ہم کب بڑے ہوں گے
ایسے جارحانہ مزاج کے حامل شخص کو وطن عزیز کے موجودہ سماجی اور سیاسی ماحول میں کن کن خطرات کا سامنا ...
ایک بچے سے کسی نے پوچھا کہ تم بڑے ہو کر کیا بنو گے۔اس نے جواب دیا،''میں بڑا ہو کر مریض بنوں گا اور ڈاکٹروں کی خدمت کروں گا''۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں آپ کو کبھی کبھار ایسے عمر رسیدہ لوگ بھی مل جاتے ہیں جن سے مل کر یہ پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ آپ بڑے ہو کر کیا کریں گے؟ لیکن ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے یہ سوال ہر دوسرے آدمی سے کیا جا سکتا ہے کہ عمومی طور پر قاعدے قانون کی پابندی نہ کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے اور اب یہ بیماری اس قدر پھیل چکی ہے کہ لوگ اپنے ان شعبوں کے قوانین کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھتے جن کے لیے وہ باقاعدہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور جن سے ان کا رزق اور مستقبل وابستہ ہوتا ہے۔
میرا حامد میر سے تعارف اس کے مرحوم والد پروفیسر وارث میر کے حوالے سے ہے جنھیں ان کے بے تکلف دوست Angry old man کہا کرتے تھے کہ وہ ہر اس بات پر کھل کر تنقید کرتے تھے جسے وہ غلط یا ناروا سمجھتے تھے۔ سو ہماری نسل کے لوگوں سے حامد میر کا ابتدائی تعارف کچھ چچا بھتیجے کا سا تھا حالانکہ عمر کے اعتبار سے یہ فرق کچھ اتنا زیادہ نہیں تھا اس نے بطور صحافی قلم کی مزدوری میں اپنی محنت لگن اور صلاحیت سے ایک اعلیٰ مقام حاصل کیا مگر اس کی عمومی شہرت اور مقبولیت ٹاک شوز کے ایک ایسے ٹی وی اینکر کی حیثیت سے ہوئی جس نے بہت جلد نام اور مقام کی وہ منزلیں سر کر لیں جن کی تلاش میں بیشتر لوگوں کی عمریں گزر جاتی ہیں ،اس کے خیالات سے اختلاف ممکن ہے لیکن جس مہارت اور خوش اسلوبی سے وہ اپنے شو کی دلچسپی کو قائم رکھتا تھا اور ہمہ دم نئی سے نئی باتیں سامنے لاتا تھا اس سے انکار ممکن نہیں۔
ایسے جارحانہ مزاج کے حامل شخص کو وطن عزیز کے موجودہ سماجی اور سیاسی ماحول میں کن کن خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، مختلف مذہبی فرقوں اور مسلکوں کے نمایندہ افراد' لسانی گروہوں' پیشہ ور ماہرین اور سیاسی کارکنوں کے بعد گزشتہ چند برسوں میں صحافت سے تعلق رکھنے والے اہم لوگوں کو جس طرح ٹارگٹ کلنگ کا ہدف اور نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس کی وجوہات بیک وقت مشترک بھی ہیں اور مختلف بھی کچھ عرصہ قبل جب رضا رومی پر حملہ ہوا اور اس نوجوان نے (وقتی طور پر ہی سہی) صحافت سے قطع تعلق کا اعلان کر دیا اس کے بعد اس بات کا خدشہ مزید بڑھ گیا تھا کہ اب متعلقہ لوگ اپنی اس نام نہاد فتح کو مستحکم کرنے کے لیے کچھ اور بلند بانگ آوازوں کو بھی خاموش کرنے کی کوشش کریں گے اس حوالے سے دیکھا جائے تو حامد میر کا نام اس ہٹ لسٹ کے سرفہرست ناموں میں آتا تھا یہاں تک تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اس حادثے کے فوراً بعد جو فضا پیدا ہوئی اور جو اب تک کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے وہ بہت حد تک سمجھ سے باہر ہے اگر اس ساری کیفیت کو کسی ایک جملے میں سمیٹنے کی کوشش کی جائے تو وہ شاید یہی ہو گا کہ ''ہم کب بڑے ہوں گے؟''
جنگ اور جیو گروپ کی طرف سے حادثے کے فوراً بعد آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ کے خلاف جو مہم شروع کی گئی اور کئی گھنٹے تک زور شور سے جاری رہی' بلاشبہ پیشہ ورانہ اعتبار سے اس میں ''نابالغ پن'' نظر آتا ہے لیکن جس طرح سے اس کی آڑ لے کر اس پر تنقید ہوئی' وہ بھی بہت زیادہ قابل تعریف نہیں۔ جنگ اور جیو گروپ نے غلطی کا احساس ہوتے ہی دفاعی پوزیشن اختیار کر لی لیکن اس وقت تک تیرکمان سے نکل چکا تھا اور وضاحت تقریباً غیر موثر ہو چکی تھی۔ اب یہ کہنا کہ یہ سب کچھ فوری ردعمل اور ادارتی غلطی کے علاوہ کسی اور مہم کا حصہ تھا جس کے لیے کچھ ملک دشمن اداروں کی شہ پر پہلے سے تیاری کی جا چکی تھی' میری ذاتی رائے میں بہت بڑا الزام ہے۔ اس وقت وطن عزیز بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے گزشتہ اور موجودہ حکومت میں اب تک کی کارکردگی کے مطابق صرف اتنا ہی فرق سامنے آیا ہے کہ وہ ان مسائل کے حل کی بات بھی نہیں کرتے تھے اور یہ صرف بات کرتے ہیں۔
یہ وقت ایک دوسرے پر الزام تراشی اور پرانے حساب برابر کرنے کا نہیں کہ اگر صحافی برادری' الیکٹرانک میڈیا اور اہل فکر و نظر سے مل کر کوئی موثر جوابی طریقہ کار وضع نہ کیا تو مزید گولیاں چلیں گی اور ان کا نشانہ کوئی بھی ہو سکتا ہے بدقسمتی سے قومی نمایندوں کے ضمن میں ہمارا انتخابی عمل کچھ اس طرح کا ہے کہ اس میں چہروں کی تھوڑی بہت تبدیلی سے قطع نظر ہر بار تقریباً ایک ہی طرح کے لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں یہ لوگ اپنے ذاتی وسائل یا کسی سیاسی جماعت کی حمایت سے کامیاب تو ہو جاتے ہیں مگر ملک چلانے کے لیے جس سیاسی اور سماجی شعور اور اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے اس کا اس علاقے میں شدید قحط پایا جاتا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر لوگ حکومتی اور قومی پالیسیوں کے وضع کرنے کے عمل میں سرے سے شامل ہی نہیں ہوتے اور گھوم پھر کر حکومت اور حزب مخالف کی طرف سے کل ملا کر پندرہ بیس لوگ ہی عملی طور پر ملک چلانے کی اہم ذمے داری کو نبھاتے ہیں باقی لوگ حسب موقع حسب حکم صرف ڈیسک بجاتے ہیں یا ان پندرہ بیس لوگوں سے''حق محنت'' کے طور پر زیادہ تر غلط کام کروانے یا ناجائز مراعات حاصل کرنے میں جتے رہتے ہیں۔ ایسے میں حامد میر پر یا ان جیسے کسی اور عوامی شعور کے ترجمان پر برسنے والی گولیوں کا راستہ کون روکے گا! میں نے سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے ایک نظم ''گلیڈی ایٹرز'' کے عنوان سے لکھی تھی سو وہی اپنے شہید اور زخمی صحافی بھائیوں کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ صرف جوابوں میں تیزی اور تبدیلی آئی ہے بنیادی سوال اب بھی وہی کا وہیں ہے۔
ہم اپنے قتل ہونے کا تماشا دیکھتے ہیں
تو اپنی تیز ہوتی سانس کے کانوں میں کہتے ہیں
ابھی جو ریت پر لاشہ گرا تھا
''میں نہیں تھا''
میں تو زندہ ہوں' یہاں
دیکھو' مری آنکھیں' مرا چہرہ' مرے بازو
سبھی کچھ تو سلامت ہے
...............
ابھی کل ہی کا قصہ ہے
سر مقتل ہمارے دست و بازو کٹ رہے تھے
پہ ہم اپنے گھروں میں مطمئن بیٹھے ہوئے
ٹی وی کے قومی نشریاتی رابطے پر
سارے منظر دیکھتے تھے
اور یہ کہتے تھے ''نہیں' یہ ہم نہیں ہیں'
ہماری آستیں پر خون کے دھبے ابھی تازہ ہیں
سوکھے بھی نہیں