ملکی سکیورٹی سیاسی اورآئینی بحران واحد حل انتخابات

تمام سٹیک ہولڈرز کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا:شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال


تمام سٹیک ہولڈرز کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا:شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : فائل

ملک کو اس وقت مختلف محاذوں پر چیلنجز کا سامنا ہے جن میں معیشت، سیاست اور سیکورٹی سر فہرست ہیں۔

یہ چیلنجز اب بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں، ایک ہیجانی کیفیت ہے جس نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، عوام اضطراب میں ہیں اور چاہتے ہیں جلد مسائل کا حل نکلے، ملک میں استحکام آئے اور ان کی زندگیوں میں سکون آسکے۔

موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''ملکی سکیورٹی صورتحال ، سیاسی و معاشی چیلنجز اور ان کا حل'' کے موضوع پرایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسنات

(ماہر خارجہ و سٹرٹیجک امور)

دنیا کے ممالک میں اداروں اور معاشرے کے طبقات کے درمیان تناؤ پیدا ہو جاتا ہے، یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے لیکن اگر یہ بڑھ جائے، بحران کی شکل اختیار کر لے تو ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

ان ممالک میں تناؤ اور ٹکراؤ کو مینج کرنے کے طریقے ہوتے ہیں، وہاں بحران پیدا ہونے سے ہی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے کام کیا جاتا ہے اور کشیدگی کو روکا جاتا ہے۔ وہاں اداروں کی حدود و قیود ہیں، سب کا اپنا اپنا رول ہے اور وہ اسی میں رہ کر اپنے ملک کیلئے کام کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے، اس نے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے، اداروں کی حدود و قیود کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے بہت سارے مسائل بیک وقت بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔

2 برس پہلے ایسی کوئی صورتحال نہیں تھی مگر اب معاشی، سیاسی، آئینی و دیگر بحران سنگین ہوچکے ہیں، سیاسی بحران نے اقتصادی بحران کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ہمیں یاد ہے کہ کرونا وباء نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، دنیا بھر کی معیشت تباہ ہوگئی مگر ہم اس بحران سے بڑے اچھے انداز سے نکل گئے مگر آج جو معاشی صورتحال ہے، یہ اس سے کہیں خطرناک ہے۔

سیاسی بحران کی وجہ سے سرمایہ داروں کا اعتماد ختم ہوگیا ہے، روپے کی قدر تیزی سے کم ہو رہی ہے، ہم امپورٹ کرتے ہیں تو ریٹ مزید بڑھ جاتا ہے، قرضے ہر روز بڑھ رہے ہیں، یہ صورتحال ملک کیلئے انتہائی مشکل ہے۔ اس وقت اداروں میں ٹکراؤ کی صورتحال ہے۔

پارلیمنٹ بھی اس میں آگئی ہے، 70ء کے بعد پہلی مرتبہ آئین کو اتنا بڑا خطرہ لاحق ہوا ہے۔ ماضی میں کسی آمر نے آئین منسوخ کرنے کی جرات نہیں کی، مارشل لاء لگے مگر آئین منسوخ نہیں ہوا، اب حالت یہ ہے کہ 90 روز میں انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے آئینی بحران پیدا ہوچکا ہے،عبوری حکومت کی مدت ختم ہوچکی ہے، انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے جو آئین کی محافظ ہے لہٰذا اگر اعلیٰ عدلیہ اپنا حکم نہ منوا سکی تو اسے آئین کی منسوخی تصور کیا جائے گا، ملک میں لاقانونیت ہوگی۔

قانون کا احترام ختم ہوجائے گا اور لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لیں گے۔ آئین نے سب کو جوڑ کر رکھا ہے، آئین کی وجہ سے لسانیت، قومیت و دیگر لحاظ سے کوئی تفریق نہیں، سب اس کے تلے ایک ہیں، اگر اسے منسوخ کر دیا گیا تو خطرہ ہے کہ حالات خانہ جنگی کی جانب بڑھیںگے۔میں نے اپنی زندگی میں اس سے بڑا بحران نہیں دیکھا، سب کچھ تباہی کی جانب جاتا دکھائی دیتا ہے۔

میرے نزدیک موجودہ مسائل کا واحد حل انتخابات ہیں، آئین بچائیں، انتخابات کرواکر نئی حکومت کو فیصلے کرنے دیں، اس سے سرمایہ داروں کا اعتماد بحال ہوگا اور ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آئے گا، بصورت دیگر حالات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔

ڈاکٹر محمد ارشد

(سابق نائب صدر و سابق ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی )

سیاسی اور معاشی استحکام آپس میں جڑے ہیں ۔سیاسی صورتحال زہر بھی ہے اور تریاق بھی، استحکام ہو تو معیشت کو فائدہ، عدم استحکام ہو تو معاشی بدحالی ہوتی ہے جس کا نقصان ملک کو اٹھانا پڑتا ہے اور بسا اوقات اس کے سنگین نتائج ہوتے ہیں جو قوموں کی تاریخ میں اچھے نہیں رہے۔

پاکستان کی تاریخ میں میرے نزدیک کچھ عجیب سی صورتحال ہے، ہم دائرہ مکمل نہیں کر پارہے بلکہ بیچ راستے ہی سب کچھ واپس پلٹ دیا جاتا ہے۔ ماضی قریب میں دیکھیں تو جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور سے اب تک ، جب بھی ہماری معیشت 6.5 سے 7 تک کی گروتھ حاصل کرتی ہے تو نامعلوم ہاتھ حرکت میں آجاتے ہیں اور سب کچھ الٹ دیا جاتا ہے۔جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں معیشت بہتر ہوئی۔

اس دور میں ہونے والی یورو کانفرنس میں بتایا گیا کہ گزشتہ تین برسوں میں پاکستان میں 50 ہزار سے 1 لاکھ روپے ماہانہ کمانے والوں کی تعداد میں ایک کروڑ کے قریب اضافہ ہوا، یہ کنزیومر کلاس ہے جو مینوفیکچررز اور انڈسٹری کیلئے بہترین ہے۔ اس دور کی ایک اور اچھی بات یہ تھی کہ تاجر خوش تھا، ٹیکس کا نظام بہترین تھا، آئل و گھی سیکٹر نے دوگنا ٹیکس خوشی خوشی دیا مگر نظام ایسا تھا کہ ہمیں تنگی نہیں ہوئی۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں جب سب اچھا ہوا تو ان کی حکومت بھی ختم ہوگئی۔ اسی طرح نواز شریف کے دور حکومت میں 2016-17 ء میں عالمی ریٹنگ ایجنسیاں کہہ رہی تھی کہ 2020ء میں پاکستان کی جی ڈی پی 'ڈبل ڈیجٹ' ہو جائے گی، پھر جو ملک کے ساتھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، عمران خان کی حکومت میں جی ڈی پی منفی ہوگئی لیکن جب 5.67 پر گئی تو سب کچھ الٹ گیا، ہمیں مسائل کی جڑ کو دیکھنا ہے۔

عمران خان نے کنسٹرکشن کے شعبہ کو اچھا پیکیج دیا جس کا فائدہ ہوا ۔ اس پالیسی کی مدت ختم ہونے والی ہے، میرے نزدیک ایسی پالیسیوں میں وقت کی قید نہیں ہونی چاہیے، ہمیں ہر دور کی اچھی پالیسیوں کو آگے بڑھانا ہوگا۔ ہمارے شعبہ زراعت میں بہت پوٹینشل ہے، صرف اسی شعبے پر توجہ دے دی جائے، ویلیو ایڈیشن کر لی جائے، اچھا بیج فراہم کیا جائے، جدید مشینری کی درآمد کو آسان کیا جائے تو ملک معیشت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے۔

سرسوں کی فصل نے امپورٹ بل میں 1.3 بلین کمی کی،اس وقت 22 لاکھ ایکڑ پر سرسوں کاشت ہوئی جس کی فصل 1.5 ملین ٹن ہوگی،اگر سرسوں کے بیج کو بہتر کیا جائے اور حکومت اس طرف توجہ دے تو معاشی بہتری لائی جاسکتی ہے۔ پاکستانی قوم میں محنت اور قربانی کا جذبہ بہت زیادہ ہے،یہ خود ہی 16 ، 16گھنٹے کام کرتی ہے، اگر ہم اپنی معاشی پالیسی درست کر لیں تو آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں پڑھے گی۔

کرنل (ر) فرخ چیمہ

(دفاعی تجزیہ نگار)

ایک برس پہلے ہماری سٹرٹیجک صورتحال بہتر تھی ، پھر سب کچھ یکسر بدل گیا۔ اب حکومت تو موجود ہے مگرہر طرح کا بحران سنگین ہوچکا ہے، حالات ٹکراؤ کی طرف جا رہے ہیں جس سے سکیورٹی کے مسائل سنگین ہوجائیں گے۔مجھے تو صرف نیت کا فقدان نظر آتا ہے ورنہ الیکشن کروا کر استحکام کی جانب بڑھا جاسکتا ہے۔

حکومت خود ہی خود کو قانونی قرار دیتی ہے، خود ہی اعتماد کا ووٹ لے لیا جاتا ہے اور یہ سب ایسی اسمبلی سے ہو رہا ہے جس میں اپوزیشن موجود نہیں، آدھی اسمبلی کے ساتھ جو ان کے دل میں آرہا ہے کیے جا رہے ہیں، کیا ملک اس طرح چلتے ہیں؟ کیا اسے جمہوریت کہتے ہیں؟ کیا یہ جمہور کی منشاء کے مطابق ہو رہا ہے؟

اس وقت ملک کے جو حالات ہیں اس کی ساری ذمہ داری موجودہ حکومت پر ہے، اپوزیشن نے تو ایک بھی گملا نہیں توڑا، حکومت کو تو اپوزیشن ملی ہی نہیں ہے، اسمبلی میں بھی یہ خود ہی موجود ہیں مگر ان سے مسائل حل نہیں ہورہے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔

افسوس ہے کہ ہمارے ادارے سیاست زدہ ہوگئے، آپس میں ٹکراؤ کی صورتحال ہے جو ملک کیلئے اچھی نہیں ہے۔ خدا کے بعد لوگوں کو انصاف کیلئے اعلیٰ عدلیہ سے امید ہوتی ہے، فیصلہ سپریم کورٹ نے جبکہ عملدرآمد حکومت نے کروانا ہوتا ہے مگر اس وقت جو صورتحال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ہم نے اس سال آئین کی گولڈن جوبلی منائی مگر افسوس ہے کہ ہم آئین کو سمجھے ہی نہیں، اس کی اصل روح پر عمل ہی نہیں ہوا بلکہ گولڈن جوبلی والے سال میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

میں نے 2011 میں کتاب لکھی ''انقلاب پاکستان'' جس میں عوامی سوموٹو کی بات کی۔ گزشتہ برس 9اور 10 اپریل کی درمیانی رات کو جو کچھ ہوا اس میں عوام نے سڑکوں پر نکل کر 'سوموٹو' لے لیا، یہ عوام کا فطری ردعمل تھا اور سب کچھ خود ہی ہوا، کسی نے ان کو مجبور نہیں کیا۔ افسوس ہے کہ سب کچھ کمپرومائز ہوگیا جس سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔

اس وقت دو نسلوں کی سوچ کا ٹکراؤ ہے، نئی نسل ڈر کے نظام کو تسلیم نہیں کر رہی جبکہ پرانی نسل اپنا طرز عمل بدلنے اور حالات کی تبدیلی کو تسلیم نہیں کر رہی، انہیں سمجھنا چاہیے کہ عوامی سوچ کے ساتھ ٹکرانا اچھا نہیں ہے،آئین کے مطابق مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ ہم نے 71ء میں یہی کیا۔

اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں، ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ میرے نزدیک موجودہ مسائل کا واحد حل انتخابات ہیں جس کے ذریعے عوام کا منتخب نمائندہ آئے اور اسے اقتدار دیا جائے، اگر ایسا نہ کیا اور کوئی تجربہ کرنے کی کوشش کی تو حالات خانہ جنگی کی جانب بڑھ سکتے ہیں، ایسے ایڈونچر کا خمیازہ ہم پہلے بھی بھگت چکے ہیں، سب کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں