ہمارے غوری صاحب جب یاد آتے ہیں
گہرے اورتکلیف دہ احساس سے ان کی آواز رندھ گئی۔ میں چپ چاپ ان کا چہرہ دیکھ رہا تھا
لاہور میں جن درویش صفت صحافیوں سے میرا بہت رابطہ رہا اوران کی دکھوں بھری جندھڑی کا میں عینی شاہد ہوں، ان میں رفیق غوری صاحب بھی ہیں۔ وہ بھی جب سے دنیا سے رخصت ہوئے ہیں، کبھی ان کا ذکر اذکار نہیں سنا۔
ہمارے جیسوں معاشروں میں جہاں پیسہ ہی سب سے بڑی 'اخلاقی قدر' ہے، غوری صاحب جیسے لوگوں کا مقدر یہی ہے کہ موت کے بعد بیدردی سے بھلا جاتے ہیں۔
ان سے پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی، یہ تو یاد نہیں رہا ، لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ لاہور میں انھی کی طرح کے ایک اور بے نوا صحافی محمد سعید اظہر مرحوم المعروف ''علامہ صاحب '' کے توسط سے پہلی بار ان سے علیک سلیک ہوئی تھی۔ غوری صاحب چک جھمرہ فیصل آباد کے گاؤں رنیکے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد گائوں میں اسکول ٹیچر تھے اور ان کو بھی اسکول ٹیچر ہی بنانا چاہتے تھے۔ لیکن غوری صاحب کو پڑھائی سے رغبت نہ تھی، وہ لاہورآنا چاہتے تھے۔
غوری صاحب لاہور پہنچے تو رات کو سونے کی جگہ اور دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے۔ ناچار روزی روٹی کے لیے مزدوی شروع کر دی۔ ایک روز تلاش روزگار میں پھرتے پھرتے گلوکارہ نورجہاں کی کوٹھی پہنچ گئے۔ مگر چندروز بعد ہی یہ نوکری چھن گئی اور پھر فٹ پاتھ پر آ گئے ۔ چک جھمبرہ میں میں ان کے والد کو یہ سب کچھ معلوم ہوا تووہ بیٹے کو واپس لے گئے۔ لیکن غوری صاحب دوبارہ لاہور پہنچ گئے۔ اس بار میکلوڈ روڈ پر شورش کاشمیری کے ہفت روزہ''چٹان'' میں ان کو پناہ مل گئی ۔
ہفت روزہ 'چٹان' کے بعد غوری صاحب نے مختلف اخبارات اور جرائد میں کام کیا، لیکن افتاد طبع کچھ ایسی تھی کہ کسی کے ساتھ زیادہ دیر ان کی نبھ نہ سکتی تھی۔ پھر انھوں نے '' آواز خلق '' کے نام سے اپنا اخبار نکالا ۔ اس دفتر میںغوری صاحب سے کافی ملاقاتیں ہوئیں۔ معلوم ہوا کہ سینیٹ کا الیکشن بھی لڑ چکے ہیں۔
'' آواز خلق '' نہ چل سکا۔ ا س ناکام تجربہ کے باوجود غوری صاحب نے ایک نیوز ایجنسی کی بنیاد رکھی، لیکن یہ تجربہ بھی اندوہ ناک ثابت ہوا، ان پر قرضوں کے بوجھ میںمزید اضافہ کر گیا، اور ان کی زندگی کی بنیادیں ہل کے رہ گئیں ۔ انھی دنوں ایک روزغوری صاحب کی عیادت کے لیے کرشن نگر ان کے گھر پہنچا ۔ معلوم ہوا کہ مالی تنگی ناقابل برداشت ہو چکی ہے ۔ صحت اس حد تک گر چکی تھی کہ سیڑھیاں اترنا چڑھنا بھی مشکل تھا لیکن مال روڈ پر سر شام کہیں نہ کہیں ان کی محفل ضرور برپا ہوتی تھی۔
مجھے ان سب ٹھکانوں پرغوری صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ان کو میں نے مالی طور پر ہمیشہ تنگی ترشی میں دیکھا۔ غوری صاحب سے میری آخری ملاقاتیں ٹمپل روڈ پر روزنامہ ''اساس'' کے دفتر میں ہوئیں۔ وہ اس کے ایڈیٹر بن چکے تھے۔ یہیں معلوم ہوا کہ کچھ عرصہ قبل ان کو برین ہیمرج بھی ہوا، گفتگو کے دوران اچانک وہ کہیں کھو جاتے تھے۔ زبان میں کچھ لکنت بھی آ چکی تھی۔ یہیں ان سے آخری ملاقات ہوئی۔ اس روز وہ ضرورت سے زیادہ مضطرب تھے۔
بجلی کی کیتلی میں پانی گرم کیا، لیکن چائے بنائے ہوئے ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ پھر چینی تلاش کی تو معلوم ہوا کہ کب کی ختم ہو چکی۔ ہم نے اسی طرح چائے پی لی۔ پھر انھوں نے کچھ ایسی محبت سے اپنے والد کاتذکرہ کیا کہ ان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ وہ یادوں کے دریچے وا کرکے واپس اپنے رینی کے چک جھمرہ پہنچ گئے،ایسے میرا گھر ہوتا تھا، ایسے میرے اباجی تھے، ایسی میری ماں جی تھیں، ایسے میرے بھائی بہن اور چچا تھے، اور یہاں لاہور آکے میں نے زندگی اس طرح جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے کہ بیوی بچوں کو اپنا گھر بھی نہیں دے سکا' اوریہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔
گہرے اورتکلیف دہ احساس سے ان کی آواز رندھ گئی۔ میں چپ چاپ ان کا چہرہ دیکھ رہا تھا، اور سوچ رہا تھا، کیا یہ وہی غوری صاحب ہیں، جنھیں بہت سال پہلے میں نے ''آواز خلق'' کے دفتر میں بے حد مسرور پایا تھا، اور مشکل ترین حالات میں بھی آواری ہوٹل اور شیزان ریسٹورنٹ میں قہقہے لگاتے، بے تکان بولتے، پائپ پیتے اور چٹکلے چھوڑتے دیکھا تھا۔ غوری صاحب کو اس طرح بے چین دیکھ کر میں بھی پریشان ہو گیا۔ چند روز بعد دوبارہ ان کے دفتر گیا تو معلوم ہوا کہ دفتر چھوڑچکے ہیں۔
پھر پتا چلا کہ چوبرجی کے آس پاس کرایہ کے گھر میں رہتے ہیں اور بہت کم ہی باہر نکلتے ہیں۔ وقت کتنی تیزی سے بیت جاتا ہے۔ آج یہ بھی یاد نہیںکہ انھیں اس دنیا سے گئے کتنے برس بیت چکے ہیں۔ صرف اتنا یاد آ رہا ہے کہ اس روز ان کو الوداع کہنے کے لیے گھر سے نکلا، تو مون سون کی بارش ہو رہی تھیں اور چوبرجی چوک مسجد قادسیہ میںغوری صاحب کے جسد خاکی کے پاس اداس کھڑے شاہد ملک صاحب کہہ رہے تھے ، خدا حافظ غوری صاحب ۔ سعدی ؔنے کہا تھا :
بضاعت نیاور دم الا امید
خدایا ز عفوم مکن ناامید