آتش فشاں کے دہانے پر…
کیچڑ اور بد بو سے گندگی کا تصور ابھر کر سامنے آگیا۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر۔۔۔
زندگی اور مسائل کا آپس میں گہرا تعلق ہے، مسائل کو زندگی سے اور زندگی کو مسائل سے جدا نہیں کرسکتے۔ زندگی کے مسئلوں کو جتنا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اتنا ہی الجھتے چلے جاتے ہیں اور ڈور کا سرا غائب ہو جاتا ہے۔
لیجیے صاحب اب ایک نیا مسئلہ۔ مسائل کے اس انبار پر بیٹھا ہوا انسان گویا آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھا ہے بس اب پھٹا کہ جب پھٹا اور لاوا بہہ نکلے گا۔
مسئلے بھی زندگی کی روح کو نگلتے جارہے ہیں، روح سسک رہی ہے اور زندگی دم توڑ رہی ہے مگر مسئلہ تو گویا پہاڑ ہے جو اپنی جگہ سے سرکتا ہی نہیں ہے۔ سر ٹکرائو اور چوٹ کھائو، مسئلے پر آپ صرف گفتگو کرسکتے ہیں۔ گرما گرم آخر کو گفتگو کے لیے بھی تو موضوع چاہیے۔ اگر مسئلے ختم ہوگئے تو بات کس پر ہوگی۔ دھوکے کس بنیاد پر دیے جائیں گے۔ ووٹ کیسے مانگے جائیںگے اور مسئلوں سے آزاد سوچ سمجھ رکھنے والے لوگوں سے کیسے نمٹا جائے گا۔ آپ انھیں کیسے بے وقوف بنائیںگے۔
ان غربت کے ماروں کو مسئلوں میں الجھائے رکھو، دیکھئے کتنی دانشمندی کی بات ہم نے آپ کو بتائی ہے، سمجھداری کی بہت سی باتیں ہمارے پاس ہیں لیکن اب ہم اتنے بھی بے وقوف نہیں کہ سب کچھ آپ کو بتا دیں پھر ہمارے پاس کیا بچے گا۔
صاحب یہ دور ''کچھ دو کچھ لو'' کا ہے۔ گویا سودا ہوتا ہے، اب تو مشورے بھی بکتے ہیں، لفظوں کی طرح پہلے قلم کی حرمت تھی مگر اب تو قلم بھی خرید لیے جاتے ہیں، غربت کے مارے کیا کریں، پیٹ کی دوزخ کو بھی تو بجھانا ہے مگر جو پیٹ بھرے ہیں وہ ایسا کیوں کرتے ہیں تو صاحب ان کے پیٹ نہیں خندق ہیں۔ خیر ہمیں کیا انسان کو ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ دوسروں کے کاموں میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔ یہ مداخلت ہی تو فساد برپا کرتی ہے۔ کبھی شعوری کبھی عادتاً اور کبھی قصداً۔ صرف چھیڑنے کے لیے۔ بس یہ چھیڑ چھاڑ کی لت بری لگ گئی ہے، قوم کو اپنے دامن پر چھینٹیں ہی چھینٹیں اور ہاتھ دوسروں کے گریبان پر بس موقع ملنے کی دیر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب گفتگو کے لیے کوئی موضوع ہی نہیں رہ گیا ہے۔ صرف ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں لوگ مصروف ہیں۔ عجب مشغلہ قوم کو ہاتھ آگیا ہے۔
جب انسان کے پاس کچھ کرنے کو نہیں رہے گا تو وہ بحث کرتا، بغیر دلیل کے ہوا میں تیر اچھالتا ہے۔ تیز چیخ چیخ کے بول کر سامنے والے کو ڈراتا ہے اور آخر میں بحث لا حاصل، حاصل وصول تو ختم ہی ہوگیا ہے بالکل بحث کے انجام کی طرح اور تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کی طرح انکوائری بھی اسی زمرے میں آتی ہے، زور شور کے ساتھ ایک خبر آتی ہے اور پھر اگلی خبر اسی کی جگہ لے لیتی ہے۔ لوگوں کا حافظہ کمزور ہے، بے چارے پہلی خبر بھول جاتے ہیں، مظلوم آکر روتے ہیں دہائی دیتے ہیں، انصاف کی امید دلائی جاتی ہے۔
انجام و سزا کا عمل اس قدر لمبا اور طویل ہے کہ اتنی دیر میں ایک اور چونکا دینے والی خبر آجاتی ہے۔ خیر خبریں تو آئیںگی اب آپ کو کیا پتہ کہ خبروں میں رہنے کے لیے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ کیوں کہ آج کل ایک اور شوق بڑھ گیا ہے، وہ ہے خبروں میں رہنے کا۔ خبروں میں رہنے پر جو جتن اور کوششیں لوگ کرتے ہیں اس سے زیادہ تو جتن ہمیں زندہ رہنے کے لیے بھی بہت کرنے پڑتے ہیں۔ جب کہ دور حاضر میں زندگی اس قدر بے قیمت ہوچکی ہے کہ اکثر آدمی سوچتا ہے کہ زندہ رہنے سے بہتر ہے کہ مرجائے، یہی وجہ ہے کہ خودکشی اور قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہورہاہے، عجب تہذیب وتمدن کے دہانے پر آکر ہم کھڑے ہوگئے ہیں، بے حس، پہلے واردات کی خبر پر تہلکہ مچ جاتا تھا اور اب ایک عام سی خبر سمجھ کر لوگ گزر جاتے ہیں کسی خاص خبر کے انتظار میں۔
ابھی ابھی میرے بھائی نے اطلاع دی ہے کہ پڑوسی کی خالہ آرہی ہیں لیجیے صاحب خالہ کیا آئیں گی گھنٹہ بھر پورے محلے کی خبریں سنائیںگی۔ اپنے گھر کی خبر نہیں اور نظر ہے دوسروں کے گھروں پر، یہ بھی ایک فطرت و عادت سی ہوتی جارہی ہے۔ اپنے عیب نظر نہیں آتے دوسروں کے عیب تلاش کررہے ہیں، عیبوں کو اچھالنے کی بیماری بھی عام سی ہوتی جارہی ہے، ہم نے یہ سوچنا چھوڑ دیا ہے کہ اگر کیچڑ میں ہاتھ ڈالیںگے تو ہمارے اپنے ہاتھ بھی بدبو دار ہو جائینگے۔
کیچڑ اور بد بو سے گندگی کا تصور ابھر کر سامنے آگیا۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر، اگر اسی صورت حال میں بے موسم برسات ہوجائے تو، تو کیا ہوگا تعفن، بیماریاں اور ڈاکٹرز کی چمکتی دکانیں، معلوم نہیں کیوں لوگ اپنے گھر کی گندگی دوسروں کے گھروں کے سامنے ڈال دیتے ہیں، وہ بھی ڈھٹائی سے۔ شاعر نے صحیح فرمایا تھا۔ ''شرم تم مگر نہیں آتی'' شرم ہوگی تو آئے گی نا۔ جب ہے ہی نہیں تو کہاں سے آئے گی۔ نلوں میں پانی نہیں، گلیوں اور سڑکوں پر گٹر ابلتے ہیں، وقتی صفائی اور پھر وہی نقشہ۔
اب تو لگتاہے کہ شہر کا نقشہ بدلتا جارہاہے، روشنیوں کے شہر کو لوڈ شیڈنگ نے تاریکیوں میں ڈبودیا، اب تو آپ مارکیٹ جائیں یا کسی رشتے دار کے گھر، لوڈ شیڈنگ کے ٹائم معلوم کرکے جائیں۔ پہلے گیس کی لالٹین پھر ایمرجنسی لائٹ اور اب UPS پھر جنریٹر، ٹینکر مافیا سے تنگ آکر لوگوں نے کنوئیں کھدوانے شروع کردیے اب اگر کنوئیں بھی خشک ہوگئے تو!
ہم تو وہ لوگ ہیں کہ جب پانی آتا ہے تو بے دریغ سڑکوں پر بہاتے ہیں، بغیر یہ سوچے سمجھے کہ یہ ہماری سڑکیں ہی تو بہتے پانی کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی فوراً ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔ زیادہ پائیدار ہوںگی تو نیا ٹھیکہ کیسے ملے گا۔ جب پانی نہیں آتا تو بوند بوند سنبھال کر رکھتے ہیں۔ چیزوں کی قدر جب ہوتی ہے جب وہ نایاب ہوجائیں۔
مہنگائی میں بجٹ کو سنبھالنا مشکل ہوگیا ہے۔ وبائی امراض کی طرح مہنگائی بھی جان لیوا ثابت ہونے لگی ہے۔ ہائے ہم نے اپنی ننھی ننھی جانیں ہوا کے دوش پر رکھی ہوئی ہیں۔ ٹمٹاتی لو کو کہاں کہاں سے بچائیں۔ دور ایسا آگیا ہے کہ بچ بچا کر نکلنا مشکل ہوگیا ہے۔ ہر جانب شکاری شکار کے لیے جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ نظر کمزور جال باریک، آدمی پھنسے گا نہیں تو کیا ہوگا۔ شریف بیچارہ ہی پھنسے گا ہائے یہ شرافت پہلے وقار و اعزاز تھا مگر اب کمزوری بنتی جارہی ہے۔ طاقتور بننے کے لیے اب تو ؟
یہ طاقتور اور کمزور کا کھیل بھی خوب ہے، ازل سے جاری ہے، کمزور بے چارہ تو ایسا لگتاہے کہ مارکھانے کے لیے ہی دنیا میں آیا ہے اور طاقتور حکومت کرنے کے لیے، یہ دونوں کردار ہمیشہ سے تھے۔ اور زندگی کی کہانی میں ہمیشہ شامل رہیںگے۔ ان کی حیثیت اور مقام کبھی تبدیل نہ ہوںگے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ان کی جگہ نئے کردار لے لیں۔ لیکن صرف ناموں کی تبدیلی کے ساتھ۔ فطرت عادت جبلت تبدیل نہ ہوگی۔
لیکن ہم تبدیلی کی توقع کرسکتے ہیں ہم جیسے کمزوروں کو کم از کم خواب دیکھنے کا اختیار تو ہے۔ ایک کمزور شخص سے یہ اختیار بھی چھین لیا گیا تو پھر اس کے پاس باقی کیا بچے گا؟