دیپ کا الاؤ

آج کے سماج میں سیاسی شعور اور زندگی کی بلاغت و فصاحت کے لیے ضروری امر ہے کہ ہم اپنی نسل میں سیاسی بالیدگی پیدا کریں


وارث رضا July 02, 2023
[email protected]

کبھی کبھی کے سفر ،یادوں کو تخلیق میں ڈھالنے کا اتنا خوبصورت حوالہ بن جاتے ہیں کہ پھر بس دل چاہتا ہے کہ پرانا نظریاتی یار اور مزدور حقوق کا وکیل ناصر منصور اپنے بیتے دنوں کی نہ پٹاری بند کرے اور نہ سفر مکمل ہو، گو میں نے تو صرف رضویہ سوسائٹی، سی 35 اور احمد نوید کی سیاسی وابستگی کا ایک در ہی کھولا تھاکہ میں اور ناصر منصور بس انھی یادوں میں محو گفتگو کرتے درکار جگہ پہنچ گئے اور مزدور کانفرنس کا حصہ ہوگئے، مگر اس وقت تک مجھ میں عفت نوید کی خود نوشت ''دیپ جلتے رہے''پر لکھنے کا خاکہ تیار ہو چکا تھا۔

احمد نوید جس کو نئی نسل میر احمد نوید سے جانتی ہے ،ہمارے منہ سے احمد نوید کے علاوہ''میر'' نجانے کیوں کڑوے بادام کی طرح حلق سے اترتا ہی نہیں ہے، اس بے تکلفی کا اپنا ہی سواد ہے ،جو شاید بعض کے لیے بد مزہ ہو،اس سارے عمل میں کم از کم پرانی دوستی نہ سہی مگر احمد کی سیاسی عہد جوانی تو ہمیں ضرور یادرہتی ہی ہے،وہی سی 35کا دفتر ۔انیس ہاشمی کی بلند قامت شخصیت اور سوشلسٹ خیالات پر مبنی نیشنل یوتھ لیگ میں احمد نویدکا متحرک ہونا بلکہ اس تنظیم میںکراچی کا صدر ہوناتھا،اب تک ساتھیوں کو یاد ہے۔

یہ آمر جنرل ضیا کا وہ دور تھا جس میں انسانی آزادی کی بات کرنا جرم تصور کیا جاتا تھا،اسی ابتلا اور آزادی کے قحط میں احمد نوید کی شاعری اور نظم''نئی تعمیر کے خواب'' نوجوانوں کے ولولوں کو جگانے کا کام کیا کرتی تھی ،اور یہ بھی کم ہی دوست جانتے ہیں کہ عفت شاید احمد نویدسے شادی کے بعد تک سوشلسٹ خیالات کی لیبر پارٹی خواتین ونگ میں متحرک رہنے والی سیاسی باشعور ورکر تھیں ، شاید اسی واسطے اب تک عفت اور احمد نویدباشعور یک جان دو قالب کی یکتا مثال ہیں۔

دیپ جلانے کاکٹھناؤں بھرا سفر جب عفت کے شکم مادر کی ٹیسوں بھرے اظہار سے کتابی صورت میں ڈھلتا ہے تو ''دیپ جلتے رہے'' سیاسی فکری اور ادبی تاریخ کے ساتھ سماجی آگہی کی ایسی داستان بن جاتا ہے ،جو کم از کم ہر عورت کا با شعور اظہار ہونا چاہیے،چھوٹے چھوٹے واقعات میں انسانی رویوں کے اتار چڑھاؤ اور ان تمام سے سیکھنے اور برتنے کا سلیقہ عفت نے اس خوبصورتی سے تحریر کیا ہے ،جس سے لکھنے کے ترغیبی عمل کی چاہ ضرور نظر آتی ہے،اب عفت کی اس کوشش سے کتنی مہلائیں استفادہ کر سکیں یا نہیں۔

یہ نہ میرا مسئلہ ہے اور نہ ہی شاید عفت کو اس میں سر کھپانے کی ضرورت ہے ،کون جانے کہ تنگ دستی اور دوسروں کے رویوں کی تلخی میں کس طرح صابر رہنا پڑتا ہے،اس ہنر سے عفت ضرور بہت سوں سے زیادہ آگاہ لگتی ہیں،میں نے جب انجمن ترقی پسند مصنفین کی باگ ڈور سنبھالی تو اس کی بنیادی شرط لکھاری ہونا تھی،انجمن کے منتظم ہونے کے ناتے افسانہ اور نثر میرا موضوع رہا ،کبھی کبھار اچٹتے ہوئے شاعری یا نظم کی طبع آزمائی بھی کی،مگر بعد کو لگا کہ یہ کام ہمارے جانی جون ایلیا ،حسنین جعفری اور احمد نوید ہی بہتر انداز سے کر سکتے ہیں،بلکہ شاعری کے انصافی تقاضے بھی یہی تین افراد نبھا سکتے ہیں۔

ان دنوں میرا ایک افسانہ ''لکڑی'' کے عنوان سے بہت مشہور ہوا،جس کا مرکزی خیال اور جملہ تھا کہ''جو شخص تنگ دست نہیں رہتا وہ زندگی کے مفاہیم سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے،بلکہ زندگی خوشحالی میں خود کو تنگ داماں سمجھنے لگتی ہے'' وغیرہ۔مجھے نہیں معلوم کہ میرے افسانے کے اس جملے سے عفت واقف تھی یا نہیں،مگر مجھے عفت کی کتاب ''دیپ جلتے رہے'' پڑھتے ہوئے یہ اطمینان ضرور ہوا کہ میرے لکھے گئی افسانوی خیال کی عملی تفسیر عفت نوید کے ہاں ہے،جس نے اپنے تجربات سے زندگی کا وہ گیان حاصل کیا جو شایدتجربے کے بجائے صرف افسانہ ہی رہ جاتا۔

عفت نوید نے احمد نوید کی خوبصورتی کا اظہار کرتے ہوئے جہاں یہ لکھا ہے کہ''احمد کی خوبصورتی کے مقابلے میں عفت کو اس کے شاگرد بھی بمشکل قبول کرتے تھے،عفت نے احمد پر مر مٹنے والی جہاں نیلی آنکھوں والی کی خوبصورتی کا ذکر کیا ہے وہیں طے شدہ رشتے سے انکار کی وجہ بد تہذیبی کا عنصر بھی بتایا ہے،عفت خوبصورتی کے معاملے میں گورے رنگ اور ستواں ناک کی روایت کے ساتھ زمانے کے چلن کو دیکھتی ہے جب کہ میرا ماننا ہے کہ احمد نوید کے ابتلا اور کسمپرسی کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے والی عفت ہی وہ آفرین ہے جس کی مہک احمدنوید کو نہ صرف مسحور کیے ہوئے ہے بلکہ عفت اس کا حصار ہے۔

عفت کی خود نوشت میں جہاں خانہ بدوشی کے منظر نظر آتے ہیں وہیں وہ سفر کے دوران تھکنے کے بجائے سفر وسیلہ ظفر کے مصداق اسے ایک ایسے تجربے کے طور پر دیکھتی ہے جو اسے ہر قدم پر کچھ سکھا رہا ہے،اور وہ اس پنچھی کی طرح محو سفر ہے جو اپنی غذا کا درماں ہر صورت کر لیتی ہے،ویسے تو ہم سب اس دنیا کے کرائے دار ہیں مگر پھر بھی زمین کے خدا بن کر بزعم خود طاقت کا منبع سمجھنے کو عفت نے حقارت سے دیکھا ہے اور رائج چلن کے برعکس عفت نے اپنے مالکوں کے رویوں سے جہاں تنگ دستی میں راہ بنائی وہیں وہ یہ پیغام دینے میں بھی کامیاب رہی کہ مشکل میں صبرکے ذریعے ہی حل نکلتا ہے،گویا فیصلے کرنے میں جلدی یا فوری طور سے گھبرانے والے زندگی کو نہ پا سکتے ہیں اور نہ ہی زندگی ان کے قریب پھٹکتی اور نہ ہی کلکاریاں کرتی ہے۔

مجھے ہمیشہ سے عفت اور احمد نوید کی زندگی کا اٹوٹ حصہ معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض لگیں، کیوں، کیسے اور کیونکر اس کی تفاصیل نہ بتانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسے کسی کو سمجھانے کی مجھے پرواہ،ہاں البتہ خاموشی اور بغیر شور شرابے چاہنے اور اپنے دکھ درد بانٹنے کا جو رشتہ فہمیدہ ریاض،احمد نوید اور عفت کے درمیان رہا ہے وہ ان تین کے علاوہ شاید ہی کوئی جانے،البتہ ایک موقع پر احمد نویدکی اس بات سے میرا بالکل اتفاق نہیں کہ جہاں اس کا خیال ہے کہ ''عفت اور میں نے اپنے بچوں کی مذہبی یا سیاسی Conditioningنہیں کی،ان میں زندگی کا شعور پیدا کیااور انھیں انسان اور قدرت ''فطرت'' سے محبت کرنا سکھایا اور انھیں آزاد فضا میں سانس لینے کے لیے فرقہ واریت اور سیاست سے دور رکھا تاکہ وہ فطرت سے ہم آہنگ ہوکر اس سے بلند ہو سکیں۔''

میں احمد نوید کی زندگی کے بارے میں سوچ و خیال کو سنوارنے اور نکھارنے میں سیاسی شعور اور بالیدگی کو اہم سمجھتا ہوں،اگر سماجی اور سیاسی طور پر عفت اور احمد نوید پختہ کار نہ ہوتے،زمانے کی پیچیدگیوں کا ہنر نظریاتی سیاست سے نہ سیکھتے تو یہ دونوں مثالی یکتاکبھی بھی نا مساعد حالات میں ہمت و شجاعت کا نشان نہ ہوتے،اس لیے آج کے سماج میں سیاسی شعور اور زندگی کی بلاغت و فصاحت کے لیے ضروری امر ہے کہ ہم اپنی نسل میں سیاسی بالیدگی پیدا کریں تاکہ وہ عفت نوید اور احمد نوید کی مانند کٹھناؤں کو شکست دینے والے وہ سالار بن جائیں کہ جن کی تربیت اور مشکلات سے زندگی سمجھنے کے دیپ ہمیشہ بس جلتے رہیں،دیپ کو خواب سے جلتے رہنے تک کے سفر کی راہی عفت نوید کو جرات کا سلام۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں