پاکستانی سیاست کا حسن

عمران خان سے پہلے ریاستی اداروں پر ڈھکے چھپے الفاظ میں تنقید کی جاتی تھی


ہمارے لیڈر اب بھی نہ سمجھے تو کبھی نہیں سمجھیں گے. (فوٹو: فائل)

کلاس میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی، سب ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے استاد جی کی بات سمجھنے کی کوشش کررہے تھے۔ استاد شاید لڑکوں کی کیفیت بھانپ چکے تھے، اس لیے ان کی آواز پھر گونجی۔ ''جی ہاں نومی ہماری کلاس کا حسن ہے''۔ اب کی بار اکثریت کی سوالیہ نظریں استاد کی جانب اٹھیں تو وہ بولے۔ ''اگر نومی اور اس جیسے چند نالائق لڑکے ہماری کلاس میں نہ ہوں تو ہمیں کلاس کے لائق لڑکوں کی قدر کیسے ہو۔'' دھیمی ہنسی کے ساتھ کچھ نے سمجھتے ہوئے اور کچھ نے نہ سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلادیے۔

استاد جی کی بات شاید کبھی سمجھ میں نہ آتی اگر عمرانی سیاست کا مشاہدہ نہ ہوتا۔ عمران خان کے طرز سیاست نے وطن عزیز کے سیاستدانوں کی قدر کروادی۔ خان صاحب سے پہلے توشہ خانہ سے تحائف، گھڑیاں، گاڑیاں، کف لنک کوڑیوں کے بھاؤ لینے والے سیاستدان ہی برے تھے، لیکن عمران خان نے ریاست مدینہ کا معمار ہوتے ہوئے نہ صرف یہ کہ توشہ خانہ سے تحائف لیے بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر انھیں بیچ بھی ڈالا۔ (شاید اپنے اخراجات پورے کرنے کےلیے، کیونکہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ وزیراعظم کی تنخواہ میں ان کا گزارا نہیں ہوتا)۔ اور پھر بلاول بھٹو کی طرح (کانپیں ٹانگ رہی ہیں، غلطی ماننے کے بجائے اس پر ڈٹ گئے کہ یہ ٹانگیں کانپنے سے اگلی اسٹیج ہے) اس پر ڈٹ گئے کہ میری گھڑی میری مرضی، بیچوں یا رکھوں۔ حالانکہ ہمارے اکابرین تو دور کی بات اسی ملک میں منور حسن کی مثال موجود ہے جنہوں نے بیٹی کو شادی پر ملنے والے تحائف بھی جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کروادیے کہ تحائف منور حسن کو نہیں بلکہ امیر جماعت اسلامی کو ملے ہیں۔

خیر تو بات ہورہی ہے سیاست کے حسن کی، عمران خان سے پہلے اگر کسی سیاست دان کو گرفتار کیا جاتا تھا تو ازخود، یا معمولی مزاحمت کے بعد حکومت وقت کو برا بھلا کہتے ہوئے گرفتاری دے دیتا تھا۔ عوام اسے برا بھلا کہتے کہ چوری اور سینہ زوری، پھر کچھ عرصے کے بعد وہ اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ضمانت پر رہا ہوتا اور وکٹری کا نشان بناتا ہوا باہر آجاتا۔ عوام اسے پھر برا کہتے کہ مجرم وکٹری کا نشان بنارہے ہیں۔

لیکن خان صاحب نے ایک نئی روایت متعارف کروادی کہ پولیس گرفتار کرنے آئے تو چاہنے والوں کو گھر کے باہر اکھٹے کرلو۔ پولیس پر یہ سوچے سمجھے بغیر تشدد کرو کہ یہ بھی کسی کے بچے ہیں، ان کے بھی بچے ہیں، ان کا بھی گھر پر انتظار ہورہا ہے، ریاستی اہلکاروں کو شہید کرو، دھرتی کی جگ ہنسائی کرواؤ اور پھر یہ کہتے ہوئے عدالت جانے کا اعلان کردو کہ میں تو یہ سمجھا تھا کہ میں ضمانت پر ہوں (آفرین ہے آپ کی سمجھ پر)۔ عدالت میں لشکر کے ساتھ ریاستی املاک تباہ کرتے ہوئے حاضر ہوکر 130 ویں نمبر پر آنے والے عدالتی نظام سے تیز ترین انصاف حاصل کرو۔ اس تمام تر مشق نے سنجیدہ حلقوں میں دیگر سیاستدانوں کا قد کاٹھ بڑھا دیا کہ وہ کم ازکم بغیر خون خرابہ کیے گرفتار ہوجاتے تھے۔

عمران خان سے پہلے ریاستی اداروں پر ڈھکے چھپے الفاظ میں تنقید کی جاتی تھی، پھر بھی تنقید کرنے والے برے سمجھے جاتے تھے، خان نے تمام حدود کراس کرتے براراست سابق آرمی چیف کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ شاید ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک آرمی چیف کو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے بارے میں وضاحتیں جاری کرنا پڑرہی ہیں۔ آج خان صاحب کی بدولت سیاستدانوں کی اکثریت مزے کررہی ہے۔ افواج پاکستان کے دشمن یقینی طور پر خوشیاں منارہے ہوں گے، جس فوج پر تنقید کرنے کےلیے، برا بھلا کہنے کےلیے انھیں رقوم خرچ کرنا پڑتی تھیں، آج وہ کام مفت میں ہورہا ہے۔

بلاشبہ خان صاحب محسن سیاستدان بھی ہیں۔ خان صاحب نے قومی اسمبلی سے استعفے دیے، مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ پھر یہ بیچارے استعفے واپس لینے کےلیے بھاگتے پھرے لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس جگ ہنسائی کے بعد مستقبل میں کوئی سیاستدان، کوئی سیاسی پارٹی ایسی حماقت کرنے کی کوشش نہیں کرے گی۔

خان صاحب نے حکومت کو الیکشن پر مجبور کرنے کےلیے سمجھانے کے باوجود اپنی دو صوبائی حکومتوں کی قربانی دی، مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس سے بھی یقینی طور سیکھنے والوں نے یہ سیکھا ہوگا کہ اس طرح کی بھاری بھرکم قربانیوں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا، یعنی سہاگن وہی جسے پیا چاہے۔

بہرحال پلوں کے نیچے بہت پانی بہہ چکا۔ وطن عزیز کی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم نہیں یا تم نہیں کی باتیں چھوڑ کر، نت نئے تجربات چھوڑ کر، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں چھوڑ کر، مل جل کر مہنگائی کو شکست دی جائے۔ آٹے کی لائنوں میں لگ کر مرتے لوگوں کو بچایا جائے۔ مہنگائی کے ہاتھوں خود اور اپنے بچوں کو مارتے پاکستانیوں کو باعزت روزگار دے کر روکا جائے۔

وقت آگیا ہے کہ ہمارے لیڈر سمجھ جائیں۔ اب بھی نہ سمجھے تو کبھی نہیں سمجھیں گے کیونکہ زرمبادلہ کے ذخائر چار ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے ہمیں صرف کپاس کےلیے چار اعشاریہ ایک ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف، تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود، عوام پر مہنگائی کے بم گرانے کے باوجود ہمیں قرضہ دینے کو تیار نہیں۔ اگر اب بھی ہمارے لیڈر نہ سمجھے تو پھر وہ وقت دور نہیں جب پروٹوکول سے لطف اندوز ہونے والے، ہمارے لیڈر اشاروں پر کھڑے ملیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں