گریٹ ہپناٹائزیشن

اگرآپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے یہ کہانیاں آپ کو یونہی تفریح طبع کیلیے سنائی ہیں تو آپ ہمیشہ کی طرح غلط سمجھ رہے ہیں


Saad Ulllah Jaan Baraq April 29, 2023
[email protected]

گل رحمان عرف بلٹیرہمارا پرائمری اسکول کا ہم جماعت تھا،شکل وصورت سے بھی مسکین سا تھا، جسمانی لحاظ سے کچھ زیادہ طاقتور نہیں تھا لیکن سارا اسکول اس سے ڈرتا، لڑکے تولڑکے استاد بھی اس سے ڈرتے تھے، بلٹیر ان سے بھی نہیں ڈرتاتھا اور اس ڈرکی وجہ اس کا ''چپکو'' ہونا تھا ،ایک مرتبہ کسی سے بھڑ جاتا تھا تو پھر چپک ہی جاتا، چاہے مارہی کیوں نہ پڑ رہی ہو لیکن چھوڑتا نہیں تھا ۔

استاد نے ایک مرتبہ اسے کسی بات پر مارا تو استاد سے لپٹ پڑا ، مارو مجھے اور مارو اور مارو، استاد کب کا اسے چھو ڑچکا تھا لیکن ان سے لپٹ لپٹ اور چمٹ چمٹ کر کہتا جاتا تھا اور مارو اور مارو ،استاد کے ہاتھ میں بید تھا اسے پکڑ پکڑ اپنے آپ کو مارنے کاکہتا جاتا آخر استاد نے وہ بید چھوڑ دیا تو اس نے لے کر خود مارنا شروع کیا ، مارو مجھے اور مارو ، بڑی مشکل سے ہم استاد کو ''اس سے '' چھڑا سکے۔

ایک مرتبہ چھٹی کے بعد ہم اسکول سے نکلے تو گل رحمان راستے میں ایک لڑکے سے بھڑا ہوا تھا ، وہ لڑکا اسکول کا نہیں تھا اوراس سے کافی بڑا اورمضبوط تھا وہ اسے دوچار لگا کر چھوڑ دیتا تھا لیکن بلٹیرکہاں چھوڑنے والا ، پھر اس سے لپٹ پڑتا، کافی رگیدنے کے بعد بھی جب اسے چھوڑتا تو یہ پھر اسے چمٹ جاتا۔

آخر اس لڑکے نے اسے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور سینے پر بیٹھ کر خوب تھپڑگھونسے مارے لیکن جیسے ہی وہ اسے چھوڑ کر اٹھنے کی کوشش کرتا، بلٹیر نیچے سے اس کو پکڑے ہوئے ہوتا وہ پھر اسے مارتا لیکن خود کو اس سے ''چھڑانے'' میں کامیاب نہ ہوسکا، تھک ہار کر وہ تماشائیوں سے فریاد کرنے لگا، دیکھ کیا رہے ہو، آؤ مجھ اس سے چھڑاؤ،کوئی آگے نہیں بڑھا تو اس نے تقریباً روتے ہوئے کہا،اچھا تو اس کے باپ کے پاس جاکر بلاؤ جو مجھے اس سے چھڑائے حالانکہ وہ اوپر اور بلٹیر نیچے تھا۔

بلٹیر ( بل ٹیریر) کتوں کی وہ قسم ہے جو خاص طور پر لڑانے کے لیے پالی جاتی ہے چنانچہ بچپن میں اس کے کان اور دم کاٹ لیے جاتے ہیں تاکہ لڑائی میں ان کو دم یا کانوں سے پکڑا نہ جاسکے۔

ان بلٹیر کتوں کی پکڑ اتنی سخت ہوتی ہے کہ ایک مرتبہ اگر کہیں دانت گاڑ لیتے ہیں تو پھر عام طریقوں سے چھڑانا مشکل ہوجاتا چنانچہ چھڑانے والے ان کے منہ میں کوئی ڈنڈا گھسا کر اور اسے گھما کر ان کا منہ کھول کر چھڑاتے ہیں اور بعض اوقات انسانوں میں کوئی کوئی بلٹیر پیداہوجاتاہے جو ایک مرتبہ اگر کسی کو لاحق ہوجائے تو پھر اسے ہرگزنہیں چھوڑتا ۔

اصل خان ایک اور لڑکا تھا جو بعد میں آدمی بھی بنا اس میں ایک بلٹیرانہ خاصیت تھی وہ بغیر کسی ہتھیار کے مخالف کا وہ حال کردیتا تھا کہ اس کی چیخیں نکل جاتیں، چاہے وہ کتنا ہی بہادر، طاقتور اور لڑاکو کیوں نہ ہوتا۔ وہ جو غالب نے کہاہے کہ ... لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔ اصل خان اس کا بہترین نمونہ تھا وہ جب کسی کے درپے ہوتا تو نہ تھپڑ نہ گھونسا نہ لات نہ لاٹھی نہ خنجر نہ تلوار اور نہ کوئی دوسرا ہتھیار بلکہ تاک مخالف کے کسی حصۂ جسم میں اپنے دانت گاڑ دیتا۔

اگر ابتدا میں مخالف کے ایک دو وار پڑ بھی جاتے تو اس کی پروا نہ کرتا پھر یہ جتنا اپنے دانتوں کو زور دیتا مخالف کی چیخیں نکلتیں، ظاہر ہے کہ مخالف بھی خود کو چھڑانے کی کوشش کرتا لیکن سب کی سب بیکار کہ دانتوں کی پکڑ اس کے تن بدن کو مفلوج کرچکی ہوتی ،کچھ لوگوں نے تجربہ بھی کیاتھا کہ اس کے منہ کی پکڑ میں نہ آئیں لیکن ادھر وہ بھی اپنے فن کا ماہرتھا ،کوئی نہ کوئی جگہ دانتوں کی گرفت میں لے ہی لیتا ،اس کی اس خاصیت کی بنا پرگاؤں کے سارے لوگ اس سے ڈرتے اورممکن حد تک اس سے پنگا لینے سے خود کو بچائے رکھتے ۔

اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے یہ کہانیاں آپ کو یونہی تفریح طبع کے لیے سنائی ہیں تو آپ ہمیشہ کی طرح غلط سمجھ رہے ہیں ،ہم کوئی دانا دانشور تو ہیں نہیں جو بائیڈن ، پوٹین ، مودی اور چینیوں، جاپانیوں کو اردو میں مشورے دیں ، سیدھے سادے بس وہی کہتے ہیں جو دکھائی دیتاہے اور جوہمیں دکھائی دے رہاہے وہی سب کو دکھائی دے رہاہے، صرف ایک دانت کا درد ہے جو سارے لوگوں، سارے اداروں اورسارے ملک کو لاحق ہے ، عدلیہ ، انتظامیہ، قانونیہ ، سیاسیہ ، حکمرانیہ اور عوامیہ سب اس کی ٹرانس میں ہیں بلکہ کمال کی بات تو یہ ہے مہنگائی جو آج تک کسی کی بھی گرفت میں نہیں آئی تھی اسے بھی اس نے اپنے قابو میں کرلیا ہے ،اس حد تک کہ عوام اسے بھول چکے ہیں ۔

کچھ اس قدر تو میرے ساتھ بے وفائی کر

کہ تیر ے بعد کوئی اور بے وفا نہ لگے

بلکہ ہمیں تو ایسا لگنے لگاہے کہ جیسے سارا ملک ہی اس کے ٹرانس میں آگیاہے کہ وہ ہار کر بھی جیت رہا ہے اوردور سے جیت کر بھی ہارے ہوئے ہیں۔ وہ کہیں سناتھا کہ جوجیت کرجیت جائے یاہار کرہار جائے وہ کھلاڑی اورجو ہار کر بھی جیتے وہ بازیگر۔

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا

بخدا ہم غالب کے طرف دارنہیں صرف سخن فہم ہیں اورجس طرح تقریباً ایک سال سے اس نے سارے ملک کو مفلوج کیا ہواہے وہ کوئی بازیگرہی ہوسکتاہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں