ڈاکو کچے کا علاقہ اور حکومت

اغواء کرنے والے اتنے نڈر تھے کہ بچہ کو موٹر سائیکل پر بٹھا کے لے گئے


Dr Tauseef Ahmed Khan June 08, 2023
[email protected]

سندھ کے پسماندہ علاقہ کندھ کوٹ کے محلہ مرزا پور کی ایک گلی میں 9 سالہ بچہ سمرت کمار کھیل رہا تھا، نامعلوم افراد نے اسے اغواء کر لیا۔ سمرت کمار کے والدین نے پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کرائی۔ بااثر سرداروں اور منتخب نمائندوں سے التجاء کی مگر یقین دہانیوں کے باوجود سمرت کمار بازیاب نہ ہوا۔ سمرت کا تعلق اقلیتی ہندو فرقہ سے ہے۔

کندھ کوٹ اور جیکب آباد میں ہندو برادری کی بہت بڑی تعداد صدیوں سے آباد ہے۔ اغواء کرنے والوں کا مردوں کو اغواء کر کے تاوان وصول کرنا تو معمول کی بات بن گئی مگر اب بچے کے اغواء سے پوری اقلیتی برادری میں خوف و ہراس پیدا ہوگیا ہے۔

جب پولیس والوں نے والدین کی آہ و بکا پر توجہ نہ دی تو کسی دانا آدمی کے مشورہ پر سندھ ہائی کورٹ سے سمرت کمار کی بازیابی کی استدعا کی گئی۔ سمرت کے اغواء کا واقعہ کئی لوگوں نے دیکھا تھا۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ اغواء کرنے والے اتنے نڈر تھے کہ بچہ کو موٹر سائیکل پر بٹھا کے لے گئے۔ ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔

اس ویڈیو میں سمرت کو اغواء کرنے والوں کی تحویل میں دیکھا گیا۔ ڈاکوؤں نے یہ ویڈیو اس بناء پر وائرل کی تھی کہ بچے کے والد کو خوفزدہ کر کے زیادہ سے زیادہ تاوان وصول کیا جائے۔ سندھ ہائی کورٹ نے سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل کو حکم دیا کہ تین دن کے اندر بچے کو بازیاب کرایا جائے ۔

سمرت کے اغواء اور کندھ کوٹ اور نواحی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کے بارے میں خبریں اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر خوب مشہور ہوئیں۔ ہندو پنچایت نے کندھ کوٹ کے گھنٹہ گھر پر ایک احتجاجی کیمپ لگا دیا۔

سیاسی رہنماؤں، سماجی کارکنوں اور انسانی حقوق کی تحریک سے منسلک سیکڑوں افراد کے علاوہ دیگر عام شہریوں نے ہندو پنچایت کیمپ کا دورہ کر کے یکجہتی کا اظہار کیا۔ ان سب لوگوں کے سامنے ایک ہی سوال تھا کہ ڈاکو کھلے عام بچے کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر دریا کے ساتھ کچے کے علاقہ میں کس طرح لے گئے؟ سیاسی رہنما اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی یہ متفقہ رائے تھی کہ با اثر سردار اور منتخب اراکین ڈاکوؤں کی سرپرستی کرتے ہیں۔

سندھ کے ایک سندھی زبان کے اخبار نے کسی رہنما کا یہ بیان جلی حرفوں سے شایع کیا کہ تین با اثر سرداروں کا محاسبہ کیا جائے تو یہ بچہ برآمد ہوجائے گا اور مستقبل میں اس علاقہ میں سکون آجائے گا، مگر نامعلوم افراد نے احتجاجاً اس اخبار کی کاپیاں تقسیم نہ ہونے دیں۔

یوں ایک حقیقت سامنے آگئی کہ ذرائع ابلاغ پر بچے اغواء کے خلاف احتجاج کے معاملہ پر بھرپور کوریج ہوئی تو سندھ پولیس کے آئی جی اپنے اعلیٰ افسروں کے ہمراہ کندھ کوٹ آئے اور انھوں نے بچے کی بازیابی کی خوش خبری سنائی۔ یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ اس بچے کی رہائی کے لیے تاوان ادا نہیں کیا گیا مگر جن صحافیوں نے آئی جی کا بیان اپنے اداروں کو بھیجا انھیں بھی تاوان ادا نہ کرنے کے بیان پر حیرت ہوئی۔

انسانی حقوق کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم انسانی حقوق کمیشن HRCP کی چیئر پرسن حنا جیلانی کی سربراہی میں ایک ٹیم نے اندرونِ سندھ کا دورہ کیا اور سب سے حقائق جمع کیے تھے جو پہلے شائع نہ ہوئے۔ ایچ آر سی پی کی ٹیم نے ایک مفصل رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اندرون سندھ امن وامان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ شہریوں کو زندگی کا تحفظ حاصل نہیں ہے جو ان کا بنیادی حق ہے۔ اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ حالات اتنے خراب ہیں کہ انسانی حقوق کی کمیشن کو روزانہ سیکڑوں خواتین کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اغواء اور قتل کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔ اقلیتی فرقہ کے اراکین کو شکایت ہے کہ سب سے زیادہ نشانہ ان کے افراد بن رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس علاقہ میں گزشتہ سال اغواء کی 300 وارداتیں ہوئیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دریائے سندھ کے ایک طرف کشمور سے دادو تک ہزاروں ایکڑ پر مشتمل کچے کا علاقہ ہے اور دریا کے دوسری طرف گھوٹکی سے مورو تک بھی کچے کا علاقہ پھیلا ہوا ہے۔ یہ انتہائی خطرناک علاقے بن گئے ہیں۔

کچے کے علاقہ میں ڈاکو لوگوں کو اغواء کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں، ان میں ہنی ٹریپ بھی شامل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان ڈاکوؤں نے گزشتہ سال اس کاروبار کے ذریعے ایک بلین روپے حاصل کیے۔ گزشتہ ہفتہ سینیٹ کی داخلہ کمیٹی میں بتایا گیا کہ ڈاکوؤں کے پاس امریکی اسلحہ ہے جو وہ افغانستان میں چھوڑ آئے تھے۔

اس اسلحہ میں اینٹی ایئرکرافٹ گن، رات کو نظر آنے والی طاقتور دور بینیں اور دوسرا جدید اسلحہ شامل ہے۔ پولیس والے کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کہاں سے گولی آتی ہے۔

ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عام آدمی کو سیکیورٹی کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں۔ علاقہ کے مکینوں کا کہنا ہے کہ پنجاب اور سندھ کی سرحد پر سیکڑوں چیک پوسٹیں قائم ہیں پھر بھی ڈاکوؤں کو باقاعدہ اسلحہ ملتا ہے۔

ایک چینل کے رپورٹر کا جب WhatsApp پر ایک ڈاکو سے رابطہ ہوا تو اس ڈاکو نے بتایا کہ سابقہ پولیس اہلکار اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔ اس ڈاکو نے یہ بھی شکوہ کیا کہ جن ڈاکوؤں نے ہتھیار ڈال دیے تھے ان کے خاندان والے اب بھی تھانوں میں بند ہیں، یہ ڈاکو عام معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سندھ اور پنجاب کی پولیس ہر سال روایتی طور پر کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کا اعلان کرتی ہیں۔ دونوں صوبائی حکومتیں ان آپریشنوں کے لیے اربوں روپے کی گرانٹ بھی منظور کرتی ہیں۔ اعلیٰ حکام پولیس والوں کو جدید اسلحہ اور تیز رفتار محفوظ گاڑیاں دینے کا اعلان بھی کرتے ہیں۔

چند دنوں تک آپریشن کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنتی ہیں۔ چند ڈاکوؤں کے ہتھیار ڈالنے کی تصاویر میڈیا کو فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ اعلان ہوتا ہے کہ آپریشن ختم ہوگیا۔

کبھی کہا جاتا ہے کہ دریائے سندھ کا پانی کچے کے علاقہ میں داخل ہوگیا اور پھر ڈاکوؤں کا کاروبار دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔

گزشتہ مہینہ سندھ اور پنجاب کی پولیس نے اپنی اپنی حدود میں ڈاکوؤں کے خلاف کامیاب آپریشن کے دعوے کیے تھے۔ گزشتہ ہفتہ سندھ اور پنجاب کی سرحد سے متصل ڈاکوؤں کی قید میں مغویوں نے بغاوت کردی۔ تین مغویوں نے دو ڈاکوؤں کو رات گئے موقع ملنے پر ہلاک کردیا مگر اپنے دو ساتھیوں کو رہانہ کروا پائے۔ بعد میں ڈاکوؤں نے دو مغویوںکو ہلاک کر دیا۔

لاشیں اٹھانے پر سندھ اور پنجاب کی پولیس میں تنازعہ پیدا ہوا۔ اس علاقہ کے صحافی، اساتذہ، وکلاء اور سماجی کارکن اس بات پر متفق ہیں کہ قبائلی سردار ، منتخب اراکین، بیوروکریٹ اور پولیس افسران ڈاکوؤں کی سرپرستی کرتے ہیں۔

ڈاکوؤں کی سرگرمیوں سے اپر سندھ میں ترقی کا عمل شدید متاثر ہوا ہے جس کا سارا نقصان عام آدمی کو ہو رہا ہے۔ سیاسی اور دیگر مصلحتیں ان علاقوں کو پسماندگی کا شکارکیے ہوئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔