انتشار کی سیاست ملکی مفاد میں نہیں اتفاق رائے سے آگے بڑھنا ہوگا

’’موجودہ ملکی صورتحال اور مستقبل کا منظر نامہ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ


فوٹو : وسیم نیاز

موجودہ ملکی صورتحال اور مستقبل کا منظر نامہ کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف تجزیہ نگاروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔

فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر امجد مگسی

(سیاسی تجزیہ نگار)

پاکستان کی حالیہ سیاسی صورتحال ایک بہت بڑے سیاسی بحران کو ظاہر کر رہی ہے۔ اس وقت پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر بحرانی کیفیت سے دوچار ہے جس سے مستقبل کا منظر نامہ اچھا دکھائی نہیںدیتا۔ اگر سیاسی قیادت، حکومت اور اپوزیشن مل کر سیاسی بحران سے نکلنے کا راستہ نہیں ڈھونڈھتی تو اندرونی مسائل کے ساتھ ساتھ بیرونی مسائل بھی سنگین ہوجائیںگے ،دشمن پہلے ہیں خوشیاں منارہا ہے۔

حالیہ سیاسی بحران میں ادارہ جاتی کشمکش نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ بنیادی طور پر پارلیمان کو کردار ادا کرنا چاہیے تھا مگر اس میں تحریک انصاف کے بائیکاٹ نے خلاء پیدا کر دی۔ عدلیہ کے ماضی پر تو سوالات اٹھتے رہے ہیں مگر اب بھی کوئی قابل تحسین کردار نہیں ہے۔ سیاسی معاملات بھی بار بار عدلیہ کی طرف لے جائے جا رہے ہیں اور عدلیہ غیر جانبداری کا تاثر قائم نہیں رکھ سکی۔

حالیہ سیاسی صورتحال میں مزید تشویشناک بات تشدد کا عنصر ہے، تحریک انصاف نے تشدد کو فروغ دیا، حساس ترین مقامات کو جلایا، جتھوں کے ذریعے ملک کو یرغمال بنانے کی کوشش کی،اگر تشدد کے ذریعے سیاسی فیصلے کروانے کا ٹرینڈ چل پڑا تو کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔سیاست میں ایک اور شدت نظر آرہی ہے کہ پاکستان کی سلامتی کے اداروں کا عالمی سطح پر بھرم اور نام تھا، تحریک انصاف کی قیادت اور عمران خان نے ذاتیات کی بنیاد پر تحریک چلا کر ان کی تضحیک کی اور وقار مجروح کیا۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، جتھوں کی صورت میں ان کے ماننے والوں کو کوئی کنٹرول کرنے والا نہیں تھا۔ افسوس ہے کہ اندرونی معاملات میں حکومتی و اپوزیشن سیاسی قوتیں مکمل ناکام نظر آئی ہیں۔ اگر تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ اسے انتشار سے سیاسی طور پر کوئی فائدہ ہو رہا ہے تو یہ اس کی بھول ہے، نظام کو یرغمال بنا کر اور کمزور کرکے کبھی بھی کامیاب نہیں ہوا جاسکتا۔

موجودہ حالات میں ہمیں عالمی منظر نامے کو دیکھنا ہوگا۔ پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات، چین اور روس کی قربت، چین کی جانب سے سعودی عرب اور ایران میں صلح معمولی نہیں۔ ایشیائی ممالک، ایران، افغانستان و دیگر میں اچھی صورتحال پیدا ہو رہی تھی،سعودی عرب پاکستان میں دوبارہ سرمایہ کاری کیلئے راضی ہوگیا تھا، پاک چین ریلوے لنک بن رہا تھا، اس سے امید پیدا ہوئی تھی کہ پاکستان کیلئے اب حالات بہتر ہوجائیں گے، امریکا کو یہ ساری صورتحال قابل قبول نہیں۔ چین اور امریکا کے درمیان عالمی سطح پر جو ٹسل چل رہی ہے۔

اس کی وجہ سے امریکا اس خطے میں مسائل پیدا کر سکتا ہے اور کر بھی رہا ہے۔ چین اور پاکستان کے معاشی تعلقات پر امریکا نے سوالات اٹھائے اور خراب کرنے کی کوشش کی، اگر اس تناظر میں ملک کی حالیہ صورتحال اور مستقبل کا منظر نامہ دیکھا جائے تو سب کچھ سمجھ آتا ہے۔ ہم فوجی آمریت کی بات تو کرتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کہیں ہم شخصی آمریت کی طرف تو نہیں جا رہے؟ جب تک ہم اداروں کو مضبوط نہیں کریں گے، پارلیمان کو مضبوط نہیں کریں گے، آئین کی بالادستی قائم نہیں کریں گے تو فوجی اور شخصی آمریت کا راستہ نکل سکتا ہے۔

سیاسی قیادت کو ٹھنڈے دل ، حوصلے اور ٹھنڈے دماغ کے ساتھ معاملات کو دیکھنا ہوگا اور انتشار کو روکتے ہوئے مسائل کا حل نکالے، ایسا کام کیا جائے جس میں پاکستان کی فتح ہو۔ ملکی و بین الاقوامی سطح پر جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں ا ن میں پاکستانی قیادت کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہمیں ان حالات میں سیاسی قیادت سے ہی توقع اور امید رکھنی چاہیے جبکہ اداروں کو اپنا غیر جانبداری کا تاثر قائم رکھنا چاہیے، اگر زبردستی معاملات حل کرنے کی کوشش کی گئی تو عدم استحکام میں مزید اضافہ ہوگا۔

سلمان عابد

(دانشور)

پاکستان کا موجودہ سیاسی منظر نامہ کافی حد تک محاذ آرائی، ٹکراؤ، تناؤ اور بداعتمادی کے تحت چل رہا ہے۔ یہ محض سیاسی بحران نہیں بلکہ ریاستی بحران ہے جہاںا دارے بھی ایک دوسرے سے ٹکراؤ کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان لڑائی چل رہی ہے۔

پارلیمنٹ کے اندر سے چیف جسٹس اور عدلیہ کے خلاف تقاریر ہورہی ہیں، عمران خان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکر لگی ہوئی ہے۔ اسی طرح حکومت، عدلیہ کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کر رہی ہے، یہ سب ظاہر کر رہا ہے کہ ہمارے سیاسی، معاشی اور سکیورٹی کے حالات اچھے نہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت، اپوزیشن اور ادارے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے اور معاملات میں اتفاق رائے پیدا کرتے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔عام انتخابات پر اتفاق نہ ہونے سے بحران پیدا ہوا۔

افسوس ہے کہ نہ سیاستدانوں نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ نے کوئی رول پلے کیا، عمران خان کی گرفتاری کے بعد ایسا لگتا ہے کہ مذاکرات دفن ہوگئے۔ جس طرح عمران خان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، انہیں100سے زائد مقدمات جن میں دہشت گردی کے مقدمات بھی ہیں، الجھایا جا رہا ہے، اس پر عمران خان کا ردعمل فطری ہے، وہ مذاکرات کی جگہ ٹکراؤ کی بات کریں گے۔

وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر جو مصیبتیں آرہی ہیں، ان میں صرف حکومت ذمہ دار نہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری پر جو ردعمل دیکھنے کو ملا، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ریاستی ادارے اور فوج قابل احترام ہیں، جس طرح ان کی عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا وہ افسوسناک ہے۔ اس میں تحریک انصاف کی قیادت ذمہ دار ہے، ان کی قیادت موجود نہیں تھی جس کا نقصان ملک کو بھگتنا پڑا۔ تحریک انصاف کے بقول ہم اس میں ملوث نہیں، پھر کون لوگ تھے جو آئے اور حملہ آور ہوگئے۔

پنجاب حکومت کی رٹ کہاں تھی؟ خیبر پختونخوا کی حکومت کہاں تھی؟ ایسا لگتا ہے کہ نگران حکومتیں سوائے انتخابات کرانے کے سب کام کر رہی ہیں۔ عمران خان کو جس طرح سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانتیں ملی ہیں، اس پر وفاقی کابینہ کافی غصے میں نظر آتی ہے اور اس نے عدالتوں کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔ یہ ساری صورتحال تقاضہ کرتی ہے کہ سب ذمہ داری کا مظاہرہ کریں ، اپنی انا سے نکلیں اور جائزہ لیں کہ ملک کو معاشی حوالے سے کیا چیلنجز درپیش ہیں، ان کو حل کرنے پر کام کریں۔

پیر کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ انتخابات کیس کا فیصلہ کرے گا، کابینہ کو یہ تجویز دی جا رہی ہے کہ معاشی ایمرجنسی لگا دیں، سپریم کورٹ کے سامنے ڈٹ جائیں، اگر سب نے ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہونا ہے تو حالات مزید بگاڑ کی طرف جائیں گے جس کا فائدہ دشمن کو ہوگا جو ہمیں عدم استحکام سے دو چار کرنا چاہتا ہے۔ ہندوستان نے حالیہ جلاؤ گھیراؤ کو جس طرح پیش کیا، اس سے بھی پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہونگی۔ ہمیں سیاسی مہم جوئی سے بچنے کی ضرورت ہے۔

ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی، بے نظیر بھٹو کا قتل اور نواز شریف کی نااہلی سے سبق سیکھنا چاہیے، نہ اس وقت کوئی بہتر نتیجہ نکلانہ اب نکلے گا۔ عمران خان کی نااہلی، قید کی باتیں،ان کی سیاست اور جماعت پر پابندی جیسے اقدامات سے مزید محاذ آرائی ہوگی اور نقصان ملک کا ہوگا۔ عدلیہ، پارلیمنٹ، اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا ایکٹیوازم بند ہونا چاہیے۔ سب کو آئینی دائرہ کار میں ہی رہنا چاہیے۔ آئین اور قانون کو بالادست کریں۔

موجوہ حکومتی اراکین کہتے ہیں کہ انہیں عمران خان کے دور حکومت میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، اب عمران خان اور ان کی جماعت کے رہنماؤں اور میڈیا کے نمائندوں کی گرفتاریاں بھی ویسی ہی ہیں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھ گئی ہیںجس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) بڑی جماعتیں ہیں، انہیں اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے۔ یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ انتقامی کارروائیاں ہو رہی ہیں، گرفتار رہنماؤں کو فوری رہا کرنا چاہیے۔ الیکشن کی طرف بڑھا جائے تاکہ نئی حکومت ملکی نظام سنبھالے اور ملک کو آگے بڑھائے۔ چینی اور افغان وزرائے خارجہ نے بھی یہی بات کی کہ پاکستان اندرونی استحکام پیدا کرے مگر ہم ایک کے بعد ایک بحران پیدا کرتے جا رہے ہیں۔

عبداللہ ملک

(نمائندہ سول سوسائٹی)

پاکستان اس وقت سنگین معاشی، سیاسی ، سماجی بحران سے گزر رہا ہے۔ ہر طرف اضطراب ہے، لوگ بے چین ہیں، مہنگائی اور لاقانونیت ہے۔ اندرونی سکیورٹی کے معاملات خراب ہوچکے ہیں، شہریوں کو لوٹا اور مارا جا رہا ہے۔ سرحدوں کی حفاظت پر مامور اہلکاروں پر حملے کیے جا رہے ہیں۔

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے، دلخراش مناظر سامنے آرہے ہیں۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں احتجاج ہر شہری کا حق ہوتا ہے لیکن یہ آئین اور قانون کے دائرہ کار میں ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ لوگ اکٹھے ہوکر مشتعل ہوجائیں اور قومی اداروں سمیت عوامی املاک کو نقصان پہنچائیں۔ تحریک انصاف کے کارکنان نے جو کچھ کیا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

دیکھنا یہ ہے کہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہوا، کس کی غلطی ہے؟ کیا کوئی ایسے عناصر تو موجود نہیں جو سیاسی جماعتوں کے بینر تلے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے ایسی جگہ احتجاج، جلاؤ گھیراؤ، تباہی اور لوٹ مار کی جہاں جانا ممنوع ہے۔

شرپسندوں نے حساس اداروں کی املاک کو نقصان پہنچایا، ریڈیو پاکستان پشاور، ایمبولینس، پولیس وینز،گاڑیوں وغیرہ کو جلایا ، ہنگامہ آرائی کی جو کسی بھی طور درست نہیں۔ احتجاج کا طریقہ آئینی اور قانونی ہی ہونا چاہیے۔ ماضی میں بھی سیاسی جماعتیں احتجاج کرتی تھی، سڑکوں پر آتی تھی، دھرنے دیتی تھی مگر ایسا کام کسی سیاسی جماعت نے نہیں کیا۔ اس وقت صورتحال گھمبیر ہے ۔

بدقسمتی سے جلتی پر تیل ڈالا جا رہا ہے اور ملک کو استحکام کی طرف جانے نہیں دیا جا رہا۔ ایک دوسرے کو غداری کے سرٹیفکیٹ دیے جا رہے ہیں جو درست نہیں،ا س سے مزید مسائل پیدا ہونگے۔معاملات کو سدھارنے کیلئے ضروری ہے کہ سیاستدان پارلیمنٹ کے اندر ہوں اور کام کریں۔ ان کے علاوہ سول سوسائٹی، لکھاری، فلم میکرز و دیگر سٹیک ہولڈرز کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرے کی تربیت ہوسکے۔

ہم نے یہ بھی دیکھا کہ گھریلو خواتین جو کبھی سڑکوں پر نہیں آتی تھی، وہ احتجاج کیلئے نکلی اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا جو قابل مذمت ہے۔ سول سوسائٹی کو چاہیے کہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر اس کشیدگی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے، اس حوالے سے ہم نے کام بھی کیا ہے۔ انتشار سے ملکی معیشت اور سکیورٹی جیسے معاملات سمیت روزمرہ زندگی کے کام بھی متاثر ہوتے ہیں۔

ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پٹرول، اشیائے ضروریہ، پھل ، سبزی و دیگر چیزوں کی منتقلی رک جاتی ہے، لوگ ہسپتالوں تک نہیں پہنچ پاتے جس سے ان کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ ملک کی صورتحال گھمبیر ہے۔ سیاستدانوں کو سوچنا چاہیے کہ ملک ہے تو جمہوریت، سیاست اور سب کچھ ہے۔ اگر ملک کو نقصان پہنچائیں گے تو یہاں بیرونی سرمایہ کاری نہیںا ٓئے گی، دنیا کا اعتماد ختم ہوگا اور ہماری جگ ہنسائی ہوگی۔ پہلے سیاست میں رواداری ہوتی تھی، اختلاف رائے کا احترام ہوتا تھا مگر اب سیاسی اختلاف پر گالیاں دی جاتی ہیں، مار پیٹ کی جاتی ہے۔

کوئی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ اگر مستقبل میں بھی سیاسی قیادت نہیں بیٹھتی تو یہ عدم برداشت کی لہر ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی، قانون نافذ کرنے اور عملدرآمد کروانے والے اداروں کا کوئی احترام نہیں رہے گا۔اگر پارلیمان اور عدلیہ کے بجائے سڑکوں پر فیصلے ہونے ہیں تو ملک میں مزید انتشار بڑھے گا۔ اگر ہم نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ کیا، نفرت آمیز تقاریر پر پابندی نہ لگائی، لوگوں کے ساتھ سیاسی طریقے سے بات چیت نہ کی تو آنے والے حالات بہت برے ہونگے۔

مئی اور جون میں ہمیں قرضوں کی اقساط دینی ہیں، کوئی ملک مزید قرض دینے کو تیار نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ معاشی اور سیاسی حوالے سے پاکستان کیلئے مزید مشکل حالات ہونگی، سکیورٹی خدشات میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس وقت تمام ادارے آمنے سامنے ہیں، سب کو ملکی مفاد میں کام کرنا ہوگا، سیاسی قیادت دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈائیلاگ کا راستہ اپنائے ۔ ڈائیلاگ، آئین پر عملداری اور انتخابات میں ہی موجودہ مسائل کا حل ہے۔

اگر بروقت انتخابات کروادیئے جائیں تو بہتری آسکتی ہے، عدالتوں اور اداروں کا احترام کیا جائے۔ پارلیمان سے ایسی گفتگو ہونی چاہیے جس سے ملک میں امن و استحکام آسکے اور انتشار کی حوصلہ شکنی ہو۔ اس وقت ملک میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے، اگر طاقت کے زور، گولی یا مقدمے سے معاملات حل کرنے کی کوشش کی گئی تو بہت نقصان ہوگا۔ اس وقت مرہم پٹی کی ضرورت ہے، سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں