حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا فیصلہ کن مرحلہ

اب اگر طالبان کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو پھر بلاتاخیر آپریشن کیا جانا ضروری ہے


فیاض ولانہ April 30, 2014
اب اگر طالبان کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو پھر بلاتاخیر آپریشن کیا جانا ضروری ہے۔ فوٹو : فائل

آزادیٔ صحافت پر حملے تو وطنِ عزیز کے باسیوں نے گزشتہ 68 سالوں کے دوران بارہا دیکھے مگر چند روز قبل جنگ و جیو گروپ کی جانب سے شتر بے مہار صحافتی بے لگامی کے نتیجے میں ریاستی اداروں پر کیا جانے والا آزادیٔ صحافت کا حملہ ایک تیر میں کئی شکار کیے بیٹھا ہے۔

عام آدمی کو نظر یہ آ رہا ہے کہ پاکستان کے ایک سینئر صحافی حامد میر کو گزشتہ دنوں کراچی میں نامعلوم حملہ آوروں نے چھپ کر وار کرتے ہوئے گولیوں سے چھلنی کر دیا اور غم و غصے کی رو میں بہتے ہوئے حامد میر کے بھائی نے قومی سلامتی سے متعلق انتہائی اہم ریاستی ادارے آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ پر اس حملے کا الزام عائد کردیا۔ قاتلانہ حملے میں بچ جانے والے حامدمیر کی جانب سے دیے گئے پیشگی بیان کو منظرِ عام پر لانے کی حد تک اس الزام کو شاید عوام کے ساتھ ساتھ خواص بھی محض ایک الزام کے طور پر سن لیتے مگر اس کے بعد کم و بیش آٹھ گھنٹے تک اس الزام کو مسلسل دہرایا جانا اور پھر پاکستان مخالف بھارتی میڈیا کا اس ایک الزام کی آڑ میں پاکستان کے خلاف زہر آلود پروپیگنڈے کا نہ تھمنے والا سلسلہ ملکی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب تصور کیا جائے گا۔

پاک فوج اور آئی ایس آئی کی جانب سے جوابی ردعمل لامحالہ تھا، وزیراعظم نواز شریف اور ان کی حکومت کے لیے البتہ یہ کڑے امتحان سے کم نہیں۔ پاکستانی میڈیا اور پاکستان بھر کے صحافی بھی شاید پہلی بار اتنی بڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں کہ ایک طرف وہ سینئر صحافی پر کیے جانے والے قاتلانہ حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرنا چاہتے ہیں مگر وہ جس ادارے سے وابستہ ہیں اس ادارے کی انتظامیہ کا نہ سمجھ آنے والا روّیہ اس احتجاجی روّیے کی شدت روکے کھڑا ہے۔ پاکستان بھر کے عوام پہلی بار صحافیوں اور صحافتی اداروں کی حب الوطنی اور پاکستان دوستی کو یقین کی حد تک شک کی نظروں سے دیکھنے لگے ہیں۔

اس اجتماعی تاثر کے پیش نظر چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے سربراہ وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں قومی سلامتی کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں شریک ہوئے تو وزیراعظم نواز شریف نے از خود آئی ایس آئی کی حمایت میں لمبا چوڑا بیان دے ڈالا۔ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ قومی سلامتی سے متعلق اہم ترین ریاستی ادارے کے آئی ایس آئی کے سربراہ اور پاک فوج کے سربراہ کو اپنے ایک ادارے کے وقار پر کیے گئے حملے کے حوالے سے تشویش لاحق ہوئی تو انہوں نے بلاجھجھک اپنے سپریم کمانڈر وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف سے رجوع کیا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے معاملے کی نزاکت اور موقع کی مناسبت سے انتہائی حوصلہ افزاء بیان جاری کیا کہ ملکی دفاع، تحفظ اور سلامتی یقینی بنانے کے لیے آئی ایس آئی کا کردار قابل تحسین ہے۔ حکومت ریاستی اداروں کے وقار کا تحفظ اہم ترین ذمہ داری سمجھتی ہے۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے یہ بھی کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں کسی کو بھی قومی و ریاستی اداروں کے وقار پر حملے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ زندگی بھر آزادی صحافت پر حملے کی آڑ میں مظلومیت بیچنے والوں کو البتہ پہلی بار پاکستان کی صف اوّل کی سیاسی قیادت بشمول نواز شریف، عمران خان، چوہدری شجاعت حسین، الطاف حسین، چوہدری نثار علی خان، پیر پگاڑا، طاہر القادری، حافظ سعید حتیٰ کہ سنی اتحاد کونسل کے حامد رضا تک کے رہنماؤں کے مخالفانہ بیانات کا سامنا کرنا پڑا۔



ادھر پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت میں اس بات پر اتفاق پایا گیا ہے کہ قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کو فیصلہ کن مرحلے میں داخل سمجھا جائے اور طالبان قیادت کو بھی اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ایجنڈے کے تمام نکات پر حتمی بات کریں۔ اور اب اگر طالبان کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو پھر بلاتاخیر آپریشن کیا جانا ضروری ہے، وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت ہونے والے ایک اور اجلاس میں بجلی و گیس چوروں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا اہم فیصلہ کیا گیا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف کو وزارت پانی و بجلی کے حکام نے بتایا کہ ہمارے نادہندگان میں بڑے بڑے ادارے ہیں تو وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ پہلے بڑے نادہندہ اداروں کی ہی بجلی کاٹ دی جائے۔ اس حوصلہ افزاء ہدایت کے نتیجے میں وزارت پانی و بجلی نے چوبیس گھنٹے کے اندر ہی ایوان صدر، پارلیمنٹ ہاؤس، سی ڈی اے اور سپریم کورٹ سمیت متعدد اہم اور بڑے اداروں کی بجلی نادہندگی کے باعث کاٹ دی۔ شنید ہے کہ ان اداروں کے ذمہ دار افسران نے لاکھوں بلکہ کروڑوں کی ادائیگیاں یقینی بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔

وزارت پانی و بجلی کے حکام نے وزیراعظم کو یہ بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ 30 مئی تک نجی شعبے کے نادہندگان سے 99 فیصد واجبات کی وصولی کر لی جائے گی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وقت پر بل ادا کرنے والوں کو بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے نادہندہ اداروں اور شخصیات سے بلاتفریق سخت ترین اقدامات کرتے ہوئے وصولیاں کی جائیں۔ بجلی چوری روکی جائے اور بجلی کی بچت کا قابل عمل نظام وضع کیا جائے۔ وزیراعظم نواز شریف نے ایک ہفتے بعد وزارت پانی و بجلی کو اس حوالے سے رپورٹ دینے کو کہا ہے۔

وفاقی دارالحکومت میں پیر کی شام اس وقت پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا، جب لاپتہ افراد کے عزیز و اقارب نے ڈی چوک سے اپنا احتجاجی مظاہرہ آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوشاں تنظیم کی سربراہ آمنہ مسعود جنجوعہ کو لیڈی پولیس اہلکاروں نے گھسیٹ کر پولیس وین میں پھینکا اور گرفتارکرکے ویمن پولیس اسٹیشن لے گئی۔

وزیراعظم نواز شریف نے الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹ پر فوری ایکشن کرتے ہوئے آمنہ مسعود جنجوعہ اور ان کے ساتھیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا مگر آمنہ مسعود جنجوعہ رہائی کے بعد سیدھی ڈی چوک پہنچیں اور اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کیادھرا ہے۔ شنید ہے کہ یہ11 مئی کو اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کے ارادے رکھنے والے تحریک انصاف اور طاہر القادری کے کارکنان کی بھرپور مزاحمت کرنے اور ٹف ٹائم دینے کے لیے ریہرسل کی گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں