ڈاکٹر اسرار احمد صاحب داعی ِ قرآن
ڈاکٹر صاحب نے جس طرح سادگی سے زندگی بسر کی، ان کی قبر بھی اس کی گواہی دے رہی ہے
آج اسی قرآن اکیڈیمی سے، جہاں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب سال ہا سال تک قرانی علوم و معارف کے خزانے بانٹتے رہے ہیں، کچھ ہی فاصلہ پر واقع قبرستان میں ڈاکٹر صاحب ابدی نیندسو رہے ہیں۔ جب کبھی میں اس قبرستان کے پاس سے گزرتا ہوں، تو ان کے مرقد پر ضرور حاضری دیتا ہوں۔
ڈاکٹر صاحب نے جس طرح سادگی سے زندگی بسر کی، ان کی قبر بھی اس کی گواہی دے رہی ہے،کوئی جنگلہ نہیں،کوئی لمبی چوڑی تختی نہیں،کوئی خطابات القابات نہیں، ایک کچی قبر کی تختی پر صرف یہ چند الفاظ لکھے ہیں، '' مرقد داعی ِ قرآن ڈاکٹر اسرار احمد''۔ ماہ اپریل سے جہاں ہماری تاریخ کے کچھ اور صدمات جڑے ہوئے ہیں ، وہاں امت مسلمہ کے عظیم فرزند اور خادم قرآن ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی جدائی کا صدمہ بھی ہے۔
ڈاکٹر صاحب سے میری یادیں سب سے پہلے ان کے سمن آباد والے گھر کے حوالہ سے ہے۔ پونچھ روڈ اسلامیہ پارک سے سمن آباد کی طرف آئیں اور نالہ پار کرکے پہلے گول پر پہنچیں تو بائیں طرف مڑتے ہی اندر پہلے کونے پر پرانی طرز کی ایک کوٹھی دکھائی دیتی تھی۔ ویسے تو یہ کوٹھی اب بھی موجود ہے، لیکن اب اس کے بیرونی حصہ میں دکانیں بن چکی ہیں۔
نہیں معلوم کہ اندر سے بھی اس صورت میں باقی ہے یا نہیں، جس صورت میں، میں نے اسے ۲۵ سال پہلے اس وقت دیکھا تھا،جب میں اس کے اوپری حصہ میں رہتا تھا۔ کوٹھی کا نچلا حصہ ہفت روزہ ''ندا'' کے دفاتر کے لیے مخصوص تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے بھائی اقتداراحمد صاحب اس جریدہ کے ایڈیٹر، جب کہ بیٹے عاکف سعید، جو بعد میں تنظیم اسلامی کے امیر بھی رہے ہیں، اس کے چیف ایگزیکٹوہوا کرتے تھے۔
یہ کوٹھی ڈاکٹرصاحب ہی کی ملکیت تھی، اگرچہ وہ خود ماڈل ٹاون منتقل ہو چکے تھے۔ ان کی انقلابی جماعت '' تنظیم اسلامی'' کا قیام بھی اسی کوٹھی میں عمل میں آیا تھا۔
میرا معمول یہی تھا کہ باغ جناح میں ڈاکٹر صاحب ہی کی اقتدا ء میں نماز جمعہ ادا کرناہے۔ یہیں میں نے پہلی بار ڈاکٹر صاحب کو قریب سے دیکھا اور یہ بھی بہت دلچسپ واقعہ ہے۔ دراصل اس وقت تک میں نے ڈاکٹر صاحب کو صرف ٹی وی اسکرین پر دیکھا تھا،جس پر ان کا چہرہ بہت ہی سفید نظر آتا تھا۔
اس روز میں خطبے سے پہلے ہی منبر کے سامنے بیٹھ گیا اور ان کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ خطبہ شروع ہونے میں صرف چند منٹ باقی رہ گئے مگر مجھے ڈاکٹر صاحب کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ خطبے کا وقت ہوتے ہی میرے ساتھ بیٹھے گہری سانولی رنگت کے ایک بھاری بھرکم صاحب اپنی جگہ سے ہلے، سر پر تہ کیے ہوئے سفید بالوں پر دو مرتبہ ہاتھ پھیرا، پھر سامنے رکھی ہوئی قراقلی ٹوپی پہنی اور منبر پر تشریف فرما ہوگئے۔
ایک لمحے کے لیے لگا کہ یہ کوئی اور صاحب ہیں، اور ڈاکٹر صاحب کی مسند پر براجمان ہو گئے ہیں، لیکن جیسے ہی انھوں نے اپنے مخصوص جلالی لہجے میں قرات شروع کی اور ان کی آنکھوں میں وہی چمک اور ان کے چہرے پر وہی تمکنت نمودار ہوئی، جو درس قرآن دیتے ہوئے میں نے صرف ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر دیکھی ہے، تو وہ پھر سے وہی ''ڈاکٹر اسرار احمد ''بن گئے۔
جن کے درس قرآن کی کشش مجھے یہاں کھینچ کے لائی تھی، بلکہ آج ٹی وی کیمروں اور تیز روشنیوں کے بغیر ان کے درس قرآن میں پہلے سے زیادہ حلاوت اورکشش محسوس ہو رہی تھی۔ نمازکے بعد ڈاکٹر صاحب سے مصافحہ کیا تو اسی طرح کی روحانی مسرت کا احساس ہوا ، جس طرح کہ مردان خدا سے مصافحہ کرکے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے میری پہلی براہ راست ملاقات جون ۱۹۹۰ء میں ہوئی، جب میں ہفت روزہ ''زندگی''میں بطور معاون مدیر شمولیت اختیار کر چکا تھا۔
خالد ہمایوں صاحب ''قومی ڈائجسٹ'' کی مجلس ادارت کے رکن تھے۔ ایک روز میں اور ہمایوں صاحب ایم اے او کالج کے باہرخان صاحب کے چاے کے کھوکھے پر چاے پی رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے ''فلسفہ انقلاب'' کا ذکر چھڑ گیا۔ طے یہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کا ایک تفصیلی انٹرویو ہونا چاہیے۔
مقبول الرحیم مفتی صاحب ان دنوں ابھی تک ہفت روزہ ''ندا'' میں ہوتے تھے۔ سہ پہر کو میں ان کے پاس پہنچا۔انھوں نے بھی اس تجویز کو پسند کیا، لیکن تاکید کہ انٹرویو غیر روایتی اور مختلف بھی ہونا چاہیے۔
ہمایوں صاحب ، مفتی صاحب اور میں نے مل کر ہی سوالنامہ مرتب کیا۔ پھر ڈاکٹر صاحب سے رابطہ قائم کیا۔یادیں تو بہت سی ہیں جنھیں لکھنے کے لیے ایک طویل مضمون چاہیے مگر آخر میں میں یہ کہناچاہوں گا کہ چند روز پیشتر ڈاکٹر صاحب کی لحد پر حاضر ہوا ، تو ان کی وصیت کے مطابق مرقد پر ان کی شناخت کے طور پر صرف ''داعی قرآن ''کے الفاظ دیکھ کر علامہ صاحب کا یہ شعر ذہن میں گونجنے لگا ؎
مومناں را تیغ با قرآں بس است
تربت ما را ہمیں ساماں بس است !