صبیحہ صبا صغیر جعفری بے مثال ادبی جوڑا

اردو منزل کے نام سے ان کی ایک مشہور ویب سائٹ بھی ہے جس کی سوشل میڈیا میں بھی بڑی شہرت ہے


یونس ہمدم April 14, 2023
[email protected]

دبستان ادب میں بہت کم ایسی شخصیات آئی ہیں جنھوں نے میاں بیوی کی صورت میں کاندھے سے کاندھا ملا کر پرورش لوح و قلم کی ہے اور شعر و ادب کی دنیا میں اپنے آپ کو منوایا بھی ہے۔

صبیحہ صبا اور صغیر جعفری ایک ایسی بے مثال ادبی جوڑی ہے جس نے نصف صدی سے اردو زبان و ادب کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہے اور بلاشبہ اس ادبی جوڑے کو ان کی ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے ہنسوں کا ادبی جوڑا بھی کہا جاسکتا ہے۔

اردو منزل کے نام سے ان کی ایک مشہور ویب سائٹ بھی ہے جس کی سوشل میڈیا میں بھی بڑی شہرت ہے۔ میں ان دونوں شخصیات کی شاعرانہ خوبیوں سے تو بہت پہلے سے واقف تھا مگر میری ان سے ملاقات بہت بعد میں ہوئی جب یہ دونوں عرب امارات اور ابو ظہبی میں سکونت پذیر تھے تو ان کی وہاں بھی اردو زبان و ادب سے محبت عروج پر تھی۔

ان دنوں میں لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ تھا مگر گاہے گاہے اخبارات میں ان کی ادبی سرگرمیوں کے تذکرے میں پڑھتا رہتا تھا۔ صغیر جعفری شاعر ہونے کے ساتھ ایک انجینئر بھی تھے اور بحیثیت انجینئر ہی یہ عرب امارات میں مقیم رہے۔

اردو زبان کے فروغ میں یہ وہاں بھی شب و روز مصروف رہتے تھے انھوں نے وہاں بے شمار مشاعروں کی محفلوں کا انعقاد کیا اور پاکستان و ہندوستان کے نامور شاعروں کے جشن بھی منائے اور پھر سب سے بڑھ کر ادبی شخصیات کے لیے بڑے پیمانے پر اعتراف کمال ایوارڈ کی بنیاد ڈالی اور عرب امارات میں تسلسل کے ساتھ ادبی شخصیات کو اعتراف کمال ایوارڈز سے نوازتے رہے، اس دوران پاکستان اور ہندوستان کی بھی نامور ادبی شخصیات مدعو کی جاتی تھیں، اس دوران جن نام ور ادبی شخصیات کو اعتراف کمال ایوارڈز دیے گئے۔

ان میں احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، پروین شاکر، مشتاق احمد یوسفی، صفیہ کمال، ڈاکٹر اسلم فرخی، راغب مراد آبادی، دلاور فگار اور ہندوستان کی نام ور ادبی شخصیت کیفی اعظمی کو بھی اعتراف کمال ایوارڈ شان دار تقریبات کے دوران دیے گئے اور ان کی یہ قابل قدر کاوشیں کافی عرصہ تک جاری رہی تھیں۔

یو۔اے ای کی حکومت کی طرف سے صبیحہ صبا اور صغیر جعفری کو ان کی نمایاں ادبی خدمات پر گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا تھا۔

پھر جب یہ واپس پاکستان آئے تو کراچی میں نئے سرے سے اردو منزل کا قیام عمل میں لایا گیا اور اردو منزل کے بینر تلے پاکستان اور خاص طور پر کراچی کی بیشتر ادبی شخصیات کو مدعو کرتے ہیں ان کی خدمات پر ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے خوبصورت انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

ان کے کیے ہوئے سارے انٹرویوز پھر یوٹیوب پر بھی ناظرین کی توجہ کا باعث بنتے ہیں، چار سال پہلے میں جب امریکا سے پاکستان گیا تھا تو مجھے بھی اردو منزل کا مہمان ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا اور صبیحہ صبا صاحبہ نے میرا بھی ایک گھنٹے کا ایک انٹرویو کیا تھا جس میں میری لاہور کی فلمی یادیں اور باتیں بھی شیئر کی گئی تھیں۔

اب میں کچھ صبیحہ صبا صاحبہ کی ذاتی زندگی پر بھی روشنی ڈالتا چلوں۔ صبیحہ صبا کے والد ضیا الحق صدیقی تقسیم ہندوستان کے بعد جب اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آئے تو انھوں نے پنجاب کے شہر ساہیوال میں سکونت اختیار کی، صبیحہ صبا کی پیدائش بھی ساہیوال ہی میں ہوئی تھی ان کے والد بھی ایک اچھے شاعر تھے اور درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے۔

شاعری کی وجہ سے گھر کا ماحول بھی کافی ادبی تھا اور شعر و ادب سے ان کے گھر کا دامن مالا مال تھا اور اس طرح صبیحہ صبا کو بھی شاعری کا شوق ورثے میں ملا۔ انھوں نے اپنی ابتدائی شاعری سب سے پہلے اپنے والد صاحب کو ہی سنائی اور اس طرح ان کی بڑی حوصلہ افزائی کی گئی، ان کے والد شاعری کے ساتھ ساتھ تنقیدی مضامین بھی لکھتے تھے اور ادبی حلقوں میں ان کی بڑی شہرت تھی۔

صبیحہ صبا نے کالج کی تعلیم کے دوران شاعری کا باقاعدہ آغاز کردیا تھا پھر پنجاب کے کئی شہروں میں مشاعروں میں شرکت کے لیے جاتی تھیں اور مشاعروں کی محفلوں کے دوران ہی ان کی ملاقات صغیر جعفری صاحب سے ہوئی۔

صغیر جعفری نے این۔ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے ڈگری حاصل کی تھی پھر ان کو ملتان کھاریاں میں بحیثیت انجینئر واپڈا کے محکمہ میں ملازمت مل گئی پھر واپڈا سے ان کا تبادلہ مشرقی پاکستان کردیا گیا تھا وہ کچھ عرصہ بحیثیت انجینئر سلہٹ کے علاقے میں بھی مقیم رہے۔

اس دوران ان کی وہاں کی سیاسی شخصیات سے بھی گہری واقفیت ہوگئی تھی جن میں شیخ مجیب الرحمن، خواجہ ناظم الدین اور خواجہ شہاب الدین شامل تھے۔ جب صغیر جعفری پاکستان میں تھے تو ان کی ملاقات صبیحہ صبا صاحبہ سے ہوئی تھی اور پھر دونوں خاندانوں کی باہمی رضامندی سے یہ شادی کے بندھن میں بندھ گئے تھے۔ پھر دونوں نے عرب امارات میں ایک طویل عرصہ گزارا اور واپس پاکستان آگئے تھے۔

دونوں کی شاعری اپنے عروج پر تھی مگر صبیحہ صبا ادبی حلقوں میں کچھ زیادہ ہی پیش پیش تھیں اس دوران ان کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آئے۔ لفظ بنے تصویر، لفظوں کا شہر، دل درد آشنا، تخیل کو ادبی حلقوں میں بڑا پسند کیا گیا۔

اس دوران صغیر جعفری اپنی ملازمت کی وجہ سے کوئی شعری مجموعہ جلد منظر عام پر نہ لاسکے مگر مشاعروں میں شرکت کرتے ہوئے بیگم کے ساتھ قدم سے قدم ملاتے ہوئے چلتے رہے۔ اردو ادب کی خدمت میں اپنی تمام توانائی صرف کرتے ہوئے ادبی دنیا میں اس ادبی جوڑے نے ایک مثال قائم کی ہے۔

عرب امارات کے دوران انھوں نے جن نامور پاکستانی ادبی شخصیات کے جشن منائے ان میں مشتاق احمد یوسفی، ایوب خاور، فرحت پروین کو بھی یہ اعزاز حاصل رہا ہے۔

ان کی ادبی تقریبات میں ہندوستان سے نام ور ادیبہ قرۃ العین حیدر اور گوپی چند نارنگ جیسی جید ادبی شخصیات نے بھی شرکت کی تھی۔

چند ماہ پہلے جب میں کراچی گیا تھا تو میرے لیے بھی اردو منزل میں ایک ادبی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا اور اعتراف کمال ایوارڈ جس کا اجرا عرب امارات میں کیا گیا تھا پھر پاکستان آنے کے بعد اس ایوارڈ کا سلسلہ دنوں کے بعد نئے سرے سے کراچی میں شروع کیا گیا اور مجھ ناچیز کو بھی میرے مشہور فلمی نغمات اور میرے کئی شعری مجموعوں کے منظر عام پر آنے اور ادبی حلقوں میں پسندیدگی کی سند حاصل کرنے پر اعتراف کمال ایوارڈ کا اردو منزل میں دوبارہ کراچی میں آغاز کرتے ہوئے پہلے اعتراف کمال ایوارڈ کا مجھے بھی مستحق قرار دیا گیا اور اردو منزل میں ایک شان دار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔

ان دنوں کراچی بارشوں کی نذر ہو گیا تھا اور کئی دنوں سے تسلسل کے ساتھ بارشیں ہو رہی تھیں کراچی شہر کا ہر علاقہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا تاریخ اناؤنس ہو چکی تھی تقریب کے دو دن بعد کی میری امریکا واپسی کی فلائٹ کنفرم تھی، یہ تقریب ہونی ناممکن نظر آ رہی تھی مگر پی ای سی ایچ سوسائٹی کا علاقہ بارشوں سے کافی بچا ہوا تھا۔ صبیحہ صبا اور صغیر جعفری صاحب کے حوصلے کی داد دینی پڑتی ہے ۔

اس تقریب میں شہر کی کئی نام ور ادبی شخصیات نے بھی شرکت کی اور اس تقریب کی صدارت سینئر شاعر فیروز ناطق خسرو نے کی تھی۔ اس تقریب کے آخر میں ایک شعری نشست کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ صبیحہ صبا صاحبہ کے کلام سے پہلے صغیر جعفری نے اپنی ایک نعت اور چند اشعار سنائے اور پھر صبیحہ صبا نے ایک خوبصورت غزل پیش کی جس کے اشعار قارئین کی نذر ہیں:

حرف ریشم نہیں تلوار بھی ہو سکتے ہیں

یہ جو مظلوم ہیں خونخوار بھی ہو سکتے ہیں

ہم کسی عہد وفا کے لیے پابند نہیں

ہم ترے نام سے بے زار بھی ہو سکتے ہیں

ہو مقدر میں اندھیرا یہ ضروری تو نہیں

خواب غفلت سے وہ بیدار بھی ہو سکتے ہیں

کسی مظلوم کے جھلسے ہوئے چہرے کی طرح

یہ کسی اور کے رخسار بھی ہو سکتے ہیں

وہ جو صدیوں سے زمانے میں غم کے پالے ہیں

وہ خوشی سے کبھی سرشار بھی ہو سکتے ہیں

میرے شہروں میں قیامت سی مچانے والے

ہاتھ باندھے پس دیوار بھی ہو سکتے ہیں

آج بے وقعت و بے در ہیں پریشان سے لوگ

کل یہی وقت کے سردار بھی ہو سکتے ہیں

نکھرے نکھرے ہوئے خوش رنگ گلابوں کی طرح

میرے گلشن کی یہ مہکار بھی ہو سکتے ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں