سوویت روس 19891917
آنجہانی سوویت روس نے ایک غلطی کردی، ہٹلر سائبیریا کی سردی تو روس افغانستان کے پہاڑوں میں کچلا گیا ۔۔۔
KARACHI:
یہ ایک ریاست کی کہانی ہے جس نے بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں جنم لیا، اپنی عمر کے 72 سال گزار نے کے بعد یہ ملک افغانستان کے پہاڑوں میں انتقال کرگیا۔ روس زمینی لحاظ سے ہم سے قریب تھا اوراس کے اثرات پاکستان میں بھرپور انداز میں محسوس کیے گئے۔ جب پاکستان بنا تو اس کی عمر تیس سال تھی، یہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلرکا قبرستان ثابت ہوا۔ سائبیریا کے ٹھنڈے موسم کو جرمنی کی فوجیں برداشت نہ کرسکیں، جہاں ہٹلر نے بہت سے ملکوں کی آزادی کو ممکن بنایا وہیں اس نے امریکا اور روس کو سپر پاور بنا دیا۔
کارل مارکس جرمنی میں 1818 میں پیدا ہوا۔ صحافت اور قانون کے شعبے سے وابستہ اس شخص نے کمیونزم کا نظریہ پیش کیا، اس نے چار باتیں کہیں۔ ''امیر بہتر اور غریب کمتر زندگی گزارتا ہے، نا انصافی کے خاتمے کے لیے تمام جائیدادیں حکومت کے قبضے میں ہوں۔ پر تشدد انقلاب لایا جائے، کمیونسٹ آمریت قائم کی جائے'' اس کی باتیں ''داس کیپیٹل'' میں پچاس سال تک باتیں ہی رہیں جب تک کہ لینن نے روس میں اسے نافذ نہیں کردیا۔ ہم بظاہر باتیں آنجہانی سوویت روس کی کریںگے لیکن ہمارا اصل مقصد پاکستان میں بائیں بازو کے لوگوں کا نفسیاتی المیہ اور پھر سے ابھرنے کی کوشش کو بیان کرنا ہے۔ وہ ٹریجیڈی کہ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد کامریڈ کے دل کس طرح ٹوٹ گئے اور اب عابد منٹو جیسے دانشور کس طرح ان ٹوٹے دلوں کو جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ کا وہ خوب صورت دور تھا جب اسلام پسندوں اور کمیونسٹوں میں نظریاتی جنگ ہورہی تھی۔ یہ سندھی، پٹھان، بلوچ، پنجابی اور مہاجر سے بلند تر تحریک تھی۔ اس کشمکش نے ملک کو فرقہ وارانہ لڑائیوں سے دور رکھا ہوا تھا۔ کسی کے لیے اپنی قومیت بدلنا ممکن ہی نہیں ہوتا اور مسلک بدلنا بہت مشکل سرخ و سبز کی یہ لڑائی انسان کی سوچ سے وابستہ تھی، کسی شخص کی شکل و لہجے اور انداز گفتگو سے پتہ لگایا جاسکتا تھا کہ اس کی قومیت کیا ہے، نام جان کر پتہ چلایا جاسکتا تھا کہ کس شخص کا مذہب و مسلک کیا ہے۔ بد قسمتی کہ رائٹ اور لیفٹ کی نظریاتی جنگ سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ختم ہوگئی۔ کمیونسٹوں کی مایوسی کی بدولت ہمارا ملک دلیل کے اسلحے سے نکل کر اسلحے کی دلیل کی دلدل میں پھنس گیا ہے۔ بایاں بازو پھر سے ابھر رہا ہے اور اسے ابھرنا ہی چاہیے۔ پاکستان کو قومیتوں اور فرقوں کے زہر سے بچانے کے لیے اس انجکشن کی سیاست میں موجودگی لازمی ہے یہ کیسے ہوگا اور لیفٹ کے لوگوں کو کن احتیاطوں کو سامنے رکھنا ہوگا؟
جناب مسلم شمیم کی کتاب ''لاڑکانہ کے چار درویش'' کی تقریب رونمائی میں نصف درجن سے زیادہ کمیونسٹوں کو سننے کا موقع ملا۔ مصنف چوں کہ وکالت کے شعبے سے متعلق ہیں لہٰذا تعلق کی اس سبیل نے تقریب میں شرکت پر آمادہ کیا۔ مسلم شمیم کی ایک بات اس کشمکش کو واضح کرتی ہے جو ساٹھ اور ستر کے عشرے میں ہوا کرتی تھی۔ انھوں نے کہاکہ جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی کے بیٹے قربان نے میرے بارے میں کہا کہ شمیم صاحب تو پکے کامریڈ (سرخ) ہیں۔ پاکستان کی سیاست، کارخانوں، تعلیمی اداروں اور بار ایسوسی ایشنز میں دائیں اور بائیں بازو کی ایک دوسرے کے خلاف جد وجہد اپنے اندر ایک خوب صورت موڑ لیے ہوئے تھی، سیاست و تاریخ کے طالب علموں کے علاوہ کالج و جامعات کے طالب علموں کے لیے اس میں دلچسپی کا بہت سا سامان موجود ہے۔
''کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا '' تقسیم ہند کے بعد مشرف بہ پاکستان ہوگئی۔ سجاد ظہیر کو ذمے داری سونپی گئی جس پر سات دہائیاں گزرنے پر بھی عابد منٹو کو اعتراض ہے۔ ایک طرف پاکستان کو اشتراکی ملک بنانے کی کوششیں تھیں تو دوسری طرف اسلامی، مولانا مودودی کی جماعت اسلامی کا مختلف محاذوں پر بائیں بازو والوں سے ٹکراؤ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اہم باب ہے۔ دلائل، کتابوں، مباحثوں کی ابتدا ہمیں تعلیمی اداروں میں نظر آتی ہے۔ ساٹھ کا عشرہ این ایس ایف کی ''ایشیا سرخ پٹے کی برتری کا زمانہ تھا تو ستر کا عشرہ اسلامی جمعیت طلبہ کی ''ایشیا سبز ہے'' جس نے معراج محمد خان، لیاقت بلوچ، حسین حقانی ، مصطفین کاظمی اور شفیع نقی جامعی جیسے طالب علم رہنماؤں کو جنم دیا۔ 70 کے انتخابات میں تودائیں اور بائیں بازو نے شکست کھائی، اس کے باوجود تعلیمی اداروں کے علاوہ بین الاقوامی منظر پر رائٹ اور لیفٹ کے نظریے چھائے رہے، اب ہم سوویت روس کی زندگی کے آخری دس برسوں کی جانب آتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ کس طرح ایک سپر پاور کی پولٹ بورو اپنی غلطی کے سبب افغانستان کے مفلس مجاہدوں سے شکست کھاگئی۔ اس موضوع پر گفتگو کے بعد بھی ہم طے کرسکیں گے کہ اب لیفٹ کے دانشوروں کو اپنی غلطیوں سے کیا سبق سیکھنا چاہیے۔
آنجہانی سوویت روس نے ایک غلطی کردی، ہٹلر سائبیریا کی سردی تو روس افغانستان کے پہاڑوں میں کچلا گیا۔ USSR نے پٹھانوں پر قابو پانا چاہا، ظاہر شاہ اور سردار داؤد کے وطن کی سڑکوں اور کارخانوں کے سامان سے لے کر پانی کے نلکے تک سوویت یونین سے آتے تھے، اس قبضے نے دنیا کو محتاط کردیا۔ 80 کے ماسکو اولمپکس کا دنیا کے 125 ملکوں نے بائیکاٹ کیا۔ ڈیڑھ سال تک درے کے اسلحے سے لڑنے والوں کی مدد کی گئی۔ پاکستانی راہداری، امریکی اسلحے بمعہ اسٹنگر میزائل، سعودی ریال اور افغان جذبے نے روسیوں کو دریائے آمو کے دوسری طرف دھکیل دیا، 80 کا پورا عشرہ پاکستان میں اسلام پسندوں اور کمیونزم کے حمایتیوں کے درمیان نظریاتی کشمکش کا عشرہ ہے، ایک طرف روس کی شکست کی بات کو مذاق میں اڑایا تو دوسری طرف پاکستان میں سوشلزم کو نافذ کرنے کی بات کی جاتی۔ افغانستان میں روسی مداخلت اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوا، زیادہ محنت کرکے زیادہ صلہ پانے کے مسئلے نے روس میں غذائی قلت پیدا کردی، ایک پارٹی نظام نے معاشرے میں گھٹن کا ماحول پیدا کیا۔ مذہب میں مداخلت اور اسے ''افیون'' قرار دینے جیسے خیالات نے کمیونسٹوں کو غیر ضروری طور پر عوام الناس کے بڑے طبقے کو اپنے قریب آنے سے روک دیا، بھٹو جیسے مقبول رہنما کو پہلے اسلامی سوشلزم اور پھر ''مساوات محمدیؐ'' کی بات کرنا پڑی۔
پروفیسر جمال نقوی جیسے پکے کمیونسٹ کی کتاب ''Leaving the Left behind'' وہ ''توبہ'' ہے جو نصف صدی بعد کی گئی ہے۔ عابد منٹو جیسے نظریاتی کارکن اب تک مایوس نہیں ہیں، وہ سوویت روس کے بکھرنے اور چین کے راستے بدلنے کے باوجود پر امید ہیں ظلم و جبر کے خلاف جد وجہد کا نظریہ مقبولیت حاصل کرسکتاہے، اب نہ روسی ریچھ کے زہریلے دانت ہیں اور نہ خونخوار پنجے۔ نئی صدی میں کارل مارکس کے نظریات کو پاکستان میں کس طرح لاگو کیاجائے؟ یہ سوال لیفٹ کے دانشوروں کے لیے اہم ترین سوال ہے۔ نظریے کے مقابل نظریہ اور دلیل کے مقابل دلیل ہی پاکستانی سیاست کو خوب صورت آہنگ عطا کرسکتی ہے ۔ سوشلزم اور ترقی پسندی کا نعرہ چھوڑ کر لبرل و سیکولر بن جانے والے دانشور اب دلائل کے میدان میں قلاش ہوچکے ہیں۔ رائٹ اور رانگ کی بات اپنی جگہ لیکن کون اپنے آپ کو غلط لوگوں کی صف میں شمار کرے گا؟ اس نظریاتی جنگ کو منافقت سے پاک ایسے جواں مردوں کی ضرورت ہے جو ڈٹ کر دلیل کے اسلحے کے ساتھ میدان میں آئیں۔ پاکستان کو قومیتوں اور فرقوں کی کشمکش سے نکال کر اصولی بحث کی جانب آنا ہوگا۔ کارل مارکس اور سید مودودی کی کتابوں سے دلائل چھانٹنے ہوں گے۔ بھولنا ہوگا کہ کبھی یونائیٹڈ سوویت سوشلسٹ سوویت ری پبلک بھی ہوا کرتا تھا۔ اب صرف اس ایک نام اور دو ہندسوں کو یاد رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ ایک نام اور دو ہندسے یعنی آنجہانی سوویت روس 1917-1989۔