خالصتانحقیقت میں ڈھلتا ایک خواب

ہندو اکثریت کی غلامی سے بچنے کیلئے سکھ قوم کیا اپنی آزاد مملکت قائم کر سکے گی؟چشم کشا داستان



یہ وسط 2022ء کی بات ہے، کھرب پتی بھارتی مکیش امبانی، گوتم اڈانی، رادھاکرشن دامنی، ساوتری جندال، ایس پی ہندوجا، کمار برلا وغیرہ مشترکہ وفد کی صورت وزیراعظم نریندر مودی سے جا کر ملے۔

یہ بھارتی صنعت کار وکاروباری چاہتے تھے کہ بھارتی حکومت زرعی اشیا کی خریدوفروخت کے نظام کی نج کاری (پرائیوٹائزیشن)کر دے۔وہ سرکاری قیمت پر زرعی اشیا نہ خریدے بلکہ یہ معاملہ ملٹی نیشنل و مقامی کمپنیوں پہ چھوڑ دے۔

اس طرح وہ غذا کے نہایت اہم اور بامنافع شعبے میں اپنی اجارہ داری قائم کر کے خوب کمائی کرنا چاہتے تھے۔بااثر اور بی جے پی و آر ایس ایس کو سالانہ اربوں روپے چندہ دینے والے کھرب پتیوںکا مطالبہ نریندر مودی کو تسلیم کرنا پڑا۔

سکھ کسانوں پہ مودی کا حملہ

مودی کی ہدایت پہ بھارتی زراعت کی نج کاری کرنے کے لیے حکمران جماعت نے تین قوانین تیار کیے جو 27 ستمبر 2020ء سے لاگو کر دئیے گئے۔مگر جلد ہی خصوصاً بھارتی پنجاب اور ہریانہ ریاستوں کے کسان ان قوانین کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔بھارت میں یہ ریاستیں ''روٹی کی ٹوکری''کہلاتی ہیں کہ بیشتر اناج مہیا کرتی ہیں۔

کسانوں کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے زرعی اشیا نہ خریدیں تو انھیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سستے داموں فروخت کرنا پڑیں گی۔کسانوں نے مودی سرکار پہ الزام لگایا کہ اس نے انھیں کھرب پتیوں کے ہاتھ بیچ ڈالا ۔احتجاج کرتے کسانوں میں سکھ کسان نمایاں تھے۔

وہ سمجھتے تھے کہ نئے قوانین کی مدد سے ملٹی نیشنل کمپنیاں رفتہ رفتہ ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیں گی۔گویا مودی قومی زرعی نظام کمپنیوں کے حوالے کر کے کسانوں کو ان کا غلام بنانا چاہتا تھا۔ اس گھناؤنی سازش کے خلاف سکھ کسانوں نے زبردست احتجاج کیا۔ان کی پُرزور احتجاجی تحریک رنگ لائی اور 1 دسمبر 2022ء کو مودی جنتا قوانین واپس لینے پر مجبور ہو گئی۔یوں مغرور مودی کا گھمنڈ پارہ پارہ ہو گیا۔

بھارتی جرنیلوں کا مودی کو انتباہ

پسپائی کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ سکھوں میں وفاق ِبھارت کے خلاف نفرت بڑھ رہی تھی اور وہ اپنا آزاد وطن، خالصتان قائم کرنے کے نعرے لگانے لگے تھے۔بھارتی جرنیلوں نے تبھی مودی سرکار کو متنبہ کیا کہ وہ فی الفور زرعی قوانین واپس لے ورنہ خالصتان کی علیحدگی پسند تحریک عام سکھوں میں پھیل جائے گی۔

بھارتی فوج کے انتباہ پر مودی کو تاریخی پسپائی اختیار کرنا پڑی۔بھارتی جرنیلوں کا خوف بے جا نہیں تھا۔سکھ پہلے ہی بھارتی برہمن حکمران طبقے سے خار کھائے بیٹھے ہیں۔وجہ یہ کہ اس نے آئین بناتے ہوئے بڑی عیاری ومکاری سے سکھ مت، بدھ مت اور جین مت کے پیروکاروں کو ہندومت کے دائرہ کار میں شامل کر دیا۔



بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 شق 2 میں صاف درج ہے:'' ہندوؤں کے حوالے سے یہ تعبیر کی جائے گی کہ اس میں سکھ، جین اور بدھ مت کے پیروکاروں کا حوالہ شامل ہے۔''گویا بھارتی آئین کے مطابق سکھ مت دراصل ہندومت کا ایک فرقہ ہے۔بھارتی حکمران طبقہ اور قوم پرست و انتہا پسند تنظیم، آر ایس ایس بھی یہی نظریہ رکھتی ہے۔

یہ نظریہ اس سوچ کی پیداوار ہے کہ یوں بھارت میں ہندوؤں کی آبادی کو زیادہ سے زیادہ کر دیا جائے۔تاہم سکھوں، جینیوں اور بدھیوں کے احتجاج پر ان کی آبادی سرکاری دستاویزات میں علیحدہ دکھائی جانے لگی۔مگر سچ یہ ہے کہ آئین کی رو سے وہ ہندومت کا فرقہ ہی ہیں۔اسی باعث سکھ لیڈر اکثر وبیشتر بھارتی حکمران طبقے پہ برس پڑتے ہیں۔

فرق زیادہ ہیں

ہندومت اور سکھ مت میں مماثلتیں کم ، فرق زیادہ ہیں۔ بنیادی اور نمایاں ترین فرق یہی ہے کہ سکھ ایک خدا کے ماننے والے ہیں، جبکہ ہندو سیکڑوں دیوی دیوتا کی پوجا کرتے ہیں۔اہم مماثلتیں صرف دو ہیں: اول یہ کہ ہندوؤں کی طرح سکھ بھی سمجھتے ہیں کہ انسانوں و حیوانوں کی روح نہیں مرتی اور کسی نہ کسی روپ میں پھر جنم لیتی ہے۔

اگر اس نے پچھلے جنم میں اچھے کرم(کام)کیے ہوں تو اسے اچھا روپ ملتا ہے ورنہ بُرا روپ۔دوم یہ کہ عموماً سکھ بھی اپنے مردے ہندوؤں کی طرح جلا تے ہیں۔ان دو کے علاوہ دونوں مذاہب میں کئی فرق ملتے ہیں۔

سکھ مت کے بانی، گورو نانک(1469ئ۔1539ئ)پیدائشی طور پہ بت پرست تھے۔ واضح رہے، تب ہندومت کا وجود نہ تھا۔یہ مذہب تو انیسویں صدی کے وسط سے انگریز و برہمن نے اپنے مفادات کی خاطر ایجاد کیا۔گرو نانک کے دور میں ہندوستان بھر میں مختلف بت پرست فرقے موجود تھے جو اپنے مخصوص دیوی دیوتا رکھتے ۔شمالی ہند میں وشنوفرقے کا زور تھا۔ گرو نانک کے والدین بھی اسی فرقے کے پیروکار تھے۔

گرو جی نے اپنی شاعری میں اسی فرقے کے پنڈتوں اور دیوی دیوتاؤں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔انھوں نے پھر اسلامی عقائد سے متاثر ہو کر ایک خدا پہ ایمان کو اپنے مذہب کی بنیاد بنا دیا۔گرو نانک رحم دل، انسان دوست اور محبت پہ یقین رکھنے والے راہنما تھے۔

جیو اور جینے دو کے فلسفے پہ عمل کرتے۔اسی لیے مغل حکومت نے ان سے کوئی تعرض نہ کیا۔بلکہ اکبر اعظم کے دور حکومت (1556ء تا 1605ء )میں سکھ مت پھلتا پھولتا رہا۔بعد ازاں حکومت کے ہندو مشیروں نے ذاتی یا مذہبی مفاد پورے کرنے کے لیے سکھوں اور مسلمانوں کے مابین غلط فہمیاں پیدا کیں اور یوں انھیں باہم لڑا دیا۔

چندو مل کی سازش

مثال کے طور پر سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان سب سے پہلا اختلاف لاہور کے ایک ہندو بنیے، چندو مل المعروف بہ چندو شاہ کی پیداوار تھا۔چندومل اپنی بیٹی کی شادی سکھوں کے پانچویں گرو، ارجن کے بیٹے سے کرنا چاہتا تھا مگر انھوں نے انکار کر دیا۔اس پر چندو مل ان کا دشمن بن گیا۔1606 ء میں خسرو مرزا نے اپنے باپ،مغل بادشاہ جہانگیر کے خلاف بغاوت کر دی۔

وہ افغانستان کی طرف جاتے ہوئے لاہور کے قریب ترن تارن شہر میں گرو ارجن سے ملا جنھوں نے اس کی آؤبھگت کی۔جب جہانگیر بیٹے کا پیچھا کرتے لاہور آیا تو چندو مل نے نمک مرچ لگا کر گرو ارجن کے خلاف باتیں کیں، انھیں شہزادے خسرو کا حامی بتایا اور یوں بادشاہ کو خوب بھڑکا دیا۔چندو مل کی باتوں میں آ کر جہانگیر نے گرو ارجن کو قید کر دیا۔روایت کے مطابق دوران قید ہی گرو چندو مل کے تشدد کے باعث چل بسے۔اس کے بعد ہی مغل حکومت اور سکھوں کے مابین لڑائیوں کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔

قائداعظم ؒ کی سکھوں کو پیشکش

عیّار ہندوؤں کی سازشوں اور جنم دی گئی غلط فہمیوں کے باعث مسلمانوں اور سکھوں کے مابین دوریاں پیدا ہو ئیں حالانکہ مذہبی نقطہ نظر سے ہندومت کی نسبت اسلام سکھ مت سے زیادہ قربت رکھتا ہے۔ان دوریوں کا ایک منفی نتیجہ 1947ء میں سامنے آیا جب سکھ لیڈروں نے پاکستان پر بھارت کو ترجیح دی۔یہی نہیں ،کانگریسی ہندو لیڈروں کی میٹھی میٹھی باتوں میں آ کر اپنے آزاد وطن کا مطالبہ شدومد سے پیش نہیں کیا۔

دور جدید کے سکھ مورخین ودانشور لکھتے ہیں کہ تب سکھوں کو بھی قائداعظم جیسا مدبر وجری رہنما مل جاتا تو آج دنیا کے نقشے پر سکھوں کا آزاد وطن موجود ہوتا۔1947ء میں قائداعظم محمد علی جناح نے سکھ لیڈروں کو پیش کش کی تھی کہ وہ برطانوی صوبہ پنجاب کو تقسیم کیے بغیر پاکستان میں شامل ہونے دیں۔بدلے میں قائد نے انھیں دل کھول کر مراعات وترغیبات دی تھیں۔دراصل قائداعظم کو علم تھا کہ تقسیم پنجاب سے کئی انسانی، معاشی، معاشرتی مسائل جنم لیں گے۔

1941ء کی مردم شماری کی رو سے برطانوی پنجاب کی ''53.2 فیصد''آبادی مسلمان تھی۔جبکہ ''30.1فیصد''ہندو، ''14.9فیصد''سکھ اور ''1.5فیصد''عیسائی بستے تھے۔گویا صوبے میں مسلم آبادی سب سے زیادہ تھی۔اگر صوبے میں صوبہ سرحد یا سلہٹ کی طرح عوامی رائے جاننے کے لیے ریفرنڈم ہوتا تو یقینی تھا کہ سبھی مسلمان پاکستان میں شامل ہونے کو ترجیچ دیتے۔

یوں برطانوی پنجاب تقسیم ہوئے بغیر پاکستان کا حصہ بن جاتا۔اسی امر کو مدنظر رکھ کر ہندو کانگریسی لیڈوں نے برطانوی پنجاب میں ریفرنڈم کرانے کی مخالفت کی اور چکنی چپڑی باتیں کر کے سکھ راہنماؤں کو بھی ساتھ ملا لیا۔ہندو لیڈروں کا دعوی تھا کہ سکھ پاکستان کا حصّہ بنے تو مسلمان ان کی مذہبی وتہذیبی شناخت مٹا ڈالیں گے۔

کانگریسی لیڈروں کی ''برین واشنگ''کے باعث سکھ راہنما نہ صرف پاکستان کے مخالف ہو گئے بلکہ انھوں نے اپنے آزاد وطن بنانے کی جہدوجہد بھی ترک کر دی۔



قائداعظم نے بہت کوشش کی کہ وہ کانگریسی لیڈروں کی مکاری وعیاری سکھ لیڈروں پہ آشکارا کر سکیں مگر انھیں کامیابی نہیں ملی۔

رفتہ رفتہ مسلمانوں کے مابین غلط فہمیاں اتنی بڑھ گئیں کہ وہ مرنے مارنے پر اتر آئے۔ان کے درمیان فساد کرانے میں ہندو انتہا پسند تنظیموں مثلاً ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس نے بنیادی کردار ادا کیا۔دور جدید کے سکھ مورخین اعتراف کرتے ہیں کہ تقسیم ہند کے موقع پر سکھ قائدین کا طرزعمل عاقلانہ، اعتدال پسندانہ اور مثبت نہ تھا۔اسی لیے دوران ہجرت فساد کے خوفناک واقعات ظہورپذیر ہوئے۔

سردار کپور سنگھ(متوفی 1986ء )سکھوں کے ممتاز لیڈر گزرے ہیں۔برطانوی دور میں اعلی سول افسر رہے۔بعد ازاں رکن لوک سبھا بنے۔ان کے قائداعظم سمیت سبھی مسلمانوں سے خوشگوار تعلقات تھے۔مسلم لیگ اور سکھ لیڈروں کے مابین مذاکرات میں حصہ لیا۔وہ اپنی آپ بیتی''سچی ساکھی''میں لکھتے ہیں:''مئی 1947ء میں جناح صاحب نے سکھ لیڈروں کے سامنے ایک اسکیم رکھی۔مقصد یہ تھا کہ برطانوی پنجاب تقسیم نہ ہو سکے۔جناح سکھ لیڈر، ماسٹر تارا سنگھ کے ساتھ اس اسکیم پر کام کرنا چاہتے تھے۔اسکیم کے نمایاں نکات یہ تھے:

1... پنجاب تقسیم نہ ہو اور پاکستان میں شامل ہو جائے۔حکومت پاکستان راوی سے لے کر جمنا تک کا علاقہ بطور سکھوں کی سرزمین تسلیم کر لے گی۔پاکستان میں سکھ ایک ذیلی قوم کا درجہ رکھیں گے اور انھیں اپنے معاملات میں مکمل خودمختاری حاصل ہو گی۔

2... پنجاب اسمبلی میں سکھوں کے لیے'' 33 فیصد''اور قومی اسمبلی میں'' 20 فیصد''نشستیں مخصوص ہوں گی۔پنجاب ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی سکھ ججوں کا تناسب درج بالا شرح کے مطابق ہو گا۔

3...صوبہ پنجاب کا گورنر یا وزیراعلی سکھ ہو گا۔

4... افواج پاکستان اور اس کی ہائی کمانڈ میں سکھوں کا تناسب ''40 فیصد''ہو گا۔

5...پاکستان کے آئین میں کوئی شق سکھوں کی عمومی رائے سے متصادم ہوئی تو اسے ختم کر دیا جائے گا۔

ہندو حکومت کا سکھوں سے سلوک

قائد کی اسکیم کے مندرجات واضح کرتے ہیں کہ انھوں نے سکھ قوم کو بڑی فیاضی سے پیشکشیں کی تھیں۔صوبہ پنجاب میں ان کی آبادی محض14.9فیصد تھی، قائداعظم نے مگر انھیں اسمبلی میں 33 فیصد نشستیں دینے کا وعدہ کیا۔

اسی طرح دیگر پیشکشیں بھی دل کھول کر دی گئیں۔مقصد یہی تھا کہ صوبہ تقسیم نہ ہو۔سکھ اسکیم قبول کر لیتے تو برعظیم پاک وہند خوفناک فساد سے بچ جاتا۔افسوس سکھ لیڈوروں نے کانگریسی ہندؤں کے بہکاوے میں آ کر اسکیم کو رد کر دیا۔یہی نہیں ، کانگرسیوں کی ایما پہ فساد بھی برپا کیا جس پر وہ بعد میں پچھتائے۔

بھارت کے ہندو حکمران طبقے نے سکھ قوم کے ساتھ کیا سلوک کیا؟اس نے بڑی چالاکی سے ان کو ہندومت کا فرقہ بنا دیا۔یوں سکھ مت ہندؤں کا ذیلی فرقہ بن گیا۔درست کہ ریاست بھارتی پنجاب میں انھیں اکثریت حاصل ہو گئی مگر ریاست کے قدرتی وسائل سے عموماً ہندو قوم ہی مستفید ہوتی ہے۔

یہی نہیں، جب ہندؤں کی بالادستی و ظلم ختم کرنے کے لیے سکھوں نے آزاد وطن کی تحریک کا آغاز کیا تو ہندو سکیورٹی فورسز ان پہ ٹوٹ پڑیں۔بھارتی فوج نے سکھوں کے متبرک مقام، گولڈن ٹیمپل کا تقدس پامال کر ڈالا۔اسی جرم کے نتیجے میں بھارتی لیڈر، اندرا گاندھی اپنے سکھ گارڈوں کے ہاتھوں ماری گئی۔جواباً ہندؤں نے ہزارہا سکھ مار ڈالے اور ان کی ''نسلی صفائی''کرنے کی کوششیں ہوئیں۔

انہی واقعات کے باعث سکھوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہندو قوم اپنی عددی طاقت کے بل بوتے پر انھیں اپنا ماتحت ومطیع بنانا چاہتی ہے۔بیشتر سکھ ہندواکثریت سے معاشی و معاشرتی وجوہ کی بنا پر بگاڑ نہیں چاہتے۔انھیں بجا طور پہ خوف ہے کہ تصادم سے ان کی روزمرہ زندگی متاثر ہو گی۔لیکن جب سے مودی کی زیرقیادت ہندو قوم پرست اقتدار میں آئے ہیں،سکھوں کے خلاف ان کے اقدامات کی وجہ سے سکھ قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔

بھارت میں سب ہندو

ہندو قوم پرستوں کا نظریہ ہے کہ بھارت میں آباد سبھی باشندوں کو ہندو ہو جانا چاہیے۔یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے وہ مختلف طریقے اپناتے ہیں۔مثلاً غیر ہندؤں کو مراعات کا لالچ دینا تاکہ وہ ہندو ہو جائیں۔ان پہ تشدد کرنا اور ڈرانا دہمکانا تاکہ روزی روٹی چھن جانے کا خوف انھیں ہندو بنا دے۔

ان شیطانی ہتھکنڈوں کی وجہ سے کئی قبائلی و عیسائی ہندو ہو چکے۔اب تو مسلمان بھی ہندوانہ نام رکھ لیتے ہیں کہ ملازمت پا سکیں۔ہندو قوم پرست مگر سکھوں میں زیادہ متحرک نہیں کیونکہ وہ انھیں اپنا ذیلی فرقہ سمجھتے ہیں۔

1984ء کے بعد ہندوؤں اور سکھوں کا پہلا نمایاں ٹکراؤ 2020ء میں زرعی قوانین لاگو ہونے سے ہوا۔مودی حکومت نے اپنے کھرب پتی پشت پناہوں کو خوش کرنے کے لیے یہ قوانین بنائے ۔اسے سکھوں کی طرف سے سخت اور ہنگامہ خیز احتجاج کی توقع نہیں تھی۔

ظاہر ہے، کسی کا ذریعہ معاش تباہ کرنے کی سعی ہو تو وہ احتجاج ضرور کرے گا۔اسی احتجاج سے سکھ قوم میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند ہندو تنظیموں کے جنگجویانہ نظریات قبول کر لینے والی ہندو اسٹیبلشمنٹ اب اسے اپنا تابع بنا لینا چاہتی ہے۔اسی لیے سکھوں میں آزاد وطن قائم کرنے کی تمنا پھیل گئی۔

سکھ قوم کے خدشات بجا ہیں کہ ہندو فاشسٹ انھیں زبردستی ہندومت کا فرقہ بنانا چاہتے ہیں۔مثال کے طور پر 9 نومبر 2019ء کو آر ایس ایس کے فاشسٹ نظریات پہ عمل پیرا بھارتی سپریم کورٹ کے ججوں نے ایودھیا کیس کا 1046 صفحات پہ مشتمل ''انوکھا''فیصلہ سنایا۔انوکھا اس لیے کہ انھوں نے انتہا پسند ہندؤں کے ہاتھوں بابری مسجد کی شہادت غیرقانونی قرار دیتے ہوئے بھی وہاں ہندو قوم کو رام مندر بنانے کی اجازت دے دی۔

مقدمے کی کارروائی کے دوران ہندو وکلا نے ایک نام نہاد سکھ دانشور، راجندر سنگھ کو پیش کیا۔موصوف نے مختلف غیر معتبر و غیر مستند جنم ساکھیوں(گورونانک کی داستان حیات)کی بنیاد پہ دعوی کیا کہ گورونانک مغل بادشاہ ، بابر کی آمد سے قبل 1507ء میں ''درشن''کرنے ایودھیا کے شری رام جنم بھومی مندر گئے تھے۔نیز دوران مقدمہ سکھ مت کو ''کلٹ''(cult)لکھا گیا۔جبکہ ایک شہادت یہ دی گئی کہ 28 نومبر1858ء کو ایک مسلح نہنگ ، فقیر خالصہ نے رام جنم بھومی مندر پر آگ جلائی اور پوجا کی تھی۔

بھارتی ججوں کے جھوٹ

سکھ مت کے نامور مورخین، دانشوروں اور مذہبی رہنماؤں نے درج بالا ''جھوٹ''ایودھیا فیصلے میں شامل کرنے پر سخت احتجاج کیا۔اول وجہ یہ کہ گورونانک بتوں کے پجاری نہیں تھے۔اور نہ ہی انھیں اس امر پہ یقین تھا کہ کسی بت کے درشن یا کسی مندر کی یاترا کرنے سے مکتی(نجات)مل جاتی ہے۔دوم ہر انگریزی لغت میں لفظ'' کلٹ''کی تعریف منفی معنی میں آئی ہے۔

کیمبرج انگلش ڈکشنری کی رو سے کلٹ سے مراد ایسا مذہبی گروہ ہے جس کے اعتقادات کو بہت سے لوگ انتہاپسندانہ اور عجیب سمجھتے ہوں۔مریم ویبسٹر ڈکشنری کے مطابق کلٹ ایسا مذہب ہے جسے غیر روایتی اور جعلی سمجھا جائے۔گویا بھارتی سپریم کورٹ کے ہندو ججوں نے سکھ مت کو ایک کلٹ قرار دے کر اس کی توہین وتضحیک کر ڈالی۔ایسا دیدہ دانستہ کیا گیا تاکہ سکھ مت کو ہندومت کا ذیلی فرقہ ثابت کیا جا سکے۔

سوم نہنگ یا اکالی وہ سکھ ہیں جو بڑے شدومد سے اپنی مذہبی روایات پر عمل کرتے ہیں۔چونکہ نہنگ مندروں میں آگ نہیں جلاتے نہ پوجا کرتے ہیں، اس لیے سکھ لیڈروں نے ان پہ تہمت لگانے پر ہندو ججوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ججوں نے گویا ثابت کرنے کی کوشش کی کہ نہنگ بھی مندر میں پوجا کرتے ہیں جو بالکل غلط بات ہے۔

بابا نانک کی زندگی کا تو مشن ہی یہی تھا کہ وہ بھٹکے ہوئے بت پرستوں(دور جدید کے ہندوؤں)کو راہ راست پر لائیں تاکہ وہ ایک خدا پہ ایمان لا سکیں۔انھوں نے مسلمانوں کو بھی ہدایت کی کہ وہ سچے مسلمان بن جائیں اور شریعت کے احکام پہ دل وجان سے عمل کریں۔سکھوں کی مذہبی کتاب، گرنتھ صاحب میں گرو نانک کی شاعری موجود ہے جو'' گُربانی''کہلاتی ہے۔اس میں یہ اشلوک درج ہیں:

''مسلمان کہلوانا مشکل ہے...کوئی سچا مسلمان ہو تو وہی کہلائے

اول بات یہ کہ اپنے دین و مذہب سے محبت کرے،دل سے تکبر کا زنگ اتار دے اور تمام دولت (غریبوں پہ)نچھاور کر دے

دین کو اپنی کشتی کا ناخدا بنائے اور مال ودولت کی فکر چھوڑ دے

خدا کی رضا کو سر آنکھوں پر رکھے اور اپنی 'میں' مار ڈالے

تبھی وہ سبھی انسانوں کے لیے خیر کا باعث بنے اور سچا مسلمان کہلوائے گا''

(دارماجھ، اشلوک 1، پوڑی 8)

اسی طرح بابا نانک گربانی میں ایک اور جگہ کہتے ہیںکہ انسان کو آرام وسکون اسی صورت مل سکتا ہے جب وہ اللہ تعالی کے بتائے راستے پر چلے اور دنیا سے زیادہ لو نہ لگائے:

''قیمتی کپڑے پہننے اور اچھا کھانا کھانے کا کیا فائدہ جب دل میں اُس (خدا)کی یاد نہ ہو

میوے، گھی، گرد یعنی میٹھی اشیا، میدہ اور گوشت

شاندار پوشاکیں، آرام دہ سیج اور عیش وعشرت

بڑے بڑے لشکر، وزیروں کا ہجوم، کنیزیں اور خادم...ان سب کا کیا فائدہ

اے نانک!خدا کے سچے نام کے سوا سارا سامان ِدنیا فنا پذیر ہے''

(دارماجھ، اشلوک 2، پوڑی10)

تحریک خالصتان کی بڑھتی مقبولیت

زرعی قوانین کے خلاف احتجاج شروع ہوا تو کئی سکھ لیڈر اپنے مذہب، تہذیب وتمدن اور روایات کا تحفظ کرنے کے لیے بھی سرگرم ہو گئے۔اہم وجہ یہ تھی کہ سوشل میڈیا میں سرگرم قوم پسند ہندو سکھ کسانوں کو ''غدار''، انتہا پسند'' اور بھارت دشمن'' کہنے لگے تھے۔حتی کہ آر ایس ایس کے سربراہ، موہن بھگوت نے بیان دیا:''بھارت ہندوستان ہے ، ہندو راشٹریہ، لہذا سبھی بھارتی ہندو ہیں۔''اس بیان کے جواب میں سکھوں کے اعلی ترین مذہبی راہنما اور اکالی تخت کے جتھے دار، گیانی ہرپریت سنگھ نے مودی سرکار سے مطالبہ کیا کہ آر ایس ایس پر پابندی لگائی کیونکہ وہ اقلیتوں کو زبردستی ہندو بنانا چاہتی ہے۔سکھوں کے اعلی ترین مذہبی رہنما کا یہ بیان بہت اہم ہے۔

یہ واضح کرتا ہے کہ بھارت اور بیرون ممالک مقیم سکھ قوم پرست اور انتہا پسند ہندو تنظیموں سے خوش نہیں۔اسی لیے بھارتی پنجاب کے حالیہ الیکشن میں سکھوں نے بی جے پی سمیت ان تمام پارٹیوں کو نظرانداز کر دیا جو فاشسٹ ہندو تنظیموں سے روابط رکھتی ہیں۔نیز ایک نمایاں تبدیلی یہ آ چکی کہ اندرون و بیرون ملک خالصتان کے حامی سکھوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

پاک فوج پر الزام

بھارت کا برہمن حکمران طبقہ پاکستان خصوصاً پاک فوج پر الزام لگاتا ہے کہ اس کی حمایت وفنڈنگ سے خالصتان تحریک جاری وساری ہے۔مگر بھارت کے اندر وباہر جنم لینے حالیہ واقعات اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ خالصتان تحریک خود سکھ چلا رہے ہیں۔انھیں پاکستان کی اخلاقی حمایت تو حاصل ہے مگر کوئی پاکستانی ادارہ ان کی فنڈنگ نہیں کرتا۔امیر کبیر سکھ ہی اس تحریک کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔اب تو سکھ نوجوان بکثرت اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں۔ سکھوں کی نئی نسل بھارت کے ان اضلاع میں خالصتان مملکت کا قیام چاہتی ہے جہاں سکھ بکثرت آباد ہیں۔

پچھلے دو سال کے دوران امریکا، برطانیہ، کینیڈا، اٹلی، آسٹریلیا اور سوئٹزرلینڈ میں ''خالصتان ریفرنڈم''منعقد ہو چکے جن میں لاکھوں سکھوں نے حصہ لیا اور آزاد مملکت ِخالصتان قائم کرنے کے حق میں ووٹ ڈالے۔ لندن میں سکھ نوجوانوں نے کمال دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی سفارت خانے سے بھارت کا ترنگا اتارا اور اپنی تحریک خالصتان کا جھنڈا لہرا دیا۔22 مئی 2022ء کو امریکی ریاست، کنیکٹیکٹ (Connecticut) کی اسمبلی نے سکھوں کے مطالبہ خالصتان کو حق پر مبنی قرار دے کر نئی تاریخ رقم کر دی۔گویا امریکا میں سرکاری سطح پر بھی سکھوں کے مطالبہ آزادی کو قبول کیا جا رہا ہے۔

بھارت میں اس دوران امریت پل سنگھ کی صورت ایک اور جرنیل سنگھ بھنڈروالا جنم لے چکا۔ تیس سالہ امریت پل ''وارث پنجاب دے ''نامی تنظیم کا قائد ہے جس کی بنیاد 2021ء میں پنجابی فلموں کے اداکار،دیپ سدھو نے رکھی تھی۔مقصد یہ تھا کہ سکھوں کے معاشی، سیاسی، معاشرتی ، تہذیبی و تمدنی مفادات کی حفاظت کی جا سکے۔

پچھلے سال کار حادثے میں دیپ سدھو کی موت کے بعد تنظیم امریت پل سنگھ نے سنبھالی جو تحریک خالصتان کا حامی ہے۔امریت نے اپنی مدلل اور شعلہ بار تقریروں سے لاکھوں سکھ نوجوانوں کو تحریک خالصتان کا حمایتی بنا دیا۔اسی لیے بھارتی اسٹیبلشمنٹ اس کے پیچھے پڑ گئی۔تاحال اسے گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

حالات سے آشکارا ہے کہ بھارتی پنجاب کے جن اضلاع میں سکھ عددی برتری رکھتے ہیں، وہاں خالصتان تحریک بہ سرعت مقبول ہو رہی ہے۔اس کی وجہ آر ایس ایس و بی جے پی کی نفرت انگیز اور اقلیت دشمن پالیسیاں ہیں۔اعدادوشمار کی رو سے ریاست بھارتی پنجاب کے 23 اضلاع میں سے پانچ (پٹھان کوٹ، جالندھر، شہید بھگت سنگھ نگر اور فاضلکا)کو چھوڑ کر بقیہ ضلعوں میں سکھ اکثریت رکھتے ہیں۔

لہذا مستقبل میں وہاں خالصتان مملکت کا قیام ممکن ہے...سکھوں کی آزاد ریاست جس کی تکمیل کا خواب اب لاکھوں سکھ نوجوان دیکھنے لگے ہیں۔یہ وقت ہی بتائے گا کہ ان کاحسین سپنا کب حقیقت کا روپ اختیار کرتا ہے۔اور یہ بھی طے ہے کہ سکھوں کو آگ وخون کا دریا پار کر کے ہی اپنی منزل حاصل ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |