واقعہ سے سبق حاصل کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ درست ہے اور جوکر رہے ہیں وہ حق ہے۔ صحیح اور غلط کا معیار ان کے نزدیک ان کی مرضی ہے نہ کہ اصول۔ اس انداز فکر نے انھیں ایک جمہوری سیاسی لیڈر کے بجائے ایک ڈکٹیٹر کی حیثیت دے دی ہے۔
ان کی ایک خوبی مستقل مزاجی اور اپنے موقف پر قائم رہنا ہے، مگر یہ بھی تو سوچیے کہ یہ ضدی پن اور اپنے غلط موقف پر اڑے رہنا کب درست ہوتا ہے۔ یہاں بھی ان کا مزاج وہی ہے کہ ان کا اور صرف ان کا موقف درست ہے۔ باقی ہر شخص غلط ہے، چناں چہ وہ اپنے غلط اور احمقانہ موقف پر بھی سختی سے قائم رہتے ہیں اور اس پر اصرار کرتے رہتے ہیں وہ اپنی غلطیوں کو ادراک کرنے سے قاصر ہیں اور اب 9 مئی 2023 کے افسوس ناک واقعات کے بعد ان کے ساتھی ان کو جس طرح دھڑا دھڑ چھوڑ رہے ہیں اور وہ تنہائی کی طرف بڑھ رہے ہیں تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھی ہم آہنگی پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔
یہ ایسا وقت تھا جب وہ اپنے رویے پر نظرثانی کرتے، اپنی خامیوں کا احساس کرنے اور اپنی پارٹی کی بقا کے لیے مناسب اقدامات کرتے مگر وہ تنہائی سے خوفزدہ نہیں، بلکہ اس کا احساس بھی کھو بیٹھے ہیں وہ بڑے طم طراق سے کہتے ہیں کہ وہ گرفتاری سے نہیں ڈرتے مگر وہ گرفتاری کے خوف سے روز جیتے اور روز مرتے ہیں اور یہ کم بخت حکومت انھیں ہنوزگرفتار نہیں کرتی۔ ان کے قول و فعل کا یہ تضاد بھی اب پوری طرح عیاں ہوچکا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی ایک خوبی ان کی دین سے وابستگی ہے مگر یہ وابستگی بھی ان کے اپوزیشن کے ہم مشربوں جیسی ہی ہے، وہ ایاک نعبد و ایاک نستعین سے اپنی گفتگو شروع کرتے ہیں، مگر یہ الفاظ ایسے ہی ہیں، جیسے ایک بچے کو قرآن کی کوئی آیت سکھا دی جائے اور وہ کسی بھی وقت گھر میں آنے والے مہمانوں کو اپنی لیاقت جتانے کے لیے وہ آیت سنا دے۔ وہ ہاتھ میں تسبیح بھی رکھتے ہیں اور مدینہ منورہ میں ننگے پیر چلنے کا دکھائوا بھی کر لیتے ہیں، مگر اسلام سے ان کی وابستگی صرف اتنی ہے کہ ان کے ایک ساتھی تقریرکے دوران ان کے کان میں کہتے ہیں '' سر اپنی تقریر میں تھوڑا سا '' اسلامی ٹچ '' بھی دے دیجیے اور وہ فوراً ہی ایک جملہ اسلام کے بارے میں کہہ کرگویا اسلام کا حق ادا کر دیتے ہیں۔
دراصل ان کا اسلام گھریلو مکتب کا حاصل کردہ اسلام ہے، جس کی مضحکہ خیزی ہم سب پر عیاں ہے، اس لیے ان کی اسلام پسندی کوکبھی پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ان کی شخصیت میں جاذبیت ہے مگر ان کی مقبولیت میں ان کی خوبیوں سے زیادہ ان کے مخالفین کی خامیوں کا بڑا دخل ہے قوم ان سے مایوس ہوکر ان سے توقعات لگا بیٹھی ہے مگر یہ اپنے شخصی تضادات اور نظریاتی کم توقیری کے باعث ایک جمہوری راہ نما بن سکے اور بالآخر وہ ایسی حماقتیں کر بیٹھے جس نے ان کو تنہا کردیا مگر وہ اب بھی اپنے ذہن میں محفل سجائے ہوئے ہیں تنہائی سے ناآشنا ہیں اور شاید خود اور پارٹی کو پہنچنے والے نقصانات سے آگاہ نہیں ہیں۔
اپنے غلط موقف سے رجوع کرنا اور اپنی غلطیوں پر ندامت اور اصلاح کرنا یہ کسی بھی طرح خامی نہیں کہی جاتی، بلکہ یہ محاسن انسان کی بڑائی اور اس کے قد میں اضافے ہی کا باعث ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے موصوف اس حوالے سے شدید قسم کی غلط فہمی کا شکار رہے اور انھیں محسوس ہوا کہ اگر وہ غلطی کا اعتراف اور آیندہ اسے نہ دُہرانے کا عزم کریں گے تو چھوٹے ہوجائیں گے۔ گو کہ وہ بیانات اور موقف بدلنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے، لیکن یہ سارا عمل ان کے سیاسی مفادات کے لیے ہوتا ہے، بے سوچے سمجھے اور وقتی سیاسی افادے کی خاطر ہوتا ہے۔
ایک موقف سے دوسرے اور پھر تیسرے موقف اختیار کرلینے میں اگر وہ یہ کہیں کہ پچھلی بات ان سے سرزد ہوئی یا فلاں تجربے سے انھوں نے یہ سبق سیکھ لیا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں، تو یقیناً یہ امر خود ان کے لیے بھی بھلے کا باعث ہوتا، لیکن افسوس انھوں نے ایسی کوئی روش نہیں اپنائی، نتیجتاً ان کے سیاسی سفر کا انجام قریب دکھائی دینے لگا ہے۔