مجلس ترقی ادب خوب سے خوب تر کی جستجو
علمی، ادبی اور تحقیقی کتب کے طلبہ ایڈیشن ارزاں نرخوں پر شایع کرنے کی اسکیم بھی تیار ہو چکی ہے
وقت اور حیات ہر لمحہ رواں دواں ہیں اور یہی حال اجتماعی دائرے میں اداروں کا ہے۔ ان کے وجود اور بقا کا دارومدار بھی ہر دم رواں رہنے اورہر لحظہ متغیر زمانہ سے ہم آہنگ ہونے پر ہے۔ جمود انفرادی اوراجتماعی دونوں سطحوں پر پیغام ِموت ہے۔
زندگی کو انفرادی اور اجتماعی طور پر قوت اور ثبات تب ہی میسر آتے ہیں، جب وہ ایک ہی مقام پر ٹھیر کے نہیں رہ جاتی، بلکہ خوب سے خوب تر کی جستجو میں ہر آن اپنے لیے نت نئے اہداف مقرر کرتی اور ان کے حصول کے لیے پیہم کوشاں رہتی ہے۔
6دسمبر 2022ء کو جب مجھے مجلس ترقی ادب کا سربراہ مقررکیا گیا، تو میرے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ کس طرح اس ادارہ کو اس کی شاندار روایات سے منقطع کیے بغیر جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ روایت اور جدیدیت کے متضاد اور بظاہر متحارب عناصر میں ہم آہنگی پیدا کرکے ہی ہم تخلیقی سطح پراس جمود سے نجات حاصل کر سکتے ہیں، جس میں ہم آج اس بُری طرح گرفتار ہیں کہ بقول عبداللہ حسین '' اداس نسلیں '' بن چکے ہیں۔ اس تناظر میں، میں نے جو اپنے لیے جو اہداف مقرر کیے، اس کی کچھ تفصیلات نذر قارئیں ہیں ۔
1947ء کے بعد علم و ادب خصوصاً ناول، افسانہ، شاعری اور تنقید کے شعبوں میں ہمارے ملک میں بہت کام ہوا ہے، کچھ کام تو کلاسیک کا رتبہ حاصل کر چکا ہے۔
اس نیوکلاسیکی ادب کی ترتیب و تدوین اور اشاعت میں ، مگر مجلس نے کبھی زیادہ دلچسپی نہیں لی، جس کی وجوہات کا بیان یہاں مناسب نہیں۔ ماہرین ِ علم وادب سے مشاورت کے بعد یہ طے ہوا کہ اس نیوکلاسیکی ادب کو بھی شایع کیا جائے گا۔
علاقائی ادب کو بھی زیادہ اہم نہیں سمجھا گیا ، حالانکہ قومی سطح پر ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اس کی جو اہمیت تھی ، وہ محتاج بیان نہیں۔ اس پر بھی فوری طور پر ایک کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ ہوا، جو منتخب علاقائی ادب کی ترجیحی بنیادوں پر اشاعت کے لیے سفارشات مرتب کرے گی۔
ستم یہ ہے کہ اس مجلس کا دائرہ کار پورے صوبہ پر محیط ہے، جب کہ اس کی سرگرمیاں لاہور تک محدود ہو چکی ہیں۔ پنجاب کے چھوٹے شہروں اور قصبوںکے اہل علم و ادب کو کبھی اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ ان کے تخلیقی تجربوں سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
اس احساس ِ محرومی کے خاتمہ کے لیے ملتان،گجرات اور راولپنڈی میں مجلس کے مقامی مراکز قائم کرنے کی تجویز سامنے آئی ، جو حکومت کو پیش کی جا چکی ہے۔
یہ بھی طے ہوا کہ علاقائی علمی ادبی سرمایہ کو محفوظ کرنے کا بندوبست بھی کریں گے۔ سالانہ ادبی ایوارڈ کومزید پروقار بنانے کے لیے نعت کا ایوارڈ حفیظ تائبؔ، نظم کا جوشؔ ملیح آبادی، غزل کا ناصرؔ کاظمی، افسانہ کا غلام عباس، ناول کا عبداللہ حسین، ڈرامہ کا رفیع پیرزادہ، ترجمہ کا شاہد حمید اور تنقید کا ایوارڈ محمد حسن عسکری جیسے معتبر ناموں سے منسوب کیا گیا۔
یہ بھی طے ہوا کہ ان ایوارڈز میں شفافیت کو ہر سطح پر یقینی بنائیں گے اور ادبی جتھہ بندیوں کو اثر انداز نہیں ہونے دیں گے ۔
علمی، ادبی اور تحقیقی کتب کے طلبہ ایڈیشن ارزاں نرخوں پر شایع کرنے کی اسکیم بھی تیار ہو چکی ہے۔ پھر طلبہ کے لیے لٹریری ورکشاپس اور انٹرشپ پروگرامز ہیں ، جن میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ، نامور اہل قلم، شعراء اور نقاد لیکچر دیں گے۔
طلبہ کو مجلس ترقی ادب کی طرف سے خصوصی اسناد اور انٹرشپ سرٹیفکیٹس جاری ہوں گے۔ یہ بھی طے ہوا کہ ہر سال ایک ادبی کانفرنس منعقد کی جائے گی، جس میں ملک بھر سے ماہرین علم وادب شریک ہوں گے۔ کانفرنس میں علم و ادب کی ترقی و فروغ کے لیے اہل پنجاب کی خدمات پرخاص طور پر روشنی ڈالی جائے گی ۔
کانفرنس میں مجلس کے زیراہتمام کتاب میلہ لگایا جائے گا، جس میںتمام کتب پرپچاس فیصد رعایت ہوگی،اسی کانفرنس کے اختتام پر سالانہ مشاعرہ ہو ا کرے گا ۔
تقریباً ہر پبلشنگ ہاؤس کے پاس کمپوزنگ اور ڈیزاننگ کا جدید ترین سیٹ اپ موجود ہے، لیکن مجلس کی بدقسمتی دیکھیے کہ تمام تر وسائل کے باوصف اس کا انحصار پرائیویٹ کمپوزنگ سینٹرز پر تھا۔ اس صورتحال کے خاتمے کے لیے نئی بلڈنگ میں کمپوزنگ اور ڈیزائنگ سیکشن قائم کیا گیا ہے ۔
چنانچہ اب مجلس کی کتب کی کمپوزنگ اور ڈیزاننگ مجلس بلڈنگ کے اندر ہی ہو گی ۔ مجلس کی نئی کتب کے اسٹاک اور اس کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے موجودہ بلڈنگ کے پہلو میں ایک ملٹی اسٹوری ویئر ہاوس کی تعمیر کی میری تجویز بھی منظور ہو چکی ہے۔
اس ویئرہاؤس کی تعمیر کے بعد نہ صرف مجلس کو اس مقصد کے لیے کرایہ کی بلڈنگوں کے عذاب سے نجات مل جائے گی، بلکہ وقت اور پیسہ کی بچت بھی ہو گی۔