کیا سرکاری ریڈیو کی افادیت ختم ہوچکی

اگر تمام ریاستی اداروں کو کمرشل نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو تعلیم سمیت بہت سے لازمی شعبے ختم کرنا پڑجائیں گے


محمد عاطف شیخ February 26, 2023
بی بی سی اپنے پروگراموں پر ہر سال 500ملین پاؤنڈ خرچ کرتا ہے، ریڈیو کے عالمی دن کی مناسبت سے تجزیاتی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

20 دسمبر 2019 کو بی بی سی کی ویب سائیٹ پر یہ خبر لگی۔

''بی بی سی نیوز اردو اس برس کے آخر میں حالات حاضرہ اور خبروں کے پروگرام سیر بین کی شارٹ ویوز اور میڈیم ویوز پر نشریات بند کر دے گا۔ اور اب اس کی ترجیح ڈیجیٹل میڈیا کے پلیٹ فارمز اور ٹیلیویژن ہوں گے۔ تاہم گلوبل نیوز بیٹ اور ایف ایم بلیٹنز جو بی بی سی اپنے ایف ایم پارٹنرز کے اشتراک سے نشر کرتا ہے ان کا سلسلہ جاری رہے گا''۔

اس کے بعد 31 دسمبر 2022 کو یہ خبر آویزاں کی گئی کہ ''بی بی سی اُردو پاکستان مختلف ایف ایم سٹیشنز پر گذشتہ دو دہائیوں سے ریڈ یو بلیٹنز پیش کر رہا ہے لیکن اب ایف ایم بلیٹنز کا یہ سلسلہ ختم ہو رہا ہے۔

آج شام بی بی سی اردو کا آخری ایف ایم بلیٹن پیش کیا جائے گا''۔ ان خبروں کے ساتھ ہی ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔

جوکہ ریڈیو کے مستقبل سے متعلق ہے اور بی بی سی کے اس اقدام کو ایک لحاظ سے ریڈیو کے بطور ذریعہ ابلاغ خاتمہ سے تعبیر کیا جانے لگا۔

کہنے والے یہ تک کہہ رہے ہیں کہ ابلاغ کے اس جدید دور میں جب سوشل میڈیا کا راج ہے ریڈیو ایک Dying Medium ہے اور بی بی سی کے اس اقدام کو اب بطور مثال پیش کیا جارہا ہے۔ لیکن حقائق جو منظر نامہ پیش کر رہے ہیں وہ تواس کے بالکل متضاد ہے۔

ہر سال اقوام متحدہ کے تحت13 فروری کو ریڈیو کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اگر ریڈیو بے اثر میڈیم ہے اور ختم ہو رہا ہے تو اقوام متحدہ پھر اُس کا عالمی دن کیوں مناتا ہے؟ بی بی سی کی جو مثال دی جا رہی ہے۔

اگر ہم انگلینڈ میں ریڈیو سننے کے رجحان کا جائزہ لیں تو برطانیہ میں اس کام کی باقاعدہ انچارج باڈی Radio Joint Audience Research کے فروری2023 میں جاری اعداد و شمار کے مطابق یوکے میں15 سال اور اس سے زائد عمر کی 89 فیصد آبادی یعنی 49.7 ملین برطانوی ریڈیو کے سامع ہیں اور ہر سامع ایک ہفتہ میں اوسطً20.3 گھنٹے ریڈیو سنتا ہے۔

انگلینڈ کے ڈیپارٹمنٹ فارڈیجیٹل، کلچر، میڈیا اینڈ اسپورٹس کے اپریل 2022 میں جاری کردہ ڈیجیٹل ریڈیو اینڈ آڈیو ریوو کے پالیسی پیپر کے مطابق بی بی سی سالانہ ریڈیو مواد(content) پر500 ملین پاؤنڈ خرچ کرتا ہے۔

( اس میں ترسیل کے اخراجات شامل نہیں)۔ یوکے میں کمیونیکشن انڈسٹریز کو ریگو لیٹ کرنے والی اتھارٹی Ofcom کی Media Nations UK 2022 نامی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں کمرشل ریڈیو نے 2021 کے دوران 638 ملین پاؤنڈ کا ریونیو جنریٹ کیا۔ مذکورہ سال برطانیہ میں کمرشل ریڈیو کو سب سے زیادہ بزنس حکومت نے دیا جو2 کروڑ 66 لاکھ 43 ہزار پاؤنڈ تھا۔

اب ذرا امریکہ کی صورتحال ملاحظہ ہو جہاں فیڈرل کمیونیکیشنز کمیشن کے مطابق 31 دسمبر2022 تک 15377 ریڈیو اسٹیشنز موجود ہیںجن میں 4484 میڈیم ویوو، 6686 کمرشل ایف ایم اور 4207 ایجوکیشنل ایف ایم ہیں۔

امریکہ میں میڈیا کے استعمال پر تحقیق کر نے والی معروف کمپنی Nielsen کی مارچ 2021 میں جاری THE NIELSEN TOTAL AUDIENCE REPORT نامی رپورٹ کے مطابق ایک بالغ امریکی دن میں اوسطً ایک گھنٹہ اور31منٹ ریڈیو سنتا ہے۔

88 فیصد بالغوں تک ریڈیو پہنچتا ہے اورریڈیو کے سامعین کی تعداد تقریباً 22 کروڑ ہے۔ امریکہ میں 12 سال اور اس سے زائد عمر کے83 فیصد افراد terrestrial radio سنتے ہیں۔ جبکہ2021 میں امریکہ کے ریڈیو اسٹیشنزسے آن ائیر ہونے والے اشتھارات کی آمدن 10.9 ارب ڈالر رہی۔

اعداد وشمار کی یہ جھلک اُس دنیا کی ہے۔ جہاں ذرائع ابلاغ کی ہر جدید صورت نا صرف موجود ہے بلکہ اس سے مستفید ہونے کے لئے دیگر تمام ذرائع/ وسائل بھی دستیاب ہیں۔ یعنی بجلی ہر وقت اور سب کو دستیاب ہے، قوتِ خرید بھی موجود ہے اور خواندگی بھی 100 فیصد۔اظہار رائے کی بھی آزادی ہے لیکن پھر بھی وہ ریڈیو سے اتنا کیوں جڑے ہوئے ہیں؟

اس کا واضح جواب اُس حقیقت کا ادراک ہے جو ریڈیو کی بطور ذریعہ ابلاغ بے شمار خوبیوں میں پنہاں ہے۔ اور یہی ادراک امریکی صدر کو ہر ہفتہ ریڈیو کے ذریعے ہی امریکی قوم سے خطاب کی روایت کے احیاء اور اسے برقرار رکھنے کا موجب ہے۔

اب اپنے ہمسائے بھارت میں ریڈیو کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں اس وقت 1211 ریڈیو اسٹیشنز موجود ہیں جن میں سے 483 سرکاری، 388 نجی ایف ایم اور 340 کمیونٹی ریڈیو اسٹیشنز ہیں۔ جبکہ سرکاری ریڈیو کے 653 ٹرانسمیٹر پورے بھارت میں موجود ہیں۔ جن میں سے 129 میڈیم ویوو، 502 ایف ایم اور 22 شارٹ ویو کے ٹرانسمیٹرز کام کر رہے ہیں۔اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو اس وقت ملک میںریڈیو اسٹیشنز کی مجموعی تعداد297 ہے۔

ان میں سے سرکاری ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد62 ہے (میڈیم ویوو کے 22 اور ایف ایم کے40 اسٹیشنز) جبکہ پیمرا 175 کمرشل ایف ایم اور 60 نان کمرشل ایف ایم کے لائسنسز جاری کرچکا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ریڈیو کتناسنا جاتا ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب فی الحال کسی سائنٹیفیک اسٹڈی کے ذریعے نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ملک میں ریڈیو لسننگ کا کوئی مستند اور جامع سروے عرصہ دراز سے نہیں ہوا۔



بہرحال دی یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فارگلوبل میڈیا کی Contemporary Media Use in Pakistan نامی دستاویز کے مطابق پاکستان میں چھ میں سے ایک یعنی 16.5 فیصد پاکستانی ریڈیو سنتے ہیں۔ لیکن اس سوال کے جواب کے لئے ہم ایک اور پیمانے کا سہارا بھی لیں گے۔

دیکھیں ملک میں ریڈیو کی لسننگ موجود ہے تو ہی اس وقت 175 کمرشل ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کام کر رہے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ کا عمل بھی جاری ہے۔

اگر ایف ایم نہیں سنا جاتا تو پھر ریڈیو پر اشتہارات جن کی تازہ ترین مالیت 1.35 ارب ہے کیوں دیئے جاتے ہیں اور ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ کوئی بھی کاروباری فرد یا ادارہ اُس شعبہ میں ہرگز سرمایہ کاری نہیں کرتا جہاں اُسے بہتر ریٹرن کی توقع نہ ہو۔اگر ایف ایم مقبول نہیں تو پرائیویٹ سیکٹر نے ایف ایم انڈسٹری میں 1000 ملین روپے سے زائد کی انوسمنٹ کیوں کر رکھی ہے؟

یہ معاشیات کا اصول ہے کہ جب طلب بڑھتی ہے تو پھر رسد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ملک میں ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کی بڑھتی ہوئی تعداد اُس طلب کی واضح عکاسی کر رہی ہے جو سامعین کی صورت میں ملک کے قریہ قریہ کونے کونے میں موجود ہے۔

اور یہی مانگ ملک میں ایف ایم ریڈیو کے بھر پور مستقبل کی عکاس بھی ہے۔ملک میں ریڈیو کی اہمیت اور اس کے سامعین کی موجودگی کو ایک اور پہلو سے بھی دیکھا جا سکتا ہے اور وہ پہلو ملک میں ماضی قریب میں موجود غیر قانونی ایف ایم ریڈیو سٹیشنزتھے۔

جن کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ ریڈیو آج بھی پاکستانی معاشرے میں اپنا اثر رکھتا ہے اور سنا جاتا ہے۔ پیمرا نے دیگر حکومتی اداروں کے تعاون سے اب تک 100سے زائدغیر قانونی ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کو بند کیا ہے۔یہ تمام اعدادوشمار اور حقائق ریڈیو کے Dying Medium کی تو نفی ہی کر رہے ہیں۔

بعض احباب یہ بھی کہتے ہیں ملک میں ریڈیو خصوصاً سرکاری ریڈیو کی اب کوئی ضرورت نہیں۔جس کی تردید ملک کے کئی ایک زمینی حقائق کر تے ہیں۔ بجلی کی سہولت سے محروم ملک کی25 فیصد آبادی، مہنگی بجلی اور طویل لوڈشیڈنگ کا شکار ملک کی آبادی سے تسلسل کے ساتھ ابلاغ کرنا ریڈیو کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

ملک کے 10سال اور اس سے زیادہ عمر کے 37 فیصد ناخواندہ افراد سے رابطہ کا اہم ذریعہ صرف ریڈیو ہی ہے۔کم خرچ ہونے کی وجہ سے قومی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 21.9 فیصدپاکستانیوں سے تعلق ریڈیو ہی جوڑ سکتا ہے۔

دیہی علاقوں میں سہولیات کی محرومی اور شہری علاقوں میں زندگی کی تیزی ریڈیو کی ضرورت کو دوچند کردیتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں رونما ہونے والے حادثات اور قدرتی آفات میں ریڈیو کا کردار تو آفاقی اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے۔

کیونکہ گزشتہ 20 برس کے دوران قدرتی آفات سے سب سے زیادہ متاثرہ آبادی کے حامل ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اور اس کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جو قدرتی آفات سے زیادہ متاثر ہو سکنے کے خدشات کے حامل ہیں اور حالیہ سیلاب نے ان تمام خدشات کو سچ ثابت کردیا ہے۔

یہ تمام حقائق ملک میں ریڈیو کی بھرپور ضرورت کی وکالت کرتے ہوئے اس کے روشن مستقبل کی عکاسی کر رہے ہیں۔رہی بات سرکاری ریڈیو کی تو دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں سرکاری ریڈیو پوری طرح فعال ہیں۔

سرکاری ریڈیو جہاں حکومت کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتے ہیں وہیں فنون لطیفہ کی نرسری کا بھی کام کرتے ہیں۔ پبلک براڈکاسٹنگ کے ذمہ داریاں ادا کرتا ہے اورریاست کے مفادات کی نگہبانی کرتا ہے۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں ریڈیو کی کیا اہمیت؟ کیا آپ جانتے ہیں کے امریکہ میں فیس بک صارفین سے زائد تعداد ریڈیو سامعین کی ہے۔

امریکہ کی The Infinite Dial 2022 نامی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں فیس بک صارفین کی تعداد 180 ملین ہے جبکہ ریڈیو سامعین کی تعداد NIELSEN کی رپورٹ کے مطابق 22 کروڑ ہے۔اب ایک اور پہلو سے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

کیا آپ نے سوچا کہ سوشل میڈیا جو کہ انٹر نیٹ کی سہولت کے بغیر بے معنی ہے تو پاکستان میں انٹرنیٹ کے استعمال کی کیا صورتحال ہے؟ سمارٹ فونز اور کمپیوٹرز کتنے لوگوں کے پاس ہیں؟ چلیں ہم آپ کو بتاتے ہیں۔پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2017-18 کے مطابق ملک کے صرف 11.8 فیصد گھروں میں انٹرنیٹ کنکشن ہے اورملک کے صرف15 فیصد گھروں میں کمپیوٹر موجود ہے۔

نیوزو (Newzoo) انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میںسمارٹ فونزاستعمال کنندگان کی تعداد 2022 تک56.61 ملین ہے۔ گلوبل ڈیجیٹل اُورویو2022 کے مطابق فروری2022 تک ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 8 کروڑ 29 لاکھ تھی۔ یعنی ملک کی ساڑھے 36 فیصد آبادی انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے۔ اس وقت ملک کی 71.70 ملین آبادی یعنی 31.5 فیصد سوشل میڈیا کی فعال صارف ہے۔

یہاں ایک اور پہلو بھی غورطلب ہے کہ لوگوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر زیادہ وقت صرف کرنے کی وجہ سے ریڈیو کی سماعت کے لیے وقت کی کمی کا سامنا تو ہوسکتا ہے۔

لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سوشل میڈیا صارف ریڈیو ٹرانسمیشن بالکل نہیں سنتا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ آن لائن ریڈیو جسے ویب ریڈیو بھی کہا جاتا ہے سنتا ہویا کسی ایپ کی مدد سے ریڈیو سماعت کرتا ہو۔

ایک وقت تھا کہ دنیا میں صرف میڈیم ویوو، شارٹ ویوو اور ایف ایم کی روایتی فریکونسی کے ذریعے ریڈیو ٹرانسمیشن پیش جاتی تھی۔ لیکن ٹیکنالوجی میں جدت نے اس منظر نامہ کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔ آج ریڈیواسٹیشنز اپنی ٹرانسمیشن روایتی فریکونسیز کے ساتھ ساتھ جدیدٹیکنالوجی کی مدد سے بھی پیش کر رہے۔

ڈیجیٹل آڈیو براڈ کاسٹنگ ( ڈی اے بی)، Digital Radio Mondiale ، سیٹلائیٹ ریڈیو اور انٹرنیٹ ریڈیو کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔کئی ممالک ریڈیو کی روایتی ٹیکنالوجی کو ترک کرکے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو اپنا رہے ہیں۔ ناروے دنیا کو وہ پہلا ملک ہے۔

جہاں جنوری2017 سے ایف ایم ریڈیو کو بند کرکے ریڈیو برادکاسٹنگ کے لیے ڈیجیٹل آڈیو براڈ کاسٹنگ ( ڈی اے بی)کی ٹیکنالوجی اپنا لی گئی ہے۔ بی بی سی نے بھی digital-first BBC کے حوالے سے اپنی پالیسی کا اعلان کردیا ہے۔

بھارت اور جرمنی میںDigital Radio Mondiale کو اپنایا جا رہا ہے۔ اس سسٹم میں ریڈیو نشریات کے لیے AM بینڈ کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ بھارت کا سرکاری ریڈیو میڈیم ویوو کے 35 اور شارٹ ویوو کے 3 ٹرانسمیٹرز DRM ٹیکنالوجی کے لگا چکا ہے۔

لیکن ہمارا سرکاری ریڈیو DAB یا DRM ٹیکنالوجی سے استفادہ نہیں کر پا رہا۔ جس کی ایک بڑی وجہ ادارے کو درکار فنڈز کی شدید کمی ہے۔اس مالی تشنگی کی وجہ سے ایک طرف سرکاری ریڈیو اپنے کئی ایک میڈیم ویو اور ایف ایم ٹرانسمیٹرز کے نشریاتی سگنلز کی بہتر کوالٹی کو درپیش چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے تودوسری جانب پنشنرز، اہلکاروں اور فنکاروں کو بروقت معاوضوں کی ادائیگی میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔

اس تمام صورتحال کے حوالے ہم نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ڈیپارٹمنٹ آف میڈیا اسٹڈیز کے چیئر مین پروفیسر ڈاکٹر عبدالواجد خان،ریڈیو براڈکاسٹنگ اور مارکیٹنگ کا وسیع تجربہ رکھنے والی شخصیت وحید شیخ جوریڈیو براڈکاسٹنگ میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر گہری نظر اور اِس کا عملی تجربہ رکھتے ہے۔

آپ پاکستان کے سب سے بڑے ایف ایم نیٹ ورک ریڈیو پاکستان ایف ایم 101 کے سابق ہیڈ ، پی بی سی کے سابق مارکیٹنگ ہیڈ، سابق ڈائریکٹر پروگرامز اور اِس وقت ایک آن لائن ریڈیو/ web radio ،ایپ ریڈیوکے سی ای او ہیں۔ اِن کے علاوہ جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نوید اقبال انصاری سے بات چیت کی۔ جس کی تفصیل قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر عبدالواجد خان

سوال: کہا جا رہا ہے کہ سوشل میڈیا نے mainstream media کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ کیا آپ اس مفروضہ سے متفق ہیں؟

جواب: دیکھیں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ خطرے میں ڈالنا کہنا مناسب نہیں۔ چیلنج ضرور کیا ہے ہر نیا جدید میڈیا پرانے میڈیا کے لیے جہاں چیلنج ہوتا ہے وہیں اُسے اپنی بہتری کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے جس طرح سوشل میڈیا نے ریڈیو کو ڈیجیٹلائزیشن کی جہت عطا کی۔

دوسری بات اکثر لوگ بی بی سی کی مثال دیتے ہیں کہ انھوں نے پاکستان کے لیے اپنے میڈیم ویو اور شارٹ ویوٹرانسمیٹر بند کر دیے ہیں۔

یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا بی بی سی نے اپنے ملک کے اندر بھی نشریات کے لیے استعمال ہونے والے ٹرانسمیٹرز بند کر دیئے ہیں۔ یقینا نہیں۔ بلکہ وہ اب DAB ٹیکنالوجی اپنا رہا ہے۔ پاکستان کے لیے بی بی سی اپنی نشریات کے لیے ٹرانسمیٹرزاب اس لیے استعمال نہیں کر رہا کہ ادارہ اپنے وسائل کے صحیح استعمال کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

بی بی سی کی پاکستان کے لیے نشریات دراصل ایکسٹرنل ٹرانسمیشن ہے جو ادارے پر اب معاشی بوجھ کا باعث بن رہی تھی جبکہ وہ تمام مقاصد جو بی بی سی ریڈیو نشریات کے ذریعے حاصل کرتا تھا وہ ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے اپنی نشریات سے انتہائی کم اخراجات میں بھی حاصل کر سکتا ہے وہ بھی بہترین آڈیو کوالٹی کے ساتھ۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ ہمارے یہاں بی بی سی ریڈیو سننے کا جولوگوں کا رومانس تھا وہ ضرورختم ہو گیا ہے۔

سوال: ٹیکنالوجی کے ا نضمام Technology Convergence کی بدولت موبائل فون پر ایف ایم ریڈیو سننے کی سہولت نے ریڈ یو لسنگ کے رجحان پر کیا اثرات مرتب کیے؟

جواب: موبائل نے ایف ایم لسنگ کے رجحان میں قابل ذکر اضافہ نہیں کیا۔

سوال: ایسا سمارٹ موبائل فون جس پر آسانی سے ایف ایم سنا جا سکتا ہے کیا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز آنے کے بعد اسے بطور ریڈیو سیٹ ریڈیو سننے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟

جواب: میرے خیال میں نہیں کیوں کہ موبائل کو ریڈیولسنگ سے زیادہ دیگر مقاصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔

سوال : سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے ملک میں ریڈ یولسنگ کے رجحان پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟

جواب : کسی حد تک لسنر ز میں اضافہ کیا ہے کیونکہ سوشل میڈ یا دیگر مقاصد کے لئے زیادہ مستعمل ہے۔

سوال: ریڈیو چینلز کو اپنی نشریات صرف ٹرانسمیٹر کے ذریعے پیش کرنی چاہیے جو کہ ریڈیوسیٹس پر سنی جا سکے؟ یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے پیش کرنی چاہیے جو انٹرنیٹ کی سہولت کی حامل کسی ڈیجیٹل ڈیوائس پر سنی جا سکے؟ پاکستان کے معروضی حالات میں کیا ہونا چاہیے؟

جواب: دیکھیں اس حوالے سے دو موقف ہیں۔ ایک یہ کہ لسنرز کو جب ریڈیو سیٹس یا موبائل فون پر ریڈیو (ایف ایم) سنے کی تقریباً مفت سہولت حاصل ہے جسے وہ کسی بھی حالات میں کسی بھی وقت کہیں بھی سن سکتے ہیں تو وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنا مہنگا انٹرنیٹ ڈیٹا خرچ کر کے ریڈ یوٹرانسمیشن کو کیوں سنیں۔

اس کے علاوہ ملک میں انٹرنیٹ کی سہولت ابھی ایک محدود آبادی کو حاصل ہے کیا ریڈیو صرف اُن کے لیے ہے؟ دوسرا موقف کہ دنیامیں ریڈ یو ٹرانسمیشن کو روایتی ٹرانسمیٹرز سے آن لائن ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ جس سے ٹرانسمیشن کی رینج میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے اور ٹرانسمیشن کی وائس کوالٹی بہت اچھی رہتی ہے۔

ریڈیو ٹرانسمیشن کے اخراجات میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ لوگ اب ڈیجیٹل پلیٹ فارمز زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ روایتی ریڈیو سیٹس اب نا پید ہوتے جار ہیں ان حالات میں لوگ روایتی طریقے سے ریڈیو کیوںسنیں؟ اب پاکستان کے تناظر میں کیا بہتر ہے تو اس بارے میں یہ کہنا ہے کہ جدید دور کے تقاضوں کے پیش نظر نشریات دونوں طرح سے ہی پیش کی جانی چاہیے تا کہ پاکستان بھر میں ریڈیولسنگ کے دائرہ کار کو پھیلایا جا سکے۔

ریڈیو براڈ کاسٹنگ اسٹیشنز کو ہر طرح سے اپنے سامعین تک رسائی حاصل کرنا ہوتی ہے لہذا تمام ذرائع استعمال کرنے چاہیے یہ سوچنا سامعین کا کام ہے کہ وہ کس ذریعہ کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے معروضی حالات خصوصاً حالیہ سیلاب نے اس امر کو بھی نمایاں کیا ہے کہ پاکستان کلائیمیٹ چینج سے تواتر کے ساتھ مستقبل میں بھی متاثر ہو سکتا ہے۔

لہذا قدرتی آفات میں جب کمیونیکشن انفراسٹرکچر بیٹھ جاتا ہے تو اُس وقت صرف ریڈیو ہی وہ میڈیم ہے جو ملک کے طول و عرض میں ابلاغی خدمات سرانجام دیتا ہے۔ اور اگر اسے ٹرانسمیٹر ز سے شفٹ کر کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لے آیا گیا تو خدا نخواستہ کسی آزمائش کی گھڑی میں ہم حالات سے اور ایک دوسرے سے بالکل بے خبرہی نا ہوجائیں۔

سوال: کیا ریڈ یوٹرانسمیشن کی اب معاشرے میں ضرورت موجود ہے؟ کیونکہ ٹیکنا لوجی کی ترقی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے ہر فرد کور پورٹنگ، ایڈیٹنگ، رائیٹنگ، ایکٹنگ، گلوکاری، صدا کاری، آمدن حاصل کرنے، اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پیش کرنے، فوری فیڈ بیک اور شہرت حاصل کرنے کی سہولت مہیا کر دی ہے اس کے علاوہ لوگ جو سنا، دیکھنا اور پڑھنا چاہتا ہے وہ تمام مواد ا نھیں آن لائن مختلف پلیٹ فارمز پر آسانی سے مل جاتا ہے جسے وہ اپنی سہولت کے مطابق سن، دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں تو پھر وہ ریڈیوٹرانسمیشن کیوں سنیں؟

جواب: دیکھیں جب کوئی بھی نیا جدید میڈیا آتا ہے تو پرانے میڈیا کے بارے میں اس طرح کہا جاتا ہے کہ اب اس کی ضرورت نہیں۔ جبکہ ایسا ہوتا نہیں ہے ہر میڈیا کی ضرورت برقرار رہتی ہے۔ یہ حالات اور واقعات اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ میڈیا کنزیومر کونسا میڈیا استعمال کرتے ہیں۔

لیکن ایک بات یہاں ضرور مد نظر رکھنی چاہئے کہ امریکہ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اپنی جدید ترین صورت میں موجود ہیں وہاں شخصی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی ہم سے کہیں زیادہ ہے لیکن پھر کیوں دنیا بھر میں زیادہ ریڈیو سننے والی اقوام میں امریکہ سرفہرست ہے؟ ہمارے یہاں ریڈیو کی اہمیت اپنی جگہ پر برقرار رہ سکتی ہے اگر ادارے جدید تقاضوں اور سامعین کی عصری ضروریات کو پیش نظر رکھ کر اپنے کو ٹینٹ کو تر تیب دیں۔

سوال :کیا سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکوریڈیو لسنگ میں اضافہ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟

جواب: جی بالکل۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز در اصل تشہیری مقاصد کے لیے بہت بہتر طور پر استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ جس سے نئے لسنرز کو اپنی جانب متوجہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ریڈیو پروگرامز کوسوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ کر کے بھی لسنگ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔پوڈکاسٹ اس کی تازہ مثال ہے۔

سوال: سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نئے لسنرز کو ریڈیو کی جانب متوجہ کر سکتا ہے۔ تو پرانے لسنرز کو ریڈیو سے کیسے جڑارکھا جائے؟

جواب: پروگراموں کا کچھ حصہ پرانے لسنرز کی پسند اور ضروریات کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دیا جائے۔

سوال: سوشل میڈیا آنے کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد خصوصا ًنو جوانوں کی ابلاغی مواد کو سنے، دیکھنے اور پڑھنے کی چوائس بدل چکی ہے۔ ایسے میں ریڈ یوٹرانسمیشن کے مندرجات اور انداز میں کیا تبدیلیاں ضروری ہیں تاکہ سامعین خصوصاً نو جوانوں کو اپنی جانب متوجہ کیا جا سکے؟

سوال: یہ بہت اہم بات ہے اور اس کا جتنی جلد ادراک کر لیا جائے اُتنا ہی بہتر ہے۔ بی بی سی نے جب اپنے حالات حاضرہ اور خبروں کے پروگرام سیر بین کو بند کرنے کی بات کی تو ساتھ میں اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے ریڈیو مواد کو نو جوانوں کی دلچسپی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

نوجوان اب بھی ریڈیو سنتے ہیں لیکن اس پر وقت کم صرف کرتے ہیں۔ ہم نئی ابلاغی تکنیک کو جدید تقاضوں اور ضروریات سے ہم آہنگ کر کے سمارٹ فون جنریشن کو ریڈیو کی جانب راغب کر سکتے ہیں۔

سوال: دنیا بھر میں سرکاری ریڈیو پبلک براڈ کاسٹنگ کے لیے کام کرتے ہیں یا کمرشل براڈ کاسٹنگ کے لیے؟

جواب: زیادہ تر پبلک براڈ کاسٹنگ کے لیے لیکن کمرشلز کے بغیر انڈسٹری زندہ نہیں رہ سکتی۔

سوال: اگر سرکاری ریڈیو کا کام پبلک براڈ کاسٹنگ ہے تو پھر اُس کے اخراجات کیسے پورے ہوں؟

جواب: سرکار کو اس کی ابلاغی اور رائے عامہ کو ہموار کرنے، آگاہی اور شعور پھیلانے کی اہمیت کو پیش نظر رکھ کر ترقیاتی فنڈز میں سے خصوصی بجٹ مختص کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں سرکاری ریڈیو کو درکار فنڈز حکومتیں فراہم کرتی ہیںکیونکہ پبلک براڈ کاسٹرز کا کام آمدن کا حصول نہیں ہوتا بلکہ یہ ریاستی اور عوامی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے ہوتے ہیں۔

بی بی سی کی مثال کو ہی لے لیجئے اس کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے خصوصی انتظام کیا ہواہے ۔جس کے تحت برطانوی حکومت نے تمام گھروں پر لائسنس فیس کا اطلاق کیا ہوا ہے۔ جس سے 2021-22 میں 3.8 ارب پاؤنڈ حاصل ہوئے۔

جو اس کے ریونیو کا 75 فیصد ہیں۔ جبکہ دیگر25 فیصد جس کی مالیت مذکورہ مالی سال1.7 ارب پاؤنڈ تھی وہ مختلف نان پبلک کمرشل اور دیگر سرگرمیوں (گرانٹس، رائلٹیزاور کرایہ )سے حاصل کی گئی۔ ہماری حکومت کو بجلی کے بل میں پی ٹی وی کی فیس کی طرح سرکاری ریڈیو کے لیے بھی مستقل بنیادوں پر فنڈز کی دستیابی کے لیے کوئی لائحہ عمل بنانا چاہیئے۔

وحید شیخ

سوال: کہا جا رہا ہے کہ سوشل میڈیا نے mainstream media کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ کیا آپ اس مفروضہ سے متفق ہیں؟

جوابـ : سوشل میڈیا نے مین سٹریم میڈیا کو متاثر کیا ہے۔اس کا وجود تو خطرے میں نہیں آیا لیکن یہ ہے کہ اس کی ویورشپ یا لسنر شپ بہت متاثر ہوئی ہے۔سوشل میڈیا وقت کے تقاضوں کو پورا کر رہا ہے اور جو لوگ وقت کے تقاضوں کے ساتھ چلتے ہیں وہ ترقی کرتے ہیں۔

آج کا ریڈیو خصوصاً میںریڈیو پاکستان کی بات کروں گا۔ اُن کا یو ٹیوب چینل بھی ہے۔ وہ انسٹا گرام پر بھی ہیں۔اُن کے ٹویٹر اکاؤنٹ کے ملینز میں فالورز بھی ہیں اور فیس بک پر بھی بے شمار لوگ اُن کو فالو کرتے ہیں۔پوڈکاسٹ بھی آگیا ہے۔یہ اچھی بات ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی چینج ہورہا ہے ۔

سوال : جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیانے ریڈیو پر کیا اثرات مرتب کیے ہیںاور یہ ریڈیو کے لیے کیوںکر ضروری ہیں؟

جواب: ٹیکنالوجی نے ریڈیو کے ریسیور اینڈ اور ٹرانسمیشن اینڈ دونوں پر نمایاں اثرات مرتب کیے ہیں۔ ڈیجیٹل ریڈیو سیٹس، سمارٹ فون اور سمارٹ اسپیکرز سے ریڈیو لسننگ میں بہتری آئی ہے۔مغرب میں ریڈیو لسننگ کے لیے اب سمارٹ اسپیکرز تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔

دنیا بھر میں روایتی ریڈیو سیٹس ناپید ہوتے جا رہے ہیں پاکستان ہی کی مثال کو لے لیں یہاں اب مارکیٹ میں عام ریڈیو سیٹ خصوصاً اے ایم بینڈ والا سیٹ آسانی سے دستیاب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ملک کے صرف 6.4 فیصد گھروں میں ریڈیو سیٹ موجود ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز آنے سے لسننگ آسان اور بہتر ہوگئی ہے۔

ساؤنڈ کوالٹی کرسٹل کلیئر ہوگئی ہے۔آپ ایپ پر ریڈیو سن سکتے ہیں۔ یہ ریڈیو ایپ کا دور ہے ۔آپ فیس بک پر بھی ریڈیو سن سکتے ہیں۔ ایسی چیزیں آگیں ہیں کہ کوئی بھی اسٹیشن ایک وقت میں ایک سے زائد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنی نشریات دے سکتا ہے۔

یعنی یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ٹیکنالوجی کو کیسے استعمال میں لایا جائے۔ سوشل میڈیا آجانے کے بعد لوگوں کے پاس چوائسسزبہت آگیں ہیں۔اگر ریڈیو کا کونٹینٹ اچھا ہے اور آپ کا پسندیدہ پروگرام ہے تو وہ اپنا ریڈیو پروگرام ضرور سنتے ہیں۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب کا جو دور ہے اس میں ٹرانسمیٹرز پر پیسہ ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔سرکاری ریڈیو کی کیوں کہ کچھ مخصوص ذمہ داریاںہیں اس لیے اُن کو ٹرانسمیٹرزکی ضرورت ہے۔

اگر اسٹیٹ ریڈیو کے پاس وسائل ہوں تو میڈیم ویوو ٹرانسمیٹرز ضرور ہونے چاہیئں۔ کیونکہ یہ سگنلز کو دور تک لے جاتے ہیں۔ لیکن ایسے ٹرانسمیٹرز تکنیکی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ اور اُن کی دیکھ بھال ایک مہنگا کام ہے ۔

اب آسان ترین کم خرچ ڈیجیٹل ذرائع آگئے ہیں آپ ڈیڈیکیٹیڈآڈیو سٹریم لیںجو24 گھنٹے چلتی رہتی ہے کسی خلل کے بغیر۔ اور اگر کو تکنیکی مسئلہ آ بھی جائے تو کمپنیزبیک اپ دیتی ہیں۔

میں توٹرانسمیٹرز کے سخت خلاف ہوں ۔ بہت بڑے سیٹ اپ کی ضرورت ہوتی ہے ان کی تنصیب کے لیے۔ایک ایف ایم ٹرانسمیٹر یا میڈیم ویوو ٹرانسمیٹر کا صحیح متبادل ڈیڈیکیٹیڈآڈیو سٹریم ہے ۔جس سے آپ کے ریڈیو کی reach گلوبل ہوجاتی ہے دنیا کے کسی بھی کونے میں آپ کو سنا جا سکتا ہے۔

لسنرز کا فیڈ بیک فوراً حاصل ہوتا ہے۔ لوگوں کی چوائس کو فوراً پورا کیا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کا اپنا بہت زیادہ اثر ہے اور اس کا توڑ کوئی نہیں ہے۔اُس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔دنیا بھر میں سرکاری ریڈیو اور تمام ریڈیو سوشل میڈیا پر انحصار کر رہے ہیں۔

دنیا کے نمایاں سرکاری ریڈیوز نے ٹرانسمیٹرز کے ساتھ ڈ یڈیکیٹیڈآڈیو سٹریم بھی لے رکھی ہے۔ اور لوگ اب زیادہ آڈیو اسٹریم پر ریڈیو سنتے ہیںیا اُن کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آرام سے سنتے ہیں۔

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری

سوال: کیا ملک میں ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کے قیام نے ریڈ یولسنگ کا دوبارہ احیا کیا؟

جواب: جی بالکل۔ ایسے لوگوں کی تعداد جو ریڈیو کی عادی نہیں تھی یا نئی نسل وہ دور ہوتی چلی جا رہی تھی اور جو پرانے سننے والے تھے اُن کا بھی گراف نیچے آرہا تھا۔ جیسے ہی ایف ایم لائسنس کا اجرا ہوا تو ایک دم سے لسنرز کی تعداد بڑھی، مقبولیت بھی اُس کی بڑھی۔

سوال: ریڈیو چینلز کو اپنی نشریات صرف ٹرانسمیٹر کے ذریعے پیش کرنی چاہیے جو کہ ریڈیوسیٹس پر سنی جا سکے؟ یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے پیش کرنی چاہیے جو انٹرنیٹ کی سہولت کی حامل کسی ڈیجیٹل ڈیوائس پر سنی جا سکے؟ پاکستان کے معروضی حالات میں کیا ہونا چاہیے؟

جواب: دونوں ہی ضروری ہے کیونکہ پاکستان کا معاشرہ دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ ایک وہاں جہاں ٹیکنالوجی آئی اور بہت زیادہ استعمال ہو رہی ہے،اور ایک جو ہے وہ پیچھے ہے۔اور لوگوں کے حالات بھی ایسے نہیں ہے کہ ہر طرح کی ٹیکنالوجی ہر جگہ استعمال کریں۔

سوال: کیا ریڈ یوٹرانسمیشن کی اب معاشرے میں ضرورت موجود ہے؟ کیونکہ ٹیکنا لوجی کی ترقی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے ہر فرد کور پورٹنگ، ایڈیٹنگ، رائیٹنگ، ایکٹنگ، گلوکاری، صدا کاری، آمدن حاصل کرنے، اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پیش کرنے، فوری فیڈ بیک اور شہرت حاصل کرنے کی سہولت مہیا کر دی ہے اس کے علاوہ لوگ جو سنا، دیکھنا اور پڑھنا چاہتا ہے وہ تمام مواد ا نھیں آن لائن مختلف پلیٹ فارمز پر آسانی سے مل جاتا ہے جسے وہ اپنی سہولت کے مطابق سن، دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں تو پھر وہ ریڈ یوٹرانسمیشن کیوں سنیں؟

جواب: بات تو درست ہے۔لیکن بات یہ ہے کہ ریاست بھی تو ہوتی ہے نا اُسے معاشرے کو لیکر چلنا ہوتا ہے اگر آپ سارا کمرشل نقطہ نظر سے دیکھیں گے اوراُسے چھوڑ دیں گے تو معاملہ دوسری طرف جائے گا۔ لیکن اگر ریاست ہے اور وہ معاشرے کو لیکر چلنا چاہتی ہے تو اُس کے لیے پھر جو ریڈیو کا انداز ہے پرانا والا اور نیا والادونوں کو استعمال کرنا چاہیے۔کیونکہ یہ ریاست ہی کرسکتی ہے باقی نجی طور پر تو ہر کوئی منافع کمانا چاہے گااورجوسامعین کی تھوڑی سی تعداد ہے وہ اُن کوفوقیت تھوڑی دے گا۔

سوال: اگر سرکاری ریڈیو کا کام پبلک براڈ کاسٹنگ ہے تو پھر اُس کے اخراجات کیسے پورے ہوں؟

جواب: اخراجات پورا کرنے کے لیے میڈیا نہیں ہوتا۔جیسے تعلیم کے ادارے ہیں۔وہ پیداوار کے لیے نہیں کہ پیسہ کمایا جائے ایسے ہی یہ جو میڈیا ہے یہ پیداوار کے لیے نہیں ہے۔سرکاری میڈیا اس لیے بہتر ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں دیکھ لیں اُس کارول سب سے Best رہا ہے۔لیکن جب سے نجی شروع ہوا ہے اُس نے معاشرے پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔تو سرکاری سطح پر آپ پیسہ کمانا چاہیں گے تو پھر نجی شعبہ کی طرح اس کا بیڑا غرق ہوجائے گا۔

سوال: کیا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے سرکاری ریڈیو آمدن حاصل کر سکتا ہے؟

جواب: ہوسکتا ہے لیکن آپ کو طے کرنا ہوگا کہ آپ کیا چاہ رہے ہیں۔اگر زیادہ مال کمانا چاہیں گے توستیاناس کردیں گے۔ ملکی مفاد اور معاشرتی مفاد نہیں رہے گا پھر۔

اس وقت ریڈیو کو درپیش چلنجز میں سے نمایاں چیلنج ارباب اختیار کی عدم توجہ ہے۔ اس عدم توجہ کاسرکاری اور نجی دونوں طرح کے ریڈیو اسٹیشنز کو سامنا ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا بھی ایک چیلنج کی صورت میں موجود ہے ۔اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سوشل میڈیا نے جس تیزی سے معاشرے کو اپنی گرفت میں لیا ہے۔

اس کی نظیر ماضی میں کسی اور میڈیا کے آنے سے نہیں ملتی۔ کیونکہ جب بھی کوئی نیا میڈیا آتا ہے تو وہ پہلے سے موجود میڈیا کو بہت سے چلنجز کا شکار بنا دیتا ہے۔ ہمیں ریڈیو کو سوشل میڈیا کی وجہ سے درپیش چیلنجز کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے بھرپور استفادہ میں تبدیل کرنا ہوگا۔ کیونکہ مستقبل کا ریڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بہتر استعمال اور جدید براڈکاسٹنگ ٹیکنالوجی کی دستیابی اور ان دونوں کے بھرپور استعمال پر منحصر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں