اقبال مسیح۔۔۔ علم اور آزادی کا ہیرو
نام ور اور عالمی شہرت یافتہ چائلڈایکٹیوسٹ اقبال مسیح کی زندگی، عزم اور خدمات کی روشن کہانی
علم والے مرتے نہیں، بلکہ ایک خیال، احساس اور علم کے متلاشیوں کے لیے روشنی کے میناربن جاتے ہیں۔
اقبال مسیح ایک ایسا ہی روشنی کا مینار ہے جو آج بھی اپنے نام اور کام سے علم کی روشنی کو عام کر رہا ہے۔ اس کم عمر بچے نے اپنی جدوجہد، بلندافکار اور سوچ سے دُنیا کو حیران کردیا۔
جو کام اور پیغام کئی ادارے اور بڑے بڑے نام ور لوگ نہ کرپائے وہ اس دلیر اور جواں ہمت بچے نے صرف اپنی بارہ سالہ زندگی میں کر دکھایا۔ ایسی کیا کشش، حکمت اور جرأت تھی جو اس ننھے اقبال مسیح کو دوسروں سے منفرد بناتی ہے اور آج بھی دُنیا اس کے نام اور کام کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس مضمون میں ہم اقبال مسیح کی زندگی، عزم اور موت کے حوالے سے بات کریں گے۔
اقبال مسیح یکم جنوری (جب کہ ان کے خاندان کے مطابق 25 دسمبر) 1983کو مریدکے گاؤں میں ایک غریب کیتھولک مسیحی گھرانے میں سیف مسیح اور عنایت بی بی کے ہاں پیدا ہوا۔ اس کے والدین محنت مزدوری کرتے تھے، کہا جاتا ہے کہ وہ گھروں کی صفائی کا کام کرتے تھے۔ اقبال مسیح کے دو بھائی اور ایک بہن تھی۔
انٹرنیٹ پر موجود معلومات کے مطابق1986 میں، اقبال مسیح کی والدہ کو اپنے ایک بیٹے کی شادی کرنی تھی جس کے لیے اُس نے ایک ٹھیکے دار، جو قالین بنانے والے کارخانے کا مالک تھا، سے 600 روپے قرض لیے اور بطور ضمانت، اپنے بچوں کو گروی رکھو ا دیا۔ یہ قرض چار سالہ اقبال مسیح کی محنت سے ادا کیا جانا تھا، جس میں نامعلوم سود اور اخراجات شامل تھے، جسے عام طور پر ''پیشگی'' کہا جاتا ہے۔
اوزار، خوراک اور اقبال مسیح سے جو بھی غلطی ہونی تھی اس کے لیے جرمانے شامل تھے۔ اسے ایک روپیہ یومیہ ادا کیا جاتا تھا۔ سود کی بلند شرح کی وجہ سے جس پر قرض لیا گیا تھا، اقبال مسیح کے فرار ہونے سے پہلے یہ 13 ہزار روپے تک پہنچ چکا تھا۔
کارخانے میں بچوں کے لیے آج تیس سال پہلے کیسا ماحول اور سلوک ہوگا اس کا اندازہ ہمیں نہیں ہو سکتا، لیکن یہ کسی بھی طرح سے کوئی آئیڈیل صورت حال نہ تھی۔
کارخانے سے فرار:
10 سال کی عمر میں، اقبال مسیح اپنی غلامی کا طوق اتار کر نکل گیا، یہ جاننے کے بعد کہ جبری مشقت کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے غیرقانونی قرار دے دیا ہے۔
اقبال مسیح نے فرار ہو کر اپنے آجر ارشد علی کے بارے میں پولیس کو رپورٹ کرنے کی کوشش کی، لیکن پولیس اسے فیکٹری میں واپس لے آئی اور فرار ہونے والے بونڈڈ لیبر کی واپسی کے لیے فائنڈر کی فیس مانگی۔ اقبال مسیح دوسری بار فرار ہوا اور اس کا داخلہ بونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ (BLLF) اسکول میں ہوگیا، جہاں اس نے صرف دو سال میں چار سالہ تعلیم مکمل کرلی۔
جلد اقبال مسیح کی شہرت پوری دُنیا میں پھیل گئی اور اسے چائلڈ لیبر کے بارے میں تقریروں کے لیے مختلف ممالک نے مدعو کرنا شروع کردیا۔
1994 میں اسے بوسٹن میں ریبوک ہیومن رائٹس ایوارڈ ملا، جہاں اپنی تقریر میں اقبال مسیح نے کہا:
''میں ان لاکھوں بچوں میں سے ایک ہوں جو پاکستان میں بانڈڈ لیبر اور چائلڈ لیبر کے ذریعے مشکلات کا شکار ہیں، لیکن میں خوش قسمت ہوں کہ بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ کی کوششوں کی وجہ سے میں آزاد ہوں۔
میں آج یہاں آپ کے سامنے کھڑا ہوں، آزادی کے بعد میں نے بی ایل ایل ایف اسکول میں داخلہ لیا اور اب میں اسی اسکول میں پڑھ رہا ہوں۔ ہمارے غلام بچوں کے لیے احسان اللہ خان اور بی ایل ایل ایف نے وہی کیا ہے جو ابراہام لنکن نے امریکا کے غلاموں کے لیے کیا تھا، آج تم بھی آزاد ہو اور میں بھی آزاد ہوں۔''
اقبال مسیح کے بھائی پطرس مسیح نے ایک انٹرویو میں کہا،''احسان اللہ نے ایک احتجاجی مظاہرے میں اقبال مسیح کو نعرے لگاتا دیکھا تھا اور اُس سے متاثر ہو کر وہ اسے اپنے اسکول لاہور لے آئے۔'' پطرس مسیح کا کہنا ہے،''اقبال مسیح بہت ذہین اور دُوراندیش بچہ تھا، اُس کے اندر قائدانہ خوبیاں پائی جاتی تھیں۔'' میں نے جب احسان اللہ خان سے رابطہ کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ ایک کتاب لکھے رہے ہیں جو جلد شائع ہو جائے گی جس میں وہ تمام حقائق پیش کریں گے۔
اقبال مسیح کے اعزازات:
اقبال مسیح کو اس کی زندگی اور موت کے بعد بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔ اس کی جدوجہد کودیکھ کر کینیڈا کی ایک رفاہی تنظیم ''فری دا چلڈرن'' کا قیام عمل میں آیا، جس کی انسپائریشن اقبال مسیح تھا۔ اس تنظیم نے پاکستان میں بیس اسکول بھی قائم کیے۔
1994 میں اقبال نے امریکی ریاست میسا چوسیٹس کے ایک اسکول میں ساتویں جماعت کے بچوں سے خطاب کیا۔ بعد میں جب ان بچوں کو اقبال کی موت کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے اسکول سے فنڈ اکٹھے کر پاکستان میں ایک اسکول بنایا۔
اقبال مسیح کی زندگی پر فرانسکو ڈی ایڈمو نے کتاب لکھی جس کا نام '' اقبال '' ہے۔
1994میں اقبال کو بوسٹن میں ریبوک ہیومن رائٹس ایوارڈ سے نوازا گیا۔
1996 میں اسپین اور جنوبی امریکا نے فیصلہ کیا کہ ہر سال 16 اپریل یعنی اقبال مسیح کی برسی ہم چائلڈ لیبر کے خلاف دن کے طور پر منایا کریں گے۔
1998 میں اٹلی کی ایک نئی رفاعی تنظیم نے اٹلی میں بہت سے اسکول قائم کیے جن کا نام اقبال مسیح کے نام پر رکھا گیا۔
2000 میں اقبال مسیح کو اٹلی میں ورلڈ چلڈرن پرائز فار ہیومن رائٹس سے نوازا گیا۔
2009 میں امریکی کانگرس نے ایک نئے ایوارڈ کا آغاز کیا جس کا نام اقبال مسیح ایوارڈ تھا۔ اس ایوارڈ کا مقصد چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کرنے والوں کو سراہنا تھا۔
16 اپریل 2012 کو اقبال مسیح کی سترہویں برسی کے موقع پر سینٹیاگو، اسپین میں ایک چوک کا نام اقبال مسیح رکھا گیا۔
2014 میں کیلاش سیتارٹھی کو چائلڈ لیبر کے خلاف جدوجہد پر نوبیل پرائز سے نوازا گیا۔ اپنی تقریر کے دوران کیلاش نے اقبال مسیح کا ذکر کیا اور اپنا ایوارڈ اقبال مسیح کے نام کیا۔
2016 میں اٹلی کے شہر کاتیانا میں اقبال مسیح کے نام سے رگبی کا ٹورنامنٹ کروایا گیا۔
17 اپریل 2017 کو اسپین کی سالامانکا یونیورسٹی نے فیصلہ کیا کہ آئندہ سال سے وہ ہر سال سولہ اپریل کو اقبال مسیح کی برسی کے موقع پر چائلڈ لیبر اور چائلڈ سلویری (غلامی) کے خلاف دن منایا کریں گے۔
اقبال مسیح کی موت ایک معما:
اقبال کی موت کے متعلق مختلف قیاس آرائیاں پائی جاتی ہیں۔ ایسٹر کے دن 16 اپریل 1995 کو اقبال مسیح اپنے گاؤں میں رشتہ داروں سے ملنے گیا اور کچھ دوستوں کے ساتھ سائیکل چلا رہا تھا کہ ہیروئن کے ایک عادی نشے باز شخص محمد اشرف نے اقبال مسیح کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
اقبال مسیح کے بھائی پطرس مسیح کے مطابق اقبال مسیح کے قتل کے پیچھے احسان اللہ کا ہاتھ ہے جب کہ بی ایل ایل ایف کے بانی احسان اللہ کے مطابق اقبال مسیح کو کارپٹ مافیا نے مروایا جن کے جبری مزدور آزاد کروا کے اقبال مسیح نے انھیں نقصان پہنچایا تھا۔
حال ہی میں ہدایت کار شعیب سلطان نے اپنی نئی فلم Gunjal بنانے کا اعلان کیا ہے جس کی مرکزی کاسٹ میں احمد علی اکبر، آمنہ الیاس اور ریشم شامل ہوں گی ۔ فلم اقبال مسیح کے قتل کی تحقیقات کا احاطہ کرے گی۔
معروف صحافی علی احمد ڈھلواں اپنی کتاب ''پاکستان کی روشن اقلیتیں'' میں لکھتے ہیں،''1995 میں اقبال امریکا سے اپنے گاؤں رکھ باؤ لی پہنچا تو 16 اپریل کو وہ سائیکل پر تھا کہ نامعلوم فائرنگ سے اس کی جان چلی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا اپنے دوستوں سے جھگڑا ہوا تھا۔ اس وقت عاصمہ جہانگیر اور اس کے حلقے کی طرف سے یہ بھی الزام سامنے آیا تھا کہ احسان اللہ خان نے اقبال مسیح کو مروایا ہے۔''
میں سمجھتا ہوں کہ اقبال مسیح کی موت کا محرک کوئی بھی ہو، اس کی اب بھی حکومتی سطح پر تحقیقات ہونی چاہیے اور اقبال مسیح کی زندگی اور خدمات کو عام لوگوں تک پہنچایا جا نا چاہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے 23 اقبال مسیح کو مارچ 2022 ء کو بعد از مرگ ستارہ شجاعت (ایوارڈ برائے بہادری) دیا جو اُن کے بھائی پطرس مسیح نے وصول کیا۔ نام ور پاکستانی فلم پروڈیوسر شرمین عبید چنائے نے اقبال مسیح پر 2019 میں 2منٹ 34سیکنڈ پر مبنی اینی میٹڈ دستاویزی فلم ''اقبال کا بچپن '' کے نام سے بنائی، جس میں بتایا گیا ہے کہ اقبال مسیح اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے وکیل بننا چاہتا تھا تاکہ وہ پنے جیسے بچوں کو جبری مشقت سے آزادی دلوائے۔''
اقبال مسیح کی زندگی کی کہانی پر ڈائریکٹر راجا سید Iqbal- The Forgotten Story بنا رہے ہیں جس کی ٹیگ لائن یوں ہے،''چائلڈ لیبر مافیا کے خلاف آواز اٹھانے پر بارہ سالہ بچے کو گولی مار دی گئی۔ یہ ایک ناقابل فراموش کہانی ہے۔''
2002 میں سوئیڈن میں اقبال مسیح کی خدمات کے اعتراف میں اُس کے خاندان کو ایک سوئیڈش خاتون بریتھ میری نے مدعو کیا۔ اُس کی بہن کو ویزا نہ ملا لیکن اُس کی مترجم ثمینہ گل، لاہور سے سوئیڈن گئیں جن سے میں نے بات کی تو اُنہوں نے بتایا کہ حقیقت میں غیرملکوں نے ہی اقبال مسیح کی عظمت کو پہنچانا ہے۔ سوئیڈن میں اقبال مسیح ایک فریڈم فائٹر کی طرح مقبول ہے۔ اقبال مسیح اپنی عمر سے کئی زیادہ ذہین، بہادر اور پُرجوش مقرر تھا۔
رگبی کے سابق میئر اور قابل فخر پاکستانی ڈاکٹر جیمز شیرا کا کہنا ہے کہ اقبال مسیح کو پاکستان میں بچوں کی فلاح وبہبود کے لیے ایک آئیڈیل اور رول ماڈل بنانا چاہیے۔ پاکستان کو اس کی خدمات کا حکومتی سطح پر بھرپور اعتراف کرنا چاہیے تاکہ ہم دُنیا کو ایک بہتر مثال دے سکیں۔ اقبال مسیح کے نام پر تعلیمی ادارے، چائلڈپروٹیکشن سینٹر اور تعلیم وتربیتی مرکز قائم کیے جانے چاہییں۔
معروف پاکستانی ٹرینر عمیر جالیاوالا نے ایک کانفرنس میں پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بچوں میں تعلیم کو عام کرنے کے لیے اقبال مسیح ایک آئیکون ہیں۔
حکیم احمد نعیم ارشد نے ''اقبال مسیح'' کی زندگی کو اپنی پنجابی نظم میں کیا خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
آکھدا سی بچیاں نُوں قلماں تے کاپیاں
کتاباں دیو بَھیڑیو ہوٹلاں، حماماں تے
دکاناں توں ہٹا دیو بَھٹھیاں چوں کڈھ کے
سکول وِچ پا دیو ہزاراں نال بال اوہنے
قید وِچوں کَڈھے سی آپ بھاویں نِکا سی او
کم وَڈے وَڈے سی باہر دیاں ملکاں چ
اوہدی گل بات سی جی ماڑے گھر دا
مصلی اوہدی ذات سی اپنی انا اُتوں اوہنوں
وار دتا سی ظالماں مصلیاں دا
پُت مار دِتا سی سچی دساں اودوں
اقبال نئیں سی مریا میرے ایس دیس دا
وقار مر گیا سی جھنڈے وِچ چِٹا رنگ
لال کر گیا سی..............!
میں آج بھی اقبال مسیح کی تصویروں میں چہر ہ دیکھتا ہوں تو مجھے اُس چہرے پر ایک عجیب سی مسرت، اطمینان اور اعتماد نظر آتا ہے۔ پھر میں اپنے اردگرد بے شمار، ہوٹلوں، دکانوں اور سٹرکوں پر چھوٹے بچوں کی آنکھوں میں دیکھتا ہوں تو مجھے اقبال مسیح کی شکل یاد آجاتی ہے اور ساتھ ہی اقبال مسیح کا یہ قول اور خواب کہ ''بچوں کے ہاتھ میں قلم ہونا چاہیے اوزار نہیں۔''
کاش ہم اقبال مسیح جیسے بے شمار ننھے ہیروز کی قدر کرنا شروع کریں تو شاید ہمارا مقدر بدل جائے۔