پاکستانی ماہرین نے پھلوں کو کھولے بغیر مٹھاس بتانے والے نظام تیار کرلیا

نیئرانفراریڈ اسپیکٹرواسکوپی اور اے آئی کی بدولت رسدار پھلوں کو کھولے بغیر مٹھاس کا تعین کیا جاسکتا ہے۔


سہیل یوسف May 30, 2023
نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین نے مقامی نارنگیوں اور سٹرس پھلوں کو کھولے بغیر مٹھاس معلوم کرنے کا کامیاب اے آئی ماڈل تیار کیا ہے۔ فوٹو: بشکریہ نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی

پاکستانی سائنسدانوں کی ٹیم نے مصنوعی ذہانت (آرٹفیشل انٹیلیجنس یا اے آئی) اور بصری خواص کی بنا پر نارنگی اور کینو جیسے سِٹرس پھلوں کو کھولے بغیر ان کی مٹھاس معلوم کرنے کا ایک طریقہ وضع کیا ہے۔ یہ نظام 80 فیصد درستگی کے ساتھ ان مٹھاس کی پیشگوئی کرسکتا ہے۔

نیشنل یونیورستی برائے سائنس و ٹیکنالوجی (نسٹ) کے قومی مرکز برائے روبوٹکس اور آٹومیشن سے وابستہ ڈاکٹر عائشہ زیب کی نگرانی میں کئی جامعات اور انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے یہ اہم کام انجام دیا ہے جس میں نارنگیوں اور اس سے وابستہ پھلوں کو نقصان پہنچائے بغیر اس کا ذائقہ معلوم کیا جاسکتا ہے۔

انفراریڈ روشنی سے پھلوں کا تعین

پہلے مرحلے میں ماہرین نے ضلع چکوال کے ایک فارم سے موسمبی، سرخ نارنگی اور مٹھے کے 92 پھل توڑے۔ ان پھلوں کا چھلکا اوسط 6 ملی میٹر موٹا تھا۔ ہرنمونے کی دونوں جانب دائرے میں نشان لگائے گئے اور ایک دستی اسپیکٹرومیٹر(طیف پیما) سے عین دائروں والی جگہ سے ہر پھل کا طیف (اسپیکٹرم) معلوم کیا گیا۔



اس کے لیے تجارتی طور پر دستیاب ایف 750 طیف پیما استعمال کیا گیا تھا جو قریب زیریں سرخ (نیئرانفراریڈ) روشنی خارج کرتا ہے۔ یہ روشنی پھل کے اندر جاتی ہے اور وہاں سے منعکس ہوکر لوٹتی ہے اور یوں طیف کا ایک پیٹرن بنا جسے نوٹ کرلیا گیا۔ اس طرح معیاربندی (کیلبریشن) میں 64 پھل استعمال کئے گئے جبکہ 28 پھل پیشگوئی کے لیے استعمال کئے گئے اور ان دونوں میں ہی اسپیکٹرومیٹر کو بطور فروٹ میٹر استعمال کیا گیا۔

لیکن پہلے یہ جان لیجئے کہ طیف نگاری (اسپیکٹرواسکوپی) کیا ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے؟

ہرجاندار اور بے جان شے روشنی جذب کرتی، خارج کرتی ہے یا منعکس کرتی ہے۔ اس روشنی سے کسی شے کا احوال معلوم کرنا طیف نگاری ہے جو اب بے حد کارآمد عمل بن چکا ہے۔ لیکن ٹھہریئے کہ ہماری آنکھ طیف یا ریڈی ایشن (اشعاع) کا بہت ہی معمولی حصہ دیکھ سکتی ہے جسے مرئی روشنی یا وزیبل لائٹ کہا جاتا ہے۔ جبکہ ایکس رے، انفراریڈ اور الٹراوائلٹ وغیرہ جیسے گوشے یکساں طورپراہمیت رکھتی ہیں لیکن ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ روزمرہ زندگی میں اسپیکٹرواسکوپی ہمیں دماغ کی معمولی سی رسولی سے آگاہ کرتی ہے تو ساتھ میں لاکھوں نوری سال کے فاصلے پر موجود کسی کہکشاں کا احوال بھی بتاتی ہے۔



اگرچہ پھلوں کا معیار معلوم کرنے میں طیف نگاری کا استعمال برسوں سے جاری ہے، تاہم پاکستانی سائنسدانوں نے اس سے مقامی نارنگیوں کی مٹھاس معلوم کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ دوم اس طریقے میں براہِ راست مٹھاس معلوم کرنے میں کامیابی ملی ہے جو ایک اہم پیشرفت بھی ہے۔

روایتی کیمیائی اور حسی تجزیہ

سائنسی طور پر سینکڑوں منفرد کیمیکل مل کر کسی پھل کو ذائقے دار بناتے ہیں۔ لیکن عام طور پر برکس ایک ایسا پیمانہ ہے جس میں کسی پھل میں موجود مختلف اقسام کی شکروں کی مقدار دیکھی جاتی ہے۔ آم ہو یا کینو، اسی مٹھاس کی بہتات پر قابلِ نوش قرار پاتا ہے۔ لیکن دوسری جانب نارنگی وغیرہ میں کھٹے پن کی پیمائش کے لکے دیکھا جاتا ہے کہ اس میں ٹائٹریبل ایسیڈٹی (ٹی اے) کی مقدار کتنی ہے۔ یہ پیمانہ کسی پھل میں سِٹرک ایسڈ کی مقدار بتاتا ہے۔

سائنسدانوں نے پہلے این آئی آر اسپیکٹرواسکوپی سے پھلوں کے نمونوں کی پیمائش کرکے ریڈنگ حاصل کی۔ اس کے بعد روایتی کیمیائی اور چکھنے کے عمل سے برکس، ٹی اے اور پھل کی مٹھاس (زبان کے ذریعے) معلوم کی گئی تاکہ اسے حوالہ جاتی (ریفرنس) ڈیٹا کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔ اس بار پھل کو اسی نشان زدہ دائروں سے کاٹا گیا جہاں سے پہلے اسپیکٹرم لیا گیا تھا۔ اس کے بعد اسی مقام سے پھلوں کو کاٹا گیا اور گودا نکال کر تجربہ گاہ میں اس کی کیمیائی پیمائش کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانی رضاکاروں کو بطور جج بنایا گیا تاکہ وہ اسے چکھ کر پھیکا، میٹھا اور زائد میٹھا ہونے کی درجہ بندی کرسکیں۔

اے آئی ماڈلنگ

'اس طرح سے ہم نے پہلے کئی پھلوں کے طیف حاصل کئے، پھر برکس اور ٹی اے کے حوالے معلوم کئے اور ہر ایک پھل کے لیے مٹھاس کا لیبل بھی لگایا گیا جس میں انسانی حسیات بھی شامل تھیں۔ اس کے بعد ایک اے آئی الگورتھم (کمپیوٹرسافٹ ویئر) میں 128 نمونوں کا ڈیٹا ڈال کر اسے اس قابل بنایا گیا کہ وہ نئے ان پٹ ڈیٹا (جو تربیتی ڈیٹا کا حصہ نہ ہو) کی درست پیشگوئی کرسکے۔ اس موقع پر اے آئی ماڈل نے شاندار نتائج سامنے آئے اور اس نے پھلوں کی مٹھاس کا درست اندازہ لگایا،' ڈاکٹر عائشہ زیب نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا۔

اے آئی ماڈل کی تربیت

ماڈل کی تربیت کے بعد ماہرین نے 48 نئے پھلوں کا ڈیٹا اس میں شامل کیا۔ واضح رہے کہ اس بار صرف طیف (اسپیکٹرم) شامل کئے گئے تاکہ وہ تمام 48 پھلوں کی برکس، ٹی اے اور مٹھاس کی پیشگوئی کرسکے۔ ممکنہ مٹھاس کا تخمینہ معلوم کرکے ماہرین نے اس 'ٹیسٹ ڈیٹا' میں شامل تمام پھلوں کو تجربہ گاہی ٹیبل پر رکھا۔ انہیں کاٹا اور انہیں چکھنے کے علاوہ کیمیائی طریقہ کار سے بھی آزمایا۔ اس بار بھی ٹی اے، برکس اور مٹھاس پیشِ نظر تھا۔ یوں پھل کو کھول کر اصل کھٹاپن، مٹھاس اور ذائقہ معلوم کیا گیا اور اس کا موازنہ ان نتائج سے کیا گیا جس کی جانب اے آئی ماڈل نے اشارہ کیا تھا۔

ایکسپریس نیوز نے ڈاکٹر عائشہ سے سوال کیا کہ کیا روشنی کی کمی بیشی، پھل پر گردوغبار یا دیگر عوامل سے اسپیکٹرومیٹر کی پیمائش پر کوئی فرق پڑسکتا ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے کہا، ' نہیں، کیونکہ نیئرانفراریڈ (این آئی آر) اشعاع پھل میں ملی میٹر سے سینٹی میٹر تک بہت اچھی طرح نفوذ کرجاتی ہیں۔ یہ چھلکے سے گزرکر پھل کے گودے تک جاتی ہیں اور وہاں سے پلٹ کر سینسر تک پہنچتی ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ خاص روشنی خاص قسم کی سالماتی (مالیکیولر) ارتعاش پیدا کرتی ہے اور آلہ بتاتا ہے کہ کتنی توانائی جذب ہوئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آلے کی اپنی جیومیٹریائی ساخت بھی انعکاس کے عمل کو کم کرتی ہے۔ اس طرح پھل کے چھلکے پر روشنی کی کمی بیشی یا گردوغبار سے اس کی ریڈنگ متاثر نہیں ہوتی۔

ایک اہم دریافت

محتاط اندازے کے بعد کمپیوٹرماڈل نے نہ صرف قابلِ اعتبار درستگی سے مٹھاس کا اندازہ لگایا جس کا موازنہ برکس اور ٹی اے سے کیا جاسکتا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اس نے مجموعی مٹھاس کی جو پیشگوئی کی وہ میٹھے، ملے جلے اور تیزابی یا کھٹے ذائقے کے لیے 81 فیصد کے قریب تھی جو ایک اہم پیشرفت بھی ہے۔ سٹرس صنعتوں میں ایسے پھلوں کی مانگ سب سے زیادہ ہے کیونکہ معیاری پھل سے ہی میٹھے رس، مشروبات، جیلی اور دیگر اشیا تیار ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اس تیزرفتار طریقے کو اپنایا جائے تو پاکستانی برآمدات میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔

آم اور کیلے کے برخلاف نارنگی اور کینو شاخ سے جدا ہونے کے بعد مزید نہیں پک پاتے، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی اختراع معیاری پھلوں کی تیاری میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ تمام مشکلات کے باوجود سال 2020 تک پاکستانی نارنگیوں، کینو اور موسمبی کی برآمدات 4 لاکھ 60 ہزار ٹن تھی جسے ٹیکنالوجی کی مدد سے مزید بڑھایا جاسکتا ہے۔

اس اہم پیشرفت کی تفصیلات ہفت روزہ سائنسی جریدے، 'نیچر' میں شائع ہوئی ہیں۔ نیشنل سینٹر آف روبوٹکس اینڈ آٹومیشن، نیشنل یونیورسٹی آف سائنسِس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کی ڈاکٹر عائشہ زیب اور ڈاکٹر محسن اسلام کی یہ مشترکہ کاوش ہے۔ اس کے علاوہ اسکول آف کمپیوٹرسائنس، ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی ڈبلن، آئرلینڈ کے ڈاکٹر وقار شاہد قریشی، نسٹ میں ہی ملٹری کالج آف سگنلز کے ڈاکٹر عبدالغفور، ڈاکٹر محمد عمران، اور ڈاکٹر علینہ مرزا بھی شامل ہیں۔ فیصل آباد کی جامعہ زراعت کے ڈاکٹر امان اللہ ملک، اورام القریٰ یونیورسٹی سعودیہ عرب کے ڈاکٹر عیسیٰ العنازی بھی اس تحقیق میں شریک معاونین ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں