داغی پھلوں کی فروٹ چاٹ

گزشتہ حکومتوں کے داغی دانے نہیں تھے بلکہ ایسے ایسے دانے بھی ’’دھوکر‘‘ شامل کیے گئے ہیں


Saad Ulllah Jaan Baraq April 18, 2023
[email protected]

ایک محترمہ نے جن کے نام سے پری چہرہ نسیم اور دلیپ کمار یادآجاتے ہیں، فرمایا ہے کہ داغی پھلوں سے تو کوئی فروٹ چاٹ بھی نہیں بناتا اور یہاںحکومت بنالی یا بنادیتے ہیں۔ بات بڑی مزیدار ہے کہ اس میں پھلوں کا ذکرہے،داغی ہی سہی اور ہم جیسے ترسے ہوئے لوگوں کے لیے ''نام'' بھی کافی ہوتے ہیں ۔

محترمہ کے بیان سے ایک بات تو یہ ثابت ہوگئی کہ موصوفہ کے ہاں آج کل یعنی رمضان میں فروٹ چاٹ بنتی ہوگی یعنی ان کا تعلق اس طبقے سے ہے جو سالم پھل خرید بھی سکتے اوران کی چاٹ بھی بنی بلکہ بنوا کر کھا سکتے ہیں،اس لیے ان کو یہ علم ہرگز نہیں ہوگا کہ ہم غریب لوگوں کادل جب فروٹ چاٹ کو کرتا ہے تو سالم پھل یا تو آنکھوں میں ہی چاٹ لیتے ہیں یا داغی پھل سستے میں خرید کر داغی حصے کاٹ دیتے ہیں اوراچھے اچھے ٹکڑوں سے چاٹ بناکر چاٹ لیتے ہیں ۔

وہ کہیں دو کنجوسوں میں بات گھی کی چل نکلی ،ایک نے کہا کہ میں تو گھی اس طرح کھاتاہوں کہ روٹی کھاتے ہوئے گھی کا بھرا ہوا بوتل سامنے رکھ دیتا ہوں، بوتل میں ایک تنکا ڈبوتا ہوں اورروٹی پر مل کرکھاتا ہوں دوسرے نے کہا ،تمہاری اس فضول خرچی کی وجہ سے تو تم میری طرح کروڑ پتی نہیں بن سکے۔

وہی لکھ پتی کے لکھ پتی رہ گئے ہو ۔گھی میں بھی کھاتا ہوں، کھانا کھاتے وقت گھی کی بوتل بھی سامنے رکھتا ہوں لیکن تمہاری طرح تنکے کی عیاشی نہیں کرتا ہوں، صرف ڈھکنا کھول لیتا ہوں، گھی کی خوشبو آتی رہتی ہے اور میں روٹی کھاتا رہتا ہوں ۔

ہم پاکستانی بچارے غریب بھی ہیں اور ہماری گٹھڑی میں چور بھی بہت ہیں اور ویسے پاکستان میں سالم پھل صرف سالم لوگوں کو دستیاب ہیں ،اس لیے داغی پھلوں کے سالم ٹکڑوں سے ہی چاٹ بناسکتے ہیں حالانکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جب کسی پھل کو داغ لگ جاتاہے تو جراثیم پورے پھل میں سرایت کرجاتے ہیں اوربظاہرسالم نظر آنے والے حصے بھی متاثر ہوتے ہیں لیکن کیاکیاجائے شوق تو کسی نہ کسی طرح پورا کرنا پڑتا ہے۔

چنانچہ اگر محترمہ سے پوچھا جائے کہ پاکستان میں آج تک کوئی سیاسی چاٹ ایسی بنی ہے جو داغی پھلوں پر مشتمل نہ ہو کہ یہ باغ ہی سارا داغی ہے، اس کے درخت بھی اورپھل بھی،ایسی حالت میں گزارہ کرنا پڑتاہے جو ویسے بھی ہم پاکستانیوں کا قومی پیشہ ہے۔

ہمارے ایک بزرگ کو حکیم صاحب نے پرہیز بتایا کہ وہ موٹا گوشت ہرگز نہ کھائیں، صرف چھوٹا گوشت کھائیں۔اب چھوٹا گوشت تو ان کی استطاعت سے باہرتھا، اس لیے انھوں نے تدبیر یہ کی کہ قصائی سے چھوٹے جانوریعنی بکرے یا چھترے کا سر خرید لاتے تھے اورسرکے گوشت میں شوربا بناکر استعمال کرتے تھے۔

یہ پرانے زمانے کاایک وہم ہی تھا ورنہ چھوٹا بڑا گوشت یکساں طورپر نقصان دہ ہوتاہے، بالکل پاکستانی لیڈروں کی طرح کہ چھوٹے بڑے سارے ہی بچھو ہوتے ہیں، کسی نے ایک بچھو سے پوچھا، تم میں بڑا کون ہے تو اس نے بتایا کہ جس کی دم پر ہاتھ رکھو گے وہی بڑا ہوتاہے ۔

ویسے تو محترمہ نے حکومت اورفروٹ چاٹ کی بات تو بڑی مزیدار بلکہ چپٹی کہی ہے لیکن موصوفہ بھول گئیں کہ جب بات چاٹ بنانے کی آتی ہے تو یہ بجائے خود ایک مجبوری ہوتی ہے، کھانے والے رنگا رنگ ذائقے چکھنا چاہتے ہیں ورنہ پھل تو ویسے بھی کھائے جاسکتے ہیں۔

چارٹ بنانا بذات خود ایک ملاوٹ والی بات ہے،بیک وقت بہت سارے ذائقوں کا شوق رکھنے والے ہی چاٹ کو پسند کرتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ آج تک پاکستان میں حکومتوں کے نام پر فروٹ چاٹ ہی بنتی رہی ہے کہ پاکستانیوں کو چاٹ ہی پسند ہے، وہ بیک وقت امرود ،کیلے، سیب، انگور اور انار کاذائقہ چاہتے ہیں اوراس شوق میں بھول جاتے ہیں کہ کونسا پھل سالم ہے اورکونساداغی۔

ہم بیک وقت ایسی حکومت چاہتے ہیں جو دین داری میں خلفائے راشدہ جیسی ہو یعنی ریاست مدینہ اور جدید تقاضوں کے مطابق سب سے زیادہ ماڈرن بھی ہو۔ وہ ایک صاحب نے اس کا فارمولا بھی پیش کیاتھا کہ اسلام ہمارا دین ہے،جمہوریت ہماری سیاست ہے اور سوشلزم ہماری معیشت ہے لیکن بنایاکیا ؟

ہم خدا خواہی وہم دنیائے دوں

ایں خیال است ومحال است وجنوں

یعنی ہم ایک طرف تو ''شہید''ہوکر جنت کی حوروں کو بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں اوردوسری طرف ''غازی''بن کر اپنے گھر لوٹنا اوربال بچوں کے ساتھ آرام سے جینا بھی چاہتے ہیں ۔

اب یہ جو تازہ ترین فروٹ چاٹ بنتے ہم نے دیکھی بلکہ اسے چکھ بھی چکے ہیں ، ان میں کونسی چاٹ تھی یاہے جس میں گزشتہ حکومتوں کے داغی دانے نہیں تھے بلکہ ایسے ایسے دانے بھی ''دھوکر'' شامل کیے گئے ہیں جن کی سڑانڈ اور بدبوسارے جہاں میں پھیلی ہوئی ہے۔ وہی باغ، وہی درخت ، وہی پھل، صرف کریٹ اور ٹوکری نئی ہے۔ آخر ان کے پاس وہ کونسا جادو کا ڈنڈا ہے جو سڑے ہوئے پھل کو ایک دم تازہ وشگفتہ بنا دیتاہے ۔

آخر میں محترمہ کی خدمت میں عرض ہے کہ جب تک یہ فروٹ چاٹ کاسلسلہ جاری رہے گا،داغی پھل اس میں آتے رہیں گے ۔

جب تک سموسے میں آلو رہے گا

سیاست میں ''لالو'' رہے گا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں