دلی کے دو خواجہ
حق تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہیے اور اس کے سوا کسی سے امید نہیں رکھنی چاہیے
دلی کو دارالاولیا بھی کہتے ہیں، کیوں کہ یہاں بے شمار صاحب نسبت اور اہل اﷲ مدفون ہیں۔ ان بزرگوں کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ ان میں کوئی ''محبوب الٰہی '' کوئی '' قطب القطاب'' کوئی ''چراغ دہلی'' کوئی '' فنا فی اﷲ'' کوئی ''مخدوم'' کوئی '' متوکل'' اور کوئی '' باقی باﷲ'' کہلایا۔
کہتے ہیں دلی بائیس خواجہ کی چوکھٹ ہے، ان میں چند بہت مشہور ہیں، دلّی جانے والے ان بزرگان دین کے مزارات پہ ضرور جاتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں، روزانہ ہزاروں زائرین بنا تقسیم مذہب و زبان یہاں آتے ہیں اور اپنی مرادیں پاتے ہیں، ان میں حضرت قطب الاقطاب حضرت خواجہ بختیار کاکی، حضرت خواجہ نظام الدین اولیا، حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلی، حضرت امیر خسرو اور حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی زیادہ مشہور ہیں۔
حضرت خواجہ بختیار کاکی کا تعلق خاندان چشت سے تھا۔ آپ کا نام قطب الدین ہے، آپ کے بختیار کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے پیر و مرشد خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی آپ کو بختیار کہہ کر بلاتے تھے، اسی بنا پر آپ بختیار کہلائے۔ آپ کے پیر و مرشد حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے آپ کو قطب الاقطاب کا خطاب دیا۔
آپ کے ''کاکی'' کہلانے کی وجہ دارالشکوہ نے اپنی تصنیف '' سفینۂ الاولیا '' میں لکھا ہے کہ خواجہ بختیار کے پڑوس میں ایک بقال (سبزی فروش) رہتا تھا، خواجہ صاحب کی اہلیہ عسرت کی وجہ سے بہت پریشان رہتی تھیں،خواجہ کی اہلیہ اکثر اس بقال کی بیوی سے قرض لے لیا کرتی تھیں اور جب سہولت ہوتی واپس کر دیتیں۔
ایک دن وہ کہنے لگی کہ اگر ہم تمہیں قرض نہ دیں تو تمہارا کام کیسے چلے۔ یہ بات حضرت بختیار کے علم میں آئی تو انھوں نے اپنی اہلیہ سے کہا، حجرے کے طاق میں ہاتھ ڈال کر جتنی روٹیاں مطلوب ہوں، وہ اٹھا لیا کرو، چنانچہ وہ ایسا ہی کرنے لگیں، ان روٹیوں کو ''کاک'' کہا جاتا تھا، اسی نسبت سے وہ کاکی کہلاتے ہیں۔
وفات سے پہلے ایک عید کے موقع پر حضرت قطب صاحب عید گاہ سے واپسی پر ایک دور افتادہ مقام سے جا رہے تھے، وہ ایک جگہ اچانک رک گئے، کچھ دیر وہ وہاں رکے رہے اور سوچ بچار میں غرق رہے، جو لوگ ہمراہ تھے، انھوں نے عرض کیا کہ حضور کس سوچ میں غرق ہیں۔ وہ بولے '' مجھے اس جگہ سے دلوں کی بُو آتی ہے، اس زمین کے مالک کو حاضر کرو۔'' مالک زمین حاضر ہوا تو حضرت قطب صاحب نے اپنے زر خاص سے اس زمین کو خرید لیا اور اس زمین کو اپنا مدفن قرار دیا، یہی وہ جگہ ہے جہاں آج حضرت خواجہ قطب بختیار کاکی کا مزار مبارک ہے۔
حضرت بختیار کاکیؒ سے بہت سی کرامات وابستہ ہیں، آپ کو سماع کا بہت شوق تھا، جب آپ دہلی تشریف لائے تو آپ اور قاضی حمید الدین ناگوری سماع سنتے تھے، جب اس کی اطلاع سلطان شہاب الدین کو ہوئی تو وہ بہت ناراض ہوا۔ اس نے کہا کہ '' اگر پھر مجھے معلوم ہوا کہ انھوں نے سماع سنا ہے تو اسی وقت دار پر کھنچوا دوں گا یا جلا کر خاک کر دوں گا۔'' حضرت خواجہ قطب نے فرمایا '' اچھا۔۔۔ اگر وہ سلامت رہے گا تو ہمیں دار پر کھنچوائے گا، یا جلا کر خاک کر دے گا۔'' اسی مہینے میں سلطان شہاب الدین خراسان کی طرف چلا گیا، اور پھر چند روز کے اندر ہی اندر اس کا انتقال ہو گیا۔
حضرت قطب ملتان میں مقیم تھے، ناصر الدین قباچہ ملتان کا حاکم تھا، ایک دن وہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا کہ '' مغلوں کا لشکر ملتان فتح کرنے آیا ہے، مجھ میں مقابلے کی سکت نہیں، خدا کے لیے میری مدد کیجیے۔'' حضرت قطب نے اسے ایک تیر دیا اور ہدایت کی کہ مغرب کی نماز کے بعد برج حصار پر چڑھ کر یہ تیر بہ ذریعہ کمان دشمن کی طرف پھینک دینا اور خدا کی قدرت کا تماشا دیکھنا۔ قباچہ نے ایسا ہی کیا، تیر کا گرنا ہی تھا کہ مغلوں کے لشکر نے راہ فرار اختیار کی۔
محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیا۔۔۔ آپ نے علوم ظاہری میں کمال حاصل کیا اور علما و فضلا میں بیٹھنے لگے۔ تحصیل علوم کے بعد آپ بدایوں سے دہلی تشریف لے آئے اور وہیں سکونت اختیار کی اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے بھائی شیخ نجیب الدین متوکل کے پڑوس میں مکان کرائے پر لیا۔ ایک روز آپ قطب الاقطاب حضرت بختیار کاکیؒ کے مزار پر تشریف فرما تھے۔ وہاں ایک مجذوب سے ملاقات ہوئی، آپ نے اس مجذوب سے درخواست کی کہ وہ ان کے لیے دعا کریں کہ وہ قاضی بن جائیں، اس مجذوب نے جواب دیا کہ '' نظام الدین قاضی ہونا چاہتے ہو، اور میں تم کو دین کا بادشاہ دیکھتا ہوں، تم ایسے مرتبے پر پہنچو گے کہ تمام عالم تم سے فیض اٹھائے گا۔
آپ کو اپنے پیر حضرت فرید الدین گنج شکر سے انتہائی محبت تھی اور اس کی بدولت حضرت بابا فرید الدین گنج شکر نے آپ کو بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ آپ کا ابتدائی زمانہ بڑی عسرت سے گزرا، اس زمانے میں آپ کے پاس ایک سکہ بھی نہ ہوتا تھا، ایک دن ایک فقیر آیا اور کہا کہ ان کے ہاں جو پک رہا ہے وہ لاؤ، اس وقت ان کے گھر میں آش جو (جو کا پانی) آپ نے آش جو کی پکتی ہوئی ہانڈی اس فقیر کے سامنے لا کر رکھ دی، اس نے گرم گرم آش جو کھایا اور پیا اور ہانڈی کو زور سے زمین پر دے مارا اور کہا '' نظام الدین نعمت باطنی سے تم کو بابا فرید الدین گنج شکر نے سرفراز کیا اور تمہارے فقر ظاہری کی ہانڈی میں نے توڑ دی۔'' حضرت بابا فرید الدین گنج شکر نے آپ کو دعا دی کہ خدا کرے بے شمار نمک روزانہ تمہارے باورچی خانے میں خرچ ہو۔
آپ کے پیر و مرشد کی یہ دعا قبول ہوئی اور آپ کے باورچی خانے سے بے حساب نمک کے تھیلے لہسن پیاز کے چھلکے باورچی خانے سے نکلتے تھے۔ آپ کی سخاوت کا یہ حال تھا کہ جو کچھ آتا وہ سب خرچ کر دیتے۔ آپ کے یہاں سے بہت سے لوگوں کی پرورش ہوتی تھی اور بہت سے طلبا اور حافظوں کی مدد کی جاتی تھی۔ آپ کی سخاوت اور دریا دلی دیکھ کر شاہان وقت کو حیرت ہوتی۔ آپ کو سماع سے بہت دلچسپی تھی۔ آپ نے پیر و مرشد کی مجالس کے حالات قلم بند فرمائے، اس کتاب کا نام '' راحت القلوب'' ہے۔
اس میں بابا فرید الدین گنج شکر کے حالات ہیں۔ آپ نے دعا کرنے کا یہ طریقہ بتایا کہ دعا کے وقت اپنے گناہوں کا خیال دل میں نہیں لانا چاہیے، اگر گناہ کا خیال دل میں آئے تو دعا کی قبولیت میں سستی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لیے دعا کے وقت صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت پر نظر رکھنی چاہیے اور یقین رکھنا چاہیے کہ دعا ضرور قبول ہوگی۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ دعا کے وقت دونوں ہاتھ کھلے رکھنے چاہئیں اور سینے کے برابر ہونے چاہئیں یعنی دونوں ہاتھ ملا کر اوپر رکھنے چاہئیں اس طرح کہ جیسے ابھی کوئی چیز ملنے والی ہو۔
حق تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہیے اور اس کے سوا کسی سے امید نہیں رکھنی چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ اسما الٰہی میں '' یاحی یا قیوم '' اسم اعظم ہے اس کا ورد کرنا چاہیے۔ دعا کثرت سے مانگنی چاہیے اور اﷲ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔