بجٹ ہندسوں کا گورکھ دھندہ

بجٹ میں عام آدمی کےلیے اگر کچھ ہوتا ہے تو وہ صرف ’’صبر‘‘ ہے


ایک عام آدمی کےلیے بجٹ میں کبھی کچھ نہیں ہوتا۔ (فوٹو: فائل)

وفاق کے بعد سندھ حکومت نے بھی اپنا بجٹ پیش کردیا۔ مزدور کی تنخواہ 35 ہزار مقرر کردی گئی، جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں تیس فیصد اضافہ کیا گیا۔ اسی طرح پنشن کی مد میں بھی ساڑھے 17 فیصد اضافہ کیا گیا۔ مہنگائی کے تناسب سے دیکھا جائے تو مذکورہ اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ تاہم سرکاری ملازمین کو پھر بھی تیس فیصد اضافے کے ساتھ تنخواہیں مل جائیں گی، وہ تو خوشی کے شادیانے بجا سکتے ہیں۔ مگر ایک عام آدمی کا کیا بنے گا، جس کی تنخواہ گزشتہ بجٹ کے مساوی بھی نہیں۔


ایک عام آدمی کےلیے بجٹ میں کبھی کچھ نہیں ہوتا۔ اگر بجٹ میں عام آدمی کےلیے کچھ ہوتا ہے تو وہ صرف ''صبر'' ہے۔ یعنی وہ صبر رکھیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ہر بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ فرض سمجھ لیا گیا ہے۔ مگر ایک عام آدمی جو ٹھیلہ لگاتا ہے، جو رکشہ چلاتا ہے، یا جس کا کوئی ذریعہ معاش نہیں، اس کےلیے بجٹ محض ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ اس بجٹ میں اس کےلیے آسانی کے بجائے مزید مشکلات ہوتی ہیں۔ وہ انسان پہلے ہی مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہوتا ہے اس پر مہنگائی کے وار کرکے مزید مار دیا جاتا ہے۔


بجٹ میں جس طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی جاتی ہیں اس طرح اگر وہ کام بھی کرلیں تو ملک کا آدھا مسئلہ یہ لوگ ہی حل کرسکتے ہیں۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ سرکاری ملازمین کی حالت یہ ہے کہ وہ صرف مہینے کی پہلی تاریخ کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں۔ دفتروں میں اگر غلطی سے نظر بھی آجائیں تو یہ عوام کی خدمت کے بجائے سوشل میڈیا کے استعمال پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ ہر ادارے کا حال برا ہے مگر وہاں کام کرنے والوں کی تنخواہیں اچھی ہیں اور ان کے حالات بھی دن بہ دن بہتری کی جانب گامزن رہتے ہیں۔ تاہم اس کے مقابلے میں ایک عام آدمی اور کم تنخواہ دار طبقہ ہر چیز پر ٹیکس ادا کرنے کے بعد بد سے بدحال ہوتا جارہا ہے۔


پٹرول میں اضافے سے ہر چیز پر اضافہ یقینی ہوتا ہے تاہم حکومت اگر ریلیف دینا ہی چاہتی تھی تو اسے کم ازکم پٹرول پر لیوی ڈیوٹی کم کرکے ایک عام آدمی تک اس بجٹ کے ثمرات پہنچا سکتی تھی۔ تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔ اگر ایسا کردیا جاتا تو یقینا عام آدمی کے حالات میں کچھ بہتری آتی۔ لیکن حکومت محض سرکاری ملازمین کو ہی نوازنے پر عمل پیرا ہے۔


چھوٹے کارخانوں اور گھریلو صنعت کےلیے دیے جانے والے قرضے آج تک غریب کی پہنچ سے دور رہے ہیں۔ ان پرلگائی گئی شرائط آج تک عام آدمی پورا نہیں کرپاتا۔ اگر غلطی سے کوئی ان شرائط کو پورا کر بھی لے تو بینک سے پیسے ملتے ملتے بھی ایک سال گزر جاتا ہے اور اس دوران پرانا والا سسٹم یہ کہہ کر ختم کردیا جاتا ہے کہ اب بجٹ میں ایسی کوئی پالیسی نہیں رہی لہٰذا آپ کو قرض نہیں مل سکتا۔ اب تک جن لوگوں کو قرض دیا بھی گیا ہے وہ لوگ بھی سکھی نہیں ہوسکے۔ ہم بجٹ پیش کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض پورا کرلیا، لیکن ایسا نہیں ہے۔ بجٹ میں ہمارا اپنا ذاتی ذرائع آمدن نہ ہونے کے برابر ہیں، زیادہ تر غیرملکی قرض ہی شامل ہے۔ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خسارہ کم سے کم دکھایا گیا ہو، بجٹ میں دکھایا جانے والا خسارہ اور حقیقی خسارے میں بھی زمین و آسمان کا فرق رہتا ہے۔


پرتعیش اشیاء پر معمولی ٹیکس لگا کر یہ کہہ دینا کہ مجموعی ٹیکس اہداف پورے کیے جاسکتے ہیں تو یہ قوم کو بے وقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں۔ آج بجٹ کو اس قدر مشکل سے مشکل دستاویز بنادیا گیا ہے کہ اسے سمجھنے کےلیے بھی ماہرین کی ایک پوری ٹیم درکار ہوتی ہے۔ ایسے میں عام آدمی اسے کیسے سمجھ سکتا ہے؟ جس کا مطلب یہ ہے کہ بجٹ دراصل عوام کےلیے نہیں بلکہ ان لوگوں کےلیے ہے جو اس گورکھ دھندے سے واقف ہیں۔


تعلیم اور صحت کے نام پر رکھا جانے والا بجٹ بھی صرف سرکاری ملازمین کے پیٹ میں چلا جاتا ہے۔ اس مختص بجٹ میں سرکاری ملازمین کی پورے سال کی تنخواہوں کا اسٹیمیٹ لگایا جاتا ہے جب کہ اس سے عوام کو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ بند اسکولوں اور زمین پر موجود نہ ہونے والے اسکولوں کے نام پر بھی تنخواہیں بدستور جاری کی جارہی ہیں۔ ان گھوسٹ اسکولوں کی لسٹ بھی اتفاق سے حکومت خود ہی جاری کرتی ہے اور یہ ہی حکومت جب ملازمین کی تنخواہ کی بات کرتی ہے تو اس لسٹ میں سب سے پہلے گھوسٹ ملازمین ہی موجود ہوتے ہیں، جو بجٹ کا بھرپور فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہوتے ہیں۔


صحت کا حال بھی زیادہ اچھا نہیں۔ ایک ایک ڈسٹرکٹ میں سات سے دس سرکاری ڈسپنسریاں موجود ہیں، جہاں عملہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن تنخواہیں بھرپور طریقے سے جاری کی جاتی ہیں، جس پر حکومت کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ اس ضمن میں ادارے بھی موجود ہیں جہاں پر ان کی شکایت کی جاسکتی ہے مگر اتفاق یہ ہے کہ ان اداروں میں بھی کوئی عملہ موجود نہیں ہوتا جو عام آدمی کی شکایت کو سنے اور اس کا تدارک کرے۔


بجٹ کے نام پر ہر سال عام آدمی کو لولی پاپ دیا جاتا ہے اور اس کی جیب سے بچا کھچا پیسہ بھی نکال کر اسے سڑک پر لاکر کھڑا کردیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورت حال آج بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ کوئی گلی، کوئی محلہ اسٹریٹ کرائم سے پاک نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پڑھا لکھا نوجوان نوکریاں ملنے اور بے روزگاری سے تنگ آکر یہ کام نہ کرے تو پھر وہ کیا کرے۔ عوام بھی ایسے نوجوانوں کو جہاں پکڑتے ہیں، وہیں مار کٹائی کرکے اپنا سارا غصہ ان پر نکال دیتے ہیں۔ لیکن آج تک کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ملک میں کوئی نیا کارخانہ نہیں لگ رہا، کوئی پروجیکٹ نہیں بن رہا، روزگار کا ذریعہ نہیں تو ایک عام آدمی اپنے بچوں کےلیے کیا کرے؟ اشیائے خورونوش کو آگ لگی ہوئی ہے، دودھ پر بغیر اجازت کے ہی دس روپے بڑھا دیے گئے مگر حکومت ابھی تک خواب غفلت میں ہے۔ آٹا، چینی، دال، سبزیاں، گھی، تیل سب کچھ مہنگا ہوچکا ہے مگر کنٹرول پرائس کا ادارہ محض تنخواہوں میں اضافے کی خوشی میں لگا ہوا ہے۔


حکومت بچت اسکیم پر عمل کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے پاکستان کے ان اداروں کو فوری طور پر بند کرے اور وہاں بیٹھے سرکاری ملازمین کو فارغ کرے جو عوام پر بوجھ بنتے جارہے ہیں۔ یہ کام حکومت آرام سے کرسکتی ہے مگر وہ کیوں نہیں کرتی، یہ وجہ سب جانتے ہیں۔ جہاں پارٹی کے لوگ بھرتی کیے جائیں گے تو پھر ادارے بھی پارٹی کی طرح ہی چلیں گے۔ ان اداروں میں کام کرنے والوں کا اولین فرض پہلے پارٹی کی خدمت ہوتا ہے۔ ملک کا ستیاناس ہوگیا ہے مگر آج بھی ہم پرانے طور طریقوں پر عمل پیرا ہیں۔ تنخواہوں پر ٹیکس سرکاری ملازمین پر جیسے معاف ہے، انہیں الاؤنس کی مد میں بھی بھاری رقم الگ سے دی جاتی ہے، ڈیوٹی ٹائمنگ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے ہے، مگر کسی ادارے میں شام چار بجے بھی کوئی سرکاری ملازم نہیں ملتا۔ صحت ہو، تعلیم، یا کوئی ادارہ ہو سب ملازمین بھاگنے میں پہل کرتے ہیں۔


اگر ایک عام آدمی کو ریلیف دینا ہے تو اس کے بہت سے راستے ہیں جس سے عام آدمی کو باآسانی اس کی دہلیز پر ریلیف مل سکتا ہے، مگرحکومت چاہتی ہے کہ ملک میں افراتفری والا ماحول رہے تاکہ ان کی دکانداری آرام سے چلتی رہے۔ ملک میں اگر سکون ہوگا تو پھر ان سیاستدانوں کو کون پوچھے گا۔ بس یہی سوچ ختم کرنے کی ضرورت ہے اور بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف دینے کی ضرورت ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں