سیاسی عدم استحکام ملکی مفاد میں سیاسی قیادت بات چیت سے مسائل حل کرے

سیاسی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال


سیاسی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : فائل

ملک کو اس وقت سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سیاسی عدم استحکام سرفہرست ہے۔

جسے مدنظر رکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''ملک میں سیاسی عدم استحکام اور اس کا حل'' کے موضوع پر ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ

(سینئر تجزیہ نگار)

ملک کو سیاسی عدم استحکام، معاشی ابتری سمیت بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان میں جو سیاسی عمل شروع ہوا اس کے نتیجے میں 1973ء کا آئین اتفاق رائے سے بنایا گیا، اس آئین کو نافذ ہوئے 50 برس ہو گئے ہیں۔ان برسوں کا جائزہ لیں توملک میں زیادہ تر سیاسی عدم استحکام نظر آتا ہے۔

ماضی میں عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے ملک دولخت ہوگیا اور مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوگیا۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی صورت میں ایک ایسی سیاسی جماعت وجود میں آئی جو عوام سے نکلی اور اس کی جڑیں بھی عوام میں مضبوط تھیں۔

اس جماعت نے عوام میں شعور پیدا کیا مگر خود اس میں جمہوریت نہ ہونے کے برابر تھی ، اس کی قیادت نے جمہوری عمل کے بجائے ایسے حربے استعمال کیے جن کا مقصد اقتدار کو دوام دینا تھا۔

ہمارے ہاں پاور پالیٹکس ہے۔ سیاستدان ہر جائز اور ناجائز طریقے سے ا قتدار حاصل کرنے کی جستجو میں رہے۔ ہمارے ہاں شروع دن سے ہی اسٹیبلشمنٹ طاقتور رہی ہے، بیشتر سیاستدان اس کی ہی پیداوار ہیں۔

قیام پاکستان ، قائداعظمؒ کی رحلت اور لیاقت علی خان کے قتل کے بعد، پہلے سول بیوروکریسی ملک کے اقتدار پر قابض رہی اورپھر فوجی آمر۔ اسٹیبلشمنٹ بالواسطہ اور بلاواسطہ سیاست پر غالب رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاںقدرتی طریقے سے سیاسی عمل نہیں چل سکا بلکہ جو قیادت آئی اس میں سرمایہ دار، وڈیرے، صنعتکار و اشرافیہ تھی جو ہم پر مسلط کر دی گئی۔

اس طرح ہمارے ہاں ایک مراعات یافتہ طبقہ پیدا ہوگیا جس نے ملک میں اصلاحات کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اس سیاسی پختگی کا ثبوت دیا جس کے نتیجے میں سیاسی عمل صحیح معنوں میں آگے بڑھتا،سیاسی استحکام آتا اور ہماری معیشت مضبوط ہوتی۔ افسوس ہے کہ 1970ء کے انتخابات کے علاوہ کوئی بھی الیکشن شفاف نہیں ہوا، جس کو چاہا گیا اقتدار میں لایا گیا اور جب چاہا نکال دیا گیا۔ دوسری طرف ہمارے معاشی حالات بھی ابتری کا شکار رہے۔ ہم قرضوںا ور امداد پر انحصار کرتے رہے۔ جس ملک سے امداد ملی، اس نے اپنے مفاد کیلئے استعمال کیا۔

امریکا نے ہمیں افغان جنگ اور دہشت گردی کی جنگ میں امداد دی، اپنا مفاد لیا اور جب تک مفاد رہا ہماری مدد کرتا رہا جس سے ہمارے ملک کا نظام چلتا رہا۔ ہم نے 1958ء میں پہلی مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لیا اور اب تک 23 مرتبہ اس سے قرض لے چکے ہیں۔

دنیا کے بہت سارے ممالک نے مشکل معاشی حالات میں آئی ایم ایف سے قرضے لیے لیکن بعدازاں وہ خود انحصاری کی پالیسی پر چلے، اپنے نظام میں بنیادی تبدیلیاں کی، ٹیکس نیٹ بڑھایا، مراعات ختم کی، سادگی اختیار کی، غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کیا اور ملکی معیشت کو ایک مثبت سمت دی لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا، ہماری اشرافیہ تو اقتدار میں آتی ہی مراعات کیلئے ہے۔ ہم نے معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنلائز کر کے ادارے تباہ کیے، سیاسی بھرتیاں کی جن سے نظام کا بیڑہ غرق ہوگیا۔

دوسری طرف امیر طبقہ آج بھی ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہے۔ ہماری معاشی حالت یہ ہوچکی ہے کہ ایک ارب ڈالر کیلئے آئی ایم ایف کی سخت شرائط تسلیم کر رہے ہیں اور ابھی اس رقم کے ملنے کے امکانات بھی انتہائی کم ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ بین الاقوامی تعلقات میں دوستی سے زیادہ مفادات اہم ہوتے ہیں۔

ہماری حکومتوں کی ساکھ اس حد تک گر گئی ہے کہ اب دوست ممالک بھی امداد دینے سے ہچکچا رہے ہیں کہ پہلے آئی ایم ایف سے کلیئرنس لیں، پھرہم بھی مدد کریں گے۔ ان مشکل حالات کے بعد بھی ہم اپنا طرز زندگی اور طرز حکومت بدلنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی حکومتیں تبدیل ہوتی رہی جس کی وجہ شخصیات کا آپس میں ٹکراؤ تھا ،اس کا نقصان ملک کو ہوا۔ اب بھی کہا جا رہا ہے کہ شخصیات کے ٹکراؤ کی وجہ سے حکومت تبدیل کی گئی اور موجودہ حکومت بنائی گئی۔

افسوس ہے کہ سیاستدانوں کو ملک کی فکر نہیں ہے، سب اپنی اناء کی تسکین کیلئے کام کر رہے ہیں۔ سیاسی قیادت کو مسائل کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے بات چیت سے معاملات طے کرنا ہونگے۔ موجودہ کرائسس کا اثر معیشت پر ہو رہا ہے۔ معاشی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ فوری طور پر عام انتخابات کروائے جائیں۔

صاف اور شفاف انتخابات کے ذریعے نئی حکومت کو اقتدار دیا جائے تاکہ وہ لانگ ٹرم پالیسیاں بنا کر ملک کو درست سمت پر گامزن کرے۔ نئی حکومت کو ملک میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہونگی، سرمایہ داروں کا اعتماد بحال کرنا ہوگا،ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا ہونگے تاکہ ملک کو ٹریک پر واپس لایا جاسکے۔اس وقت دو صوبوں میں اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں، کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ کرائسس سے کیسے نکلنا ہے۔ الیکشن کروانا آئینی تقاضہ ہے مگر وہ پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

حکومت کو معلوم ہے کہ وہ الیکشن نہیں جیت سکتی،ا س کی پالیسیوں پر عوام غصہ ہیں۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو ملکی معیشت اتنے برے طریقے سے متاثر ہوگی کہ عوام کی بے چینی کسی بڑے کرائسس کی شکل اختیار کر سکتی ہے، جو ملکی بقاء کیلئے بڑا چیلنج ہوگا۔

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

(سیاسی تجزیہ نگار)

پاکستان کیلئے سیاسی عدم استحکام کوئی نئی بات نہیں ،یہ کیوں ہوتا ہے ا س پر غور کرنا چاہیے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا تعلق براہ راست سیاسی جماعتوں، ان کی باہمی چپقلش یا کھینچا تانی سے نہیں ہے۔

اس کا تعلق ان اداروں سے ہے جو ریاست کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، پاور پالیٹکس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔پاکستان کی تاریخ میں فوج اور عدلیہ کا ایک ایسا کردار رہا ہے کہ دونوں ادارے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون سے جمہوریت کو کمزور کرتے رہے ہیں اور ملک عدم استحکام سے دو چار رہا۔

امریکا، بھارت، جاپان و دیگر ممالک میں بھی سیاسی جماعتوں میں کھینچا تانی ہوتی ہے،سیاسی مسائل وہاں بھی ہیں مگر معاملات آگے بڑھتے رہتے ہیں کیونکہ وہاں ریاستی ادارے اپنا کام جاری رکھتے ہیں، لوگوں کو ان پر اعتماد ہوتا ہے اور ریاستی کاموں میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا۔

وہ ریاستی ادارے جن کا سیاست سے تعلق نہیں ہوتاوہ اپنی گنجائش پیدا کرنے کیلئے ایسے کام کرتے ہیں جن سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ماضی میں پراپیگنڈہ کی جنگیں ہوئی، کسی کو اچھا کہا گیا، کسی کو برا کہا گیا۔فوج نے براہ راست اقتدار سنبھالا، عدلیہ نے اس اقدام کو جائز قرار دیا اور معاملات چلتے رہے۔ ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے لیڈر سامنے آئے ۔

جب کوئی لیڈر خود کو عوام میں منوا لیتا ہے تو پھر ایک اور قیادت سامنے لائی جاتی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب کوئی سیاسی لیڈر مقبول ہو جائے تو اسٹیبلشمنٹ کیلئے جگہ کم ہوجاتی ہے، ایسا لیڈر فائدے میں ہوتا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کو استعمال کرے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور پھر عمران خان سامنے آئے۔ جو اقتدار میں آتا ہے وہ پہلے والے کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے اور پھر مزید سیاسی عدم استحکام پیدا ہوجاتا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مداخلت سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے، ہم بار بار نقطہ آغاز پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف سیاسی جماعتوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ مسائل کا حل مل بیٹھنے میں ہے۔ میثاق جمہوریت اگرچہ بہت زیادہ مضبوط نہیں تھا مگر ایک اچھا معاہدہ تھا جس سے جمہوریت کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

سیاستدان آئین کے مطابق معاہدہ کریں، بروقت، شفاف انتخابات یقینی بنائیں، اس کے نتائج کو تسلیم کریں اور آگے بڑھیں۔ اگر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں بشمول پاکستان تحریک انصاف ، معیشت، فارن پالیسی اوراندرونی معاملات کے حوالے سے مل بیٹھ کر کام کرلیں تو سیاسی عدم استحکام کی راہ ہموار ہوجائے گی۔

ڈاکٹر زمرد اعوان

(اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ سیاسیات ایف سی کالج یونیورسٹی)

ملک کی سیاسی و اقتصادی حالت اور آئین کی پاسداری ، آپس میں جڑے ہیں۔ہم اس وقت سنگین سیاسی و معاشی بحران کا شکار ہیں۔ پٹرول و ڈیزل کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کی وجہ سے ہر چیز مہنگی ہوگئی اور لوگ خودکشی پر مجبور ہوچکے ہیں ۔

حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کیلئے کوشش کر رہی ہے جو 1.1 ارب امریکی ڈالر کے لیے ہے ، ہم کب تک آئی ایم ایف پر انحصار کرتے رہیں گے۔اگر ہم قرض اتارنے کیلئے آئی ایم ایف سے امداد لے بھی لیتے ہیں تو واپس کیسے کریں گے؟ ہماری پروڈکشن بند ہے۔ حالت یہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم، چاول و دیگر اجناس امپورٹ کر رہے ہیں۔ ڈالر 280 روپے کے قریب ہے ، روپیہ زمین بوس ہوگیا ہے جو الارمنگ ہے۔

اقتصادی حالات کا براہ راست اثر سیاسی حالات پر ہوتا ہے۔ یہ باتیں ہو رہی ہیں اس وقت تحریک انصاف کی مقبولیت زیادہ ہے۔ میرے نزدیک اگر پی ڈی ایم کی معاشی پالیسیوں سے مہنگائی کا طوفان نہ آتا اور لوگوں کی زندگی اجیرن نہ ہوتی تو تحریک انصاف کو عوام میں اتنی مقبولیت نہ ملتی۔ حکومت نے حال ہی میں زمان پارک میں عمران خان کی گرفتاری کیلئے جو آپریشن کیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔

عمران خان کو جوڈیشل پروٹیکشن حاصل تھی،انہوں نے 18 مارچ کو عدالت میں پیش ہونا تھا مگر 14 مارچ کو ان کی گرفتاری کیلئے ایسے آپریشن کیا گیا جیسے وہ دہشت گرد ہوں۔ عالمی میڈیا نے سب کچھ لائیو دکھایا ، سوشل میڈیا پر بھی لوگوں نے ہر طرح کی انفارمیشن شیئر کی۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اگر کوئی مقبول لیڈر ہے تو وہ عمران خان ہیںجو عوام کے دلوں پر راج کر رہے ہیں، ان کی جماعت مقبول ترین ہے لہٰذا انہیں دیوار سے نہیں لگایا جاسکتا۔ شہباز گل و دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری اور ٹارچر کو دنیا نے بھی دیکھا، ایسے معاملات سے سیاسی حالات کشیدہ ہو رہے ہیں۔

عمران خان کے خلاف 82 کیسز درج ہوئے، یہ کیسا مذاق ہے؟ ان میں بہت سارے ایسے کیسز ہیں جن کے دائر کرنے والوں کا معلوم ہی نہیں ، عمران خان کہتے ہیں کہ ایک جیسے کیسز کو اکٹھا کر لیں اور ایک ساتھ سماعت کریں، ان پر حملہ ہو چکا ہے، ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔

ایک جماعت کے خلاف 14 جماعتیں متحد ہوگئیں جو پی ڈی ایم کی صورت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ اس طرح تو معاشرے میں انتشار کو ہوا دی جا رہی ہے جو نقصاندہ ہوگا۔ اس وقت ہمیں آئینی بحران کا بھی سامنا ہے۔ آئین کے مطابق 90 روز میں انتخابات کروانا ہوتے ہیں۔

'پی ڈی ایم 'الیکشن سے بھاگنے کی پوری تیاری کر رہی ہے ۔ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی یہ جانتی ہے کہ تحریک انصاف مقبولیت کے عروج پر ہے ، وہ اس سے جیت نہیں سکتے۔ ان کے نزدیک واحد حل انتشار کی صورتحال پیدا کرکے الیکشن ملتوی کروانا ہے۔ خیبرپختونخوا کے گورنر نے جو تاریخ دی ہے وہ بھی 90 روز سے بعد کی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئین کو پس پشت ڈال دیا گیا۔

ساری ذمہ داری عدلیہ پر ڈال دی گئی ہے۔ اگر سیاسی مسائل کا حل ڈائیلاگ سے نہیں کیا جائے گا تو دوسرے اداروں کی مداخلت بڑھے گی۔سیاسی، اقتصادی اور آئینی معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔

اکستان میں اقتصادی بحران کا واحد حل صاف، شفاف انتخابات ہیں۔پی ڈی ایم اگر الیکشن نہیں کروائے گی تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی اور اگر یہ الیکشن کروائیں گے تو اس میں بدترین دھاندلی کریں گے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ 'آر اوز 'کو نیوٹرل ہونا چاہیے۔

جب بھی کوئی ملک معاشی، اقتصادی طور پر زمین پر آتا ہے تو اس کی بین الاقوامی ساکھ متاثر ہوتی ہے، یہی ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے۔ دوست ممالک بھی اب ہماری مدد نہیں کر رہے۔ موجودہ مسائل کا حل 90 روز میں انتخابات ہیں جو صاف و شفاف ہوں، اس کے نتائج قبول کیے جائیں اور جو بھی حکومت بنے اس کو مستقبل کے فیصلے کرنے دیے جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں