کپتان سے مرشد تک کا سفر حصہ اول

دوسروں کو اس کی صحبت میں بیٹھنے سے دنیا سے بے توجہی و آخرت کی رغبت اور اللہ تعالی کی یاد پیدا ہوتی ہو


[email protected]

مسلمانان پاکستان اپنے مذہب اور رسول مقبول خاتم النبیین و رحمت العالمین حضرت محمد مصطفٰی، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر مر مٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، اسی عقیدت کی آڑ میں ہمیشہ ان کے جذبات سے اپنی ضرورت کے مطابق سیاست دان اور طاقتور حلقے کھیلنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، ماضی میں جتنے حکمران گذرے، چاہے وہ لبرل تھے یا قدامت پسند سب نے اپنی حکمران کو قائم رکھنے کے لیے مذہب کا استعمال ضرور کیا ہے۔

عمران خان نیازی نے بھی اپنی سیاست میں فرمائشی مذہبی ٹچ دیاہے، خان صاحب نے نئے انداز میں مذہب کو سیاست میں استعمال کیا اور اب بھی کررہے ہیں۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو بات میرے جیسے ''ان پڑھ اور اوسط ذہن'' کے لوگوں کو بہت پہلے سمجھ آگئی تھی کہ فرمائشی مذہبی ٹچ دکھاوا ہے۔

مقصد اقتدار ہے '' مگر افسوس تحریک انصاف کے ''پڑھے لکھے، ذہین اور ریاست مدینہ کے طلبگار محب وطن قائدین اور کارکنان'' کو کیوں سمجھ نہیں آرہی۔ اگر چہ پانی سر سے گزر چکا ہے مگر شکر ہے تحریک انصاف کے سمجھدار لوگوں کو اب سمجھ میں آنا شروع ہوگیا کہ مذہبی ٹچ ایک سیاسی حربہ ہے۔

تحریک انصاف کے انداز سیاست نے ہماری معاشرتی اقدار کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ گالم گلوچ بریگیڈ عمران خان کے مخالفین پر کیچڑ اچھالنے میں تو کامیاب رہا لیکن اس نے سیاست اور معاشرت کو اخلاقی اعتبار سے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے آنے کے بعد پاکستانی سیاست اور معاشرت میں بہت سی منفی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ان میں سے اب تک کی بڑی اور بری تبدیلی نوجوان نسل کو بدتمیز بنانا ہے۔

ہم کئی بار کالموں میں اس بات کی نشاندہی کرچکے ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت کی شبانہ و روز محنت کے نتیجے میں پڑھے لکھے اور بظاہر مہذب نظر آنے والے نوجوانوں کا ایک طبقہ بدزبانی، بد تمیزی اور بدلحاظی میں تمام حدیں عبور کر چکاہے، ویسے تو ہر سیاسی پارٹی نے اپنے اپنے انداز میں نوجوانوں کو اخلاقی ومعاشرتی اقدارسے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر پی ٹی آئی نے نوجوانوں کی ایک ایسی نسل تیار کر دی ہے جو عمران خان کے سیاسی مخالفین کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔

ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ حد سے گزر جاتے ہیں، مخالفین سے گالم گلوچ کرنا، ان پر جھوٹے الزامات کی بوچھاڑ کرنا، مخالفین کی کردارکشی ان کی فطرت ثانیا بن چکی ہے۔ اب یہ کلچر معاشرے میں بھی سرایت کررہا ہے، بڑے چھوٹے، اپنے پرائے، دوست رشتے داروں کا بھی لحاظ نہیں کیا جارہا ہے۔

اب تو پی ٹی آئی کارکنان نے عمران خان کو مرشد کے درجے پر فائز کردیا ہے، زمان پارک میں باقاعدہ ایک چوک کا نام مرشد چوک رکھ دیا گیا ہے۔ عقل کے ان اندھوں کو مرشد کی تعریف نہیں معلوم ورنہ وہ ایک سیاسی لیڈر کو''مرشد'' کا نام و مقام کبھی نہ دیتے۔

لفظ ''مرشد'' ارشاد سے بنا ہے جس کے معنی ہیں راستہ دکھانا، راہنمائی کرنا۔ مرشد کے معنی ہیں اللہ رب العزت تک پہنچنے کا راستہ دکھلانے والا، راہنمائی کرنے والا۔ دینی اور شرعی اعتبار سے مرشد اس نیک و صالح شخص کو کہا جاتا ہے جو لوگوں کو دین مبین کا راستہ اسوہ حسنہ کی روشنی میں بتاتا ہو اور صوفیائے کرام کی اصطلاح میں ''مرشد'' اس شیخ کامل کو کہتے ہیں جس نے اتباع شریعت اور احوال طریقت میں خود کمال حاصل کر لیا ہو اور اس کے کامل یا قابل ارشاد و تلقین ہونے کی تصدیق کسی دوسرے شیخ کامل نے کردی ہو، اسی کو شیخ و مرشد، ولی اللہ، عارف باللہ بھی کہا جاتا ہے۔

جس کی علامت یہ ہے کہ گناہوں سے بالخصوص کبائر سے بچنے کا اہتمام کرتا ہو فرائض و واجبات کے ساتھ دیگر باتوں میں احکام شرع کا پابند ہو، حرص دنیا سے مجتنب ہو کر فکر آخرت اور ہم وقت تزکیہ نفس کی طرف متوجہ ہو نیز اس نے کسی کامل کی صحبت میں رہ کر اپنے باطن کا تزکیہ اور اصلاح بھی کرایا ہو۔ دوسروں کو اس کی صحبت میں بیٹھنے سے دنیا سے بے توجہی و آخرت کی رغبت اور اللہ تعالی کی یاد پیدا ہوتی ہو۔

ہمارے ملک کے تمام سیاستدان بشمول عمران خان اس تعریف پر پورا نہیں اترتے۔ ہم نے آج تک کسی مرشد کو نہیں دیکھا جو گیت و سنگیت کے شور میں سیاسی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں چور، ڈاکو جیسے برے الفاظ استعمال کرے۔ ہم نے کسی ایسے مرشد کو نہیں دیکھا جس چہرے پر سنت نبوی کی ایک جھلک دکھائی نہ دے۔

سابق چیف جسٹس، بابا رحمتے نے امت مسلمہ کی تاریخ میں پہلی بار ایک سیاستدان عمران کو''صادق و امین'' قراردے دیا تو پھر ایسا تو ہونا ہی تھا۔ عمران خان نیازی کی باتیں سن کر سادہ لوح ورکر پھر حدیں کیوں پار نہ کرے۔ بات مرشد تک بھی نہیں رہے گی، اس سے بھی آگے نکل جانے کا پورا امکان ہے، سیاست تو بدلتی رہتی ہے لیکن عقیدت کا عالم کچھ اور ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں