رمضان المبارک کیسے گزاریں

ماہِ مقدس کو رب کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنائیے


رحمتوں، برکتوں، سعادتوں کا مہینہ سایہ فگن ہونے کو ہے۔ (فوٹو: فائل)

رحمتوں، برکتوں، سعادتوں کا مہینہ سایہ فگن ہونے کو ہے۔ مساجد کے ساتھ افطار کے خیمے لگ چکے ہیں، بڑی مارکیٹس اشیائے خورونوش پر خصوصی آفر دے رہی ہیں، مالز اور مارکیٹس کے نمائندے آئے روز کھانے پینے کی اشیا پر خصوصی رعایت کے اطلاعی ضمیمے بانٹتے نظر آرہے ہیں۔

بعض جگہوں پر تو شعبان یعنی رمضان سے ایک ماہ پہلے ہی کھانے پینے سے لے کر پہننے اوڑھنے کی تمام ضروری اشیا پر مارکیٹوں میں قیمتوں میں کمی کردی گئی ہے، تاکہ لوگ پہلے ہی خریداری کرلیں۔ ہر کسی کی کوشش ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جائے تاکہ خلق خدا، ماہ مقدس میں بھرپور طریقے سے فکر معاش سے بالاتر ہوکر عبادت کرسکے۔ لیکن یہ ذکر ہورہا ہے دنیا بھر کا، نہ کہ پاکستان کا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حالت کچھ یوں ہوتی ہے۔

 

تاجر حضرات

ہمارے (اکثر) تاجر حضرات ماہ مقدس کے دن رات اس بھاگ دوڑ میں خرچ کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جاسکے۔ تاجران کے ہاں رمضان المبارک نیکیوں کے سیزن کے بجائے کاروباری سیزن کہلاتا ہے۔ سال بھر کا رکا ہوا اسٹاک اس ماہ مقدس میں فروخت کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے، خاص طور پر دال چنا کا ملاوٹی بیسن، غیر معیاری سرخ مرچ، میدہ، غیری معیاری کھانے کا تیل، کھجور، جانوروں کے کھانے کے قابل آٹا اور دیگر ضروری اشیا فروخت کرکے بھرپور انداز میں منافع کمانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

 

حکومت

ماہ مقدس میں حکومت عوام کےلیے بھاری بھرکم پیکیجز کا اعلان کرتی ہے مگر اس ماہ میں حکومتی نااہلی ہر طرف نظر آتی ہے۔ کیونکہ ایک طرف حکومت سستے بازاروں کے ذریعے عوام کو ریلیف دینے کا اعلان کرتی ہے، دوسری طرف تاجر قیمتیں دگنی کردیتے ہیں۔ اعلیٰ حکام دورے کرتے ہیں تو انہیں مصنوعی بازاروں کا دورہ کروا دیا جاتا ہے، یا پھر حقیقی بازاروں میں مصنوعی بندے کھڑے کرکے کام چلا لیا جاتا ہے۔

 

عوامی رویہ

دیگر شعبہ جات کی طرح ہمارے ہاں عوام کا رویہ بھی افسوس ناک ہوتا ہے۔ ہمارے حقیقی اور مصنوعی ضرورت مندوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سال بھر کا راشن سستے بازاروں، اہل خیر کی جانب سے قائم کیے گئے مفت راشن کے مراکز سے جمع کرلیا جائے۔ ان کی اس کوشش میں اہل خیر بھی بھرپور انداز میں کچھ اس طرح شمولیت کرتے ہیں کہ وہ صدقہ و خیرات، زکوٰۃ تقسیم کرنے کےلیے قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کرنے کے بجائے، مال خرچ کرنے کےلیے آسان راستے ڈھونڈتے ہیں۔ مفت افطار، مفت راشن سینٹرز کے ذریعے، صدقہ و خیرات، زکوٰۃ تقسیم کردیا جاتا ہے۔ اس طرح بلاشبہ مال تقسیم ہوجاتا ہے، مگر اکثر و بیشتر حقیقی ضرورتمند محروم رہ جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق اللہ کی راہ میں خرچ کرتے وقت سب سے پہلے والدین پر خرچ کیا جائے، پھر رشتے دار، پھر بھی مال ہو تو یتیموں اور مسکینوں پر خرچ کیا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ اپنے قریب موجود والدین، یا سفید پوش رشتے داروں کو چھوڑ کر دور دراز یتیموں اور مسکینوں کو ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں، حالانکہ ان کا نمبر سب سے آخر میں ہے۔

 

تو پھر رمضان کیسے گزاریں؟

تاجر حضرات ماہ مقدس کو منافع سیزن کے بجائے، رب کی رضا کے سیزن کے طور پر منائیں اور اعلان کریں کہ ہم اس ماہ کے دوران منافع نہیں کمائیں گے۔

حکومت اعلان کردے کہ اس ایک ماہ کے دوران، قانون پر ہر حال میں سختی سے عملدرآمد کروایا جائے گا اور ذخیرہ اندزوں، منافع خوروں کے خلاف سختی سے کارروئی عمل میں لائی جائے۔

اہل خیر صدقہ، خیرات، زکوٰۃ تقسیم کرتے وقت اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ضرورتمندوں تک پہنچ جائے۔ عام طور پر یہ ضرورتمند ہمارے آس پاس ہی سفید پوشوں کی شکل میں موجود ہوتے ہیں، لیکن ہم اپنے رویوں کی وجہ سے ان سے دور ہوتے ہیں۔

ماہ مقدس میں اگر عوام سادگی، کفایت شعاری اپنا لیں۔ سحرو افطار بھاری بھرکم ہونا چاہیے اس بات کو ذہن سے نکال دیں۔ سموسے، پکوڑے، بریانی کے بغیر افطاری، اور ہلکی پھلکی سحری پر اکتفا کرلیا جائے۔ اس بات کو ذہن نشین کرلیا جائے کہ یہ مہینہ بھرپور عبادت کا ہے نہ کہ بھرپور کھانے کا۔ یہ مشقت کا مہینہ ہے نہ کہ بھرپور آرام کا۔ یہ مہینہ روزوں کو جھوٹ، غیبت، چغلی، دھوکا دہی سے بچانے کا ہے نہ کہ افطار پارٹیاں سجانے کا۔ تو ماہ مقدس ہمارے لیے سہولتیں، رحمتیں، سعادتیں، برکتیں لے کر آئے گا۔ وگرنہ رمضان سے پہلے اس بات کی ٹینشن ہوگی کہ رمضان کیسے گزرے گا اور رمضان کے دوران کا وقت یہ سوچتے اور تدبیریں کرتے گزر جائے گا کہ عید کیسے گزرے گی۔ آئیے عہد کریں اس مبارک ماہ کو اپنے لیے، دوسروں کے لیے آسانیاں بانٹتے گزاریں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔