بلوچ کراچی کے قدیم باسی

بلوچ قوم کے نام پر بہتوں کی قسمتیں جاگ اٹھی ہیں انھوں نے، دھن دولت خوب کمایا اور معزز کہلائے


Shabbir Ahmed Arman February 19, 2023
[email protected]

بلوچ قوم، تین صدیوں سے کراچی میں آباد ہے، اور ابتدائی طور پر ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ تھے، جب بلوچستان کا سمندری ساحل ریت سے بھر گیا تویہ ماہی گیر ہجرت کرکے کراچی کے ساحل پر آکر آبادہوئے۔

مچھیروں کی یہ بستی کلانچ بلوچستان سے کراچی ہجرت کرنے والی مائی کلانچی (عورت) نام سے منسوب ہوئی۔ چارلس نپیئر اپنی کتاب میں کراچی کے ابتدائی دنوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ'' 1729ء میں یہ علاقہ 20تا 25جھگیوں پر مشتمل تھا جہاں گارے ( مٹی ) سے بنے ہوئی چند جھونپڑیاں تھیں۔

بلوچ ماہی گیروں کے علاوہ مہاڑ قوم بھی ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ تھی ، جو اسی بستی مائی کلاچی کا حصہ بن گئی تھی، بعد میں دیگر اقوام جن میں کچھی قوم بھی شامل تھی نیماہی گیری کا پیشہ اختیار کیا، پھر رفتہ رفتہ کراچی کی آبادی میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔

بلوچ قوم اپنی محنت و لگن سے 60فیصد کراچی کی زمین کے مالک بن گئے ۔ ایک وقت وہ آیا جب بلوچوں نے اپنی زمینیں بیچنا شروع کردی تھیں، یوں آنے والی نسلیں محنت و مزدوری کرنے پر مجبور ہوگئیں، جب کہ بعد ازاں کراچی میں آکر آباد ہونے والی اقوام نے تیزرفتاری سے ترقی کی اور کئی اعتبار سے خود کفیل ہوگئے اور ان کی نسلیں آسودہ حال ہوگئیں ۔

وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ بلوچوں نے اپنی قیمتی زمینیں کوڑیوں کے دام فروخت کیں اور پھر ان پیسوں سے دیگر کاروبار کرنے کے بجائے غیر منافع ذرایع میں صرف کرکے ضایع کیں جس وجہ سے وہ مالی اعتبار سے کمزور ہوگئے، اسی غربت کی وجہ سے وہ اپنی اولادوں کو تعلیم کی طرف راغب نہ کرسکے اور گھر کا خرچہ چلانے کے لیے ان کی اولادیں بھی محنت مزدوری کرنے لگیں جب کہ دوسری طرف دیگر اقوام میں سے کچھ ذاتی کاروبار کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھیں اور کچھ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور ان کے ریٹائر ہونے کے بعد ان کی اولادیں بھی سن کوٹہ کی بنیاد پر سرکاری ملاز م بنتے گئے۔

ہمارے جو بھائی تقسیم ہند کے دوران کراچی میں آکر آباد ہوئے تھے ، وہ اور ان کی اولادیں بھی آسودہ حال ہوگئے ۔ بعد ازاں ملک کے مختلف علاقوں سے مختلف اقوام نے بھی کراچی کا رخ کیا جن میں سے کسی نے یہاں محنت مزدوری کو تر جیح دی تو کسی نے یہاں اپنا کاروبار شروع کردیا اور کراچی میں جائیدادوں کے مالک بن گئے جب کہ دوسری طرف بلوچ قوم دن بہ دن تنزلی کا شکار ہوتی چلی گئی ۔

ایک مثال ملیر کی بھی دی جاسکتی ہے جہاں بلوچ زمین دار تھے ان کی کھیتی باڑیاں تھی لیکن پانی کی کمیابی کی وجہ سے ان کی زمینیں بنجر ہوتی گئی اور وہ اپنی زمینیں بلڈرز کے ہاتھوں فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے اب ملیر کی زیادہ تر زمینیں غیر بلوچوں کی ہوچکی ہیں اور ملیر کی بلوچوں کی اولادیں بھی محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔

لیاری جسے کراچی کی ماں کہا جاتا ہے جہاں سے کراچی کی ابتداء ہوئی تھی میں آباد بلوچ قوم اپنے ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ لیاری اب بلوچوں کا نہیں رہا ۔اس کی بھی بنیادی وجہ اپنی رہائشی و غیر رہائشی زمینیں بلڈرز کے ہاتھوں فروخت کرنا ہے جہاں بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں اور ہورہی ہیں جس کی اہم وجہ غربت ہے ، اور مفاد پرست لوگ ان کی غربت سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

بلوچوں میں یہ غربت اس لیے در آئی ہے کہ انھوں نے اپنے آباؤ اجداد کی زمینیں بیچ ڈالیں ، اپنی اولادوں کو تعلیم کی طرف کم راغب کیا ،اور جنھوں نے تعلیم حاصل کی وہ سرکاری نوکری کی لاحاصل جھانسے میں پھنس گئے اور اپنا وقت ضایع کردیا ، اپنا کاروبار شروع کرنے پر شرم محسوس کی ،جو کم فہم تھے وہ تاریک راہوں میں گم ہوگئے ، کچھ دیار غیر میں بس گئے ، کچھ سیانے سیاسی پیدا گیری میں کامیاب ہوگئے، کچھ محنت مزدوری میں لگے ہوئے ہیں۔

یہی کچھ صورت حال کراچی کے دیگر علاقوں میں آباد بلوچوں کی ہے جو ماڑی پور ، ماچھ گوٹھ ، یوسف گوٹھ، رئیس گوٹھ ، مہاجر کیمپ ، فقیر کالونی ، بڑا ریکسر لین، پراناگولی مار ، منگھوپیر ، گڈاپ اور چنیسر گوٹھ میں بستے ہیں جہاں ان کی زندگی سسک رہی ہے اور علاقے بد حال ہیں ۔

یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کراچی میں بلوچ قوم کی رہنمائی کرنے والا، ان کی ترجمانی کرنے والا کوئی بلوچ لیڈر نہیں تھا ؟ یا نہیں ہے؟ جس کا جواب یہ ہے کہ لیڈر اور ترجمان تھے اور ہیں جن میں سے جو اپنے کاز میں مخلص تھے یا ہیں ، ان کے راستے میں سیاسی بازی گروں نے رکاوٹیں ڈالیں،کسی کو خریدا گیا ،جنھوں نے اپنے ذاتی مفاد میں اپنی ہی بلوچ قوم کی قسمت کا سودا کیا۔

بلوچ قوم کے نام پر بہتوں کی قسمتیں جاگ اٹھی ہیں انھوں نے، دھن دولت خوب کمایا اور معزز کہلائے، یہ سلسلہ صدیوں سے آج تک جاری و ساری ہے جو پشت در پشت چلا آرہا ہے۔ کراچی میں آباد بلوچ قوم کی آباؤ اجداد سادہ لوح تھے جو ایک ہی سوراخ سے متعدد بار ڈسنے کے باوجود اس امید پر رہے کہ شاید صبح کا نیا سورج ان کی اندھیری دنیا میں روشنی پھیلا دے لیکن ان کی یہ آس ہر بار ٹوٹتی رہی ہے۔

اب جب کہ 21ویں صدی میں دنیا شعور و آگہی کی انتہا کو پہنچ رہی ہے ، جدید سے جدید ترین ٹیکنا لوجی متعارف ہورہی ہیں ،اپنے لیے نئی راہیں متعین کررہی ہے ،ایسے میں کراچی کے بلوچ پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں۔

خدارا ! اب تو آنکھیں کھولیں ،اپنی اولادوں کو تعلیم کی طرف راغب کریں، سرکاری ملازمت کی آس لگانا چھوڑ دیں ،سب سرکاری ادارے نیلام ہوچکے ہیں ، اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنے کا بندوبست کریں ، ذاتی مفاد کی خاطر اپنی قوم کی قسمت کا سودا مت کریں، اپنے آپ کو پہچانو! اپنا حق مانگنے کے لیے التجا نہیں مطالبہ کریں ،اپنی رہائشی و کاروباری زمینیں نہ بیچیں،کسی کا محل دیکھ کر اپنی جھونپڑی مت جلائیں ، اپنی خامیوں کی اصلاح کریں ، اپنی مدد آپ کے تحت اپنی قسمت کا فیصلہ کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں