امتحانات کے خوف سے کیسے باہر آیا جائے

امتحانات کو بوجھ نہ سمجھیے بلکہ انھیں ذہنی صحت کےلیے ایک مشق سمجھیے


زین الملوک April 04, 2023
امتحانات تعلیمی نظام کا ایک اہم پہلو ہیں۔ (فوٹو: فائل)

انسانی زندگی کا امتحان اُس وقت سے ہی شروع ہوجاتا ہے جب وہ اس دنیا میں شعور کی آنکھ کھولتا ہے۔ یہ سلسلہ اُس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک وہ اس دنیا میں ہے۔ انسان مختلف امتحانات سے گزرتا ہے جن میں سے ایک تعلیمی امتحان ہے۔ یہ امتحان طلبا کی ذہنی صلاحیت جانچنے کےلیے لیا جاتا ہے اور اِسی بنا پر (پاس ہونے کی صورت میں) وہ اگلے درجے پر پہنچنے کا مجاز ہوتے ہیں۔

معلوم تاریخ کے مطابق، امتحانات کا رواج قدیم چین سے ہے جہاں شاہی عہدے داروں کا انتخاب سخت امتحانات کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ یورپ میں ابتدائی ریکارڈ شدہ امتحانات گیارہویں صدی میں بولوگنا یونیورسٹی (Bologna University) کے زیرِ انتظام لیے جاتے تھے۔ اس کے بعد سے امتحانات تعلیم اور روزگار کے حصول کا ایک عام حصہ بن گئے ہیں جو علم، ہنر اور ذہانت کا اندازہ لگانے کےلیے استعمال ہوتے ہیں۔

امتحان کا تصور کرکے یا یہ لفظ سن کر اکثر طلبا گھبرا جاتے ہیں۔ راقم الحروف کا اپنا بھی یہی حال ہوتا رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں امتحانات کو لے کر طلبا کی ذہنیت پر گہرا منفی اثر ڈالا گیا ہے۔ شاید طلبا کو امتحانات کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں۔ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ 'کیا امتحانات ضروری ہیں'؟ جی ہاں! امتحانات بہت ہی اہم ہیں۔ مگر کیسے؟

امتحانات دنیا بھر کے تعلیمی نظام کا ایک بنیادی پہلو ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد طلبا کی ترقی، تعلیمی صلاحیتوں اور علم کا اندازہ لگانا اور جانچنا ہے۔ امتحانات طلبا کے سیکھنے، سمجھنے اور کورس کے مواد کو برقرار رکھنے کا ایک پیمانہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ طلبا کے علم کا تجزیہ کرنے کا بھی ایک مؤثر طریقہ فراہم کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کا تعین کرنے کےلیے ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ آیا طلبا نے کسی مخصوص کورس یا نصاب کے دوران پڑھائے گئے تصورات کو سمجھ لیا ہے یا سیکھنے کے عمل میں مزید کچھ رکاوٹیں حائل ہیں۔

امتحانات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ طلبا کو مطالعہ اور سیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ امتحانات جواب دہی اور ذمے داری کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ نیز امتحانات ایک طالب علم کی کارکردگی کا ایک معروضی پیمانہ فراہم کرتے ہیں جس سے مختلف تعلیمی اداروں میں جانچ اور تشخیص کے عمل کو معیاری بنانے میں مدد ملتی ہے۔

امتحانات کالج اور یونیورسٹی کے داخلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ زیادہ تر اداروں کےلیے داخلے کے عمل کے حصے کے طور پر SAT، ACT، ECAT، MDCAT، GRE یا GMAT جیسے معیاری ٹیسٹ اسکورز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ امتحانی اسکور دیگر عوامل جیسے کہ تعلیمی اسناد، ہم نصابی سرگرمیوں اور ذاتی بیانات کے ساتھ اعلیٰ تعلیم میں کامیابی کےلیے طالب علم کی صلاحیت کا جائزہ لینے کےلیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

امتحانات میں کامیابی یا ناکامی ایک طالب علم کے مستقبل کے کیریئر کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اکثر ادارے پیشہ ورانہ سرٹیفیکیشنز یا لائسنسنگ امتحانات، کسی مخصوص شعبے میں امیدوار کی قابلیت اور علم کی پیمائش کے طور پر امتحانات کے نتائج کا استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح امتحانات ملازمت کے بعض مواقع اور کیریئر کے راستوں کو محفوظ بنانے میں بھی اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔ نیز امتحانات اسکالرشپ اور مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دروازوں میں سے ایک ہے۔ کیوں کہ اچھے اداروں میں داخلہ اور اسکالرشپ دونوں کا تعلق امتحانات کے نمبرات سے ہے۔

 

اپنے ذہن کو پرسکون کرکے کس طرح امتحانات کی تیاری کرنی چاہیے؟

پہلا نکتہ: امتحانات کی تیاری کےلیے ضروری ہے کہ امتحان کی تاریخ سے بہت پہلے ہی سے اچھی طرح منصوبہ بندی کرکے مطالعہ شروع کیا جائے۔

دوسرا نکتہ: نصابی کتب اور دورانِ تدریس لیے گیے نوٹس کا جائزہ لینا، کوئز اور سوالات کی مشق کرنا، ساتھی طلبا کے ساتھ گروہی مطالعہ اور حسبِ ضرورت اپنے متعلقہ اساتذہ سے رہنمائی طلب کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ ہر گزرتے دن اور تیاری کے مراحل مثبت انداز میں طے کرنے کے بعد اپنے آپ کو سراہیے۔

تیسرا نکتہ: امتحانات کی تیاری پرسکون طریقے سے کرنے کےلیے طلبا کو مطالعے کی صحت مند عادات کو اپنانا چاہیے۔ کچھ طریقے، مثلاً مطالعہ کے مواد کو قابلِ انتظام حصوں میں توڑنا اور پڑھے گئے مواد کو دوبارہ پڑھنے کےلیے حقیقت پسندانہ شیڈول بنانا سودمند ثابت ہوسکتے ہیں۔

چوتھا نکتہ: اس بات کا اطمینان کرلیجیے گا کہ آپ نے جو پڑھا ہے، اسے سمجھ کر پڑھا ہے۔ نیز پڑھے ہوئے مواد کو لکھتے بھی جائیے تاکہ وہ سب آپ کو امتحان کے دن تک یاد بھی رہیں۔

پانچواں نکتہ: تناؤ اور تھکاوٹ کو کم کرنے کےلیے باقاعدگی سے وقفے لینے کے ساتھ ساتھ جسمانی سرگرمی کا مظاہرہ کرنا مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

چھٹا نکتہ: منظم رہنا، کافی آرام کرنا، اور اچھی طرح سے کھانا طلبا کو توجہ برقرار رکھنے اور پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں مدد کرسکتا ہے۔

آخری نکتہ: ان تمام امور کا خیال رکھنے کے بعد امتحان سے متعلقہ تمام ضروری سامان اور امتحان سے نمٹنے کےلیے ایک تازہ دماغ کے ساتھ امتحانی مرکز پہنچنا بھی بہت اہم ہے۔

 

اگر نتیجہ مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں ...

اگر نتیجہ توقعات کے برعکس نکلا ہے تو اس موقع پر بھی پرسکون رہ کر درج ذیل باتوں پر غور کرنا چاہیے۔

طلبا کو گھبرانے سے گریز کرتے ہوئے اپنی کارکردگی کا معروضی جائزہ لینا چاہیے۔

اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے کہ معاملات کہاں غلط ہوئے اور کم زوریوں کو دور کرنے کےلیے مناسب اقدامات کیجیے۔

اساتذہ یا ٹیوٹرز سے مدد لینا، مواد پر نظرثانی کرنا اور ماضی کے امتحانی پرچوں کی مشق کارکردگی کو بہتر بنانے کے مؤثر طریقے ہیں۔

مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ طلبا امتحان میں اوسط کارکردگی دکھانے کے بعد اپنا ذہنی تناؤ اور سماجی دباؤ برداشت کرنے اور آنے والے امتحانات کی مزید بہتر تیاری کرنے کے بجائے انتہائی قدم کا سوچتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کو عمر بھر کا روگ دے جاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ گھر کے بڑے، اساتذہ اور دوست ایسے حساس بچوں کے مسائل کو سمجھیں اور درست سمت کا تعین کرنے میں ان کی رہنمائی کریں۔

اگر کوئی امتحان کے نتائج کی وجہ سے اپنے اہداف حاصل کرنے سے قاصر ہے تو متبادل اختیارات پر غور کرنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر طلبا کالج یا یونیورسٹی میں دوبارہ درخواست دینے سے پہلے اضافی مہارت یا تجربہ حاصل کرنے کےلیے ایک سال کا وقفہ لینے پر غور کرسکتے ہیں۔ وہ مخصوص ہنر یا سرٹیفکیشن حاصل کرنے کےلیے پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے پر بھی غور کرسکتے ہیں۔

طلبا کیریئر کے متبادل راستے تلاش کرسکتے ہیں جن کےلیے کالج کی ڈگری کی ضرورت نہیں یا ایسے روزگار کے مواقع تلاش کرسکتے ہیں جو رسمی تعلیم سے زیادہ مہارتوں اور تجربے کو اہمیت دیتے ہیں۔

 

کیا امتحانات کے منفی پہلو بھی ہوسکتے ہیں؟

ہرگز نہیں، بلکہ طلبا مسابقت میں دباؤ کی وجہ سے کچھ مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے کارکردگی خراب ہوسکتی ہے۔ مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ امتحانات کے دباؤ میں آکر کچھ طلبا اپنے روزمرہ کے معاملات، جیسے کھانا، پینا اور سونا وغیرہ کو نظر انداز کردیتے ہیں جس سے نہ صرف اُن کی صحت خراب ہوتی ہے بلکہ امتحان والے دن اپنی صلاحیت کے برعکس کارکردگی دکھاتے ہیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ امتحانات کوئی منفی اثر ڈالتے ہیں بلکہ طلبا اپنے اوپر اس طرح کا دباؤ ڈال کر خود یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ امتحانات اُن کے اوپر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔

امتحانات تعلیمی نظام کا ایک اہم پہلو ہیں، جو تعلیمی قابلیت کا ایک معروضی پیمانہ فراہم کرتے ہیں اور تعلیمی ترقی میں سہولت فراہم کرتے ہیں۔ امتحانات کو بوجھ نہ سمجھیے بلکہ انھیں ذہنی صحت کےلیے ایک مشق سمجھیے تاکہ یک سُو ہوکر کمرۂ امتحان میں جایا جائے اور جب وہاں سے اُٹھیں تو یہ امید رکھیے کہ جو آپ نے پیچھے محنت کی ہے اس کا صلہ ضرور ملے گا۔ چونکہ امتحانات کالج کے داخلوں اور مستقبل کے کیریئر کے مواقع کو متاثر کرسکتے ہیں، لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ وہ طالب علم کی صلاحیت کا صرف ایک پیمانہ ہیں۔ ایسے معاملات میں جہاں امتحان کے نتائج کسی کو اپنے اہداف کو حاصل کرنے سے روکتے ہیں، متبادل اختیارات جیسے کہ سال کا وقفہ لینا یا کیریئر کے متبادل راستے تلاش کرنے پر غور کیا جانا چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں