کلچر سے ماس کلچر تک کا سفر

نیک عمل کرنے کا وقت نہیں مگر واٹس ایپ پر نیکیاں کرنے کی احادیث تک فارورڈ کی جا رہی ہیں


Dr Naveed Iqbal Ansari February 19, 2023
[email protected]

دنیا میں ترقی کا سفر تیزی سے جاری ہے جس میں ترقی یافتہ ہی نہیں، ترقی پذیر ممالک بھی شامل ہیں۔ ترقی کے اس سفر میں کلچر (یعنی ثقافت)، ماس کلچر (یعنی ثقافت عامہ) میں تبدیل ہو رہی ہے۔ یوں پاکستانی کلچر میں بھی تیزی کے ساتھ تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ یہ تبدیلی کلی طور پر ہو رہی ہے یعنی مادی اور نظریاتی طور پر بھی۔

یہ نئی اشیاء جب ہماری روزمرہ کی زندگی میں شامل ہوئیں توکام کرنے کے انداز ہی نہیں ، سوچ کے انداز بھی تبدیل ہونے لگے۔ ہمیں یاد ہے کہ بچپن میں جب کوئی اچھا کھانا پکتا تھا تو کھانا پکنے کے بعد گھر کے بزرگ ہمیں پڑوس کے گھر میں بھی ایک پلیٹ کھانا دینے کے لیے بھیجتے تھے۔ تہوار کے موقع پر تو سب ہی ایک دوسرے کے گھر کچھ نہ کچھ ضرور بھیجتے تھے۔

بعض اوقات ایک کپ چینی بھی آپس میں ادھارکے طور پر لے لیتے تھے اور بعد میں راشن آنے پر واپس کر دیتے تھے۔ گھر کے سل بٹے پر چٹنی پیس کر دوپہرکا کھانا کھا لیا جاتا تھا اور بعض اوقات یہ چٹنی بھی پڑوسی آپس میں تقسیم کر لیتے تھے۔ رفتہ رفتہ جب معاشرے میں ترقی اور خوشحالی آنے لگی تو اپنے کلچر کے استعمال کی اشیا میں ترقی یافتہ ممالک کی اشیاء شامل ہونے لگیں۔

گھر میں فریج آیا تو وہ کھانا جو کبھی کبھار بچ جانے کی صورت میں پڑوس یا کسی ضرورت شخص کو دے دیا جاتا تھا، فریج میں اگلے دن استعمال کے لیے رکھا جانے لگا۔ پھر ضرورت سے زیادہ کھانا بنانے اور فریج میں رکھنے کی عادت ایسی پکی ہوگئی کہ بقر عید پر قربانی کا گوشت بھی اس کی نظر ہونے لگا ، نیز محض قربانی کے گوشت کو اپنے ہی استعمال کے لیے محفوظ کرنے کی غرض سے ڈیپ فریزر خاص طور پر خریدے جانے لگے۔ یوں محلے داری اور ایک دوسرے سے مل جل کر رہنے کا کلچر ماند پڑنے لگا۔

محلے داری کا وہ کلچرکہ جس میں آپس میں میل جول اور محبت اس قدر تھی کہ گھر میں رکھی ہوئی رقم کسی بھی پڑوسی کو بلا سوچے دے دیتے تھے کہ اس کی ضرورت پوری ہو جائے نیز کسی کی بیٹی کی شادی وغیرہ جیسا اہم مسئلہ ہو تو کمیٹی ڈال کر اس ضرورت مند کو بخوشی پہلی کمیٹی دے دی جاتی تھی، یوں کسی کو اپنے بچوں کی شادی کے لیے قرض مانگنے کی بہت زیادہ تگ و دو کرنا یا فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔

ترقی کے کلچر میں صرف بینک ہی نہیں آئے بلکہ ان میں اکائونٹ کھول کر اپنی رقم ان بینکوں میں رکھنے کا کلچر بھی آیا۔ پھر نت نئی اشیاء خریدنے کا رحجان بھی بڑھا۔ گھر میں اب صراحی کے ٹھنڈے پانی کی خواہش سے بات نکل کر، واٹر کولر، فریج اور ڈسپینسر تک پہنچ گئی، فرشی چادر اور دری سے بات آگے بڑھ کر خوبصورت قالین ، ڈیکوریشن پیس اور ہاتھ کے پنکھے سے کمرہ ٹھنڈا کرنے کے لیے اسپلیٹ تک جا پہنچی۔

یوں اب کوئی پڑوسی کچھ رقم ادھار مانگنے بھی آجائے تو دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا کہ اب رقم گھر میں نہیں بینک اکائونٹ میں انٹرسٹ کے لیے رکھ دی جاتی ہے یا پرآسائش زندگی گزارنے کے لوازمات کے حصول میں برابر ہوچکی ہوتی ہے۔ اب ہمارے پاس گھر میں کیش بھی نہیں ہوتا کہ کوئی پڑوسی ادھار مانگنے آجائے تو اس کی ضرورت پوری کر دیں۔

غرض ایسی صورتحال میں اب پڑوسیوں سے محلہ داری نبھانا بھی مشکل ہوگیا ہے اور کلچر دیوار بند مکانات کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ گویا ہمارے کلچر میں استعمال کی وہ اشیاء آئیں جو ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے پاس تھیں۔ بظاہر تو یہ بات اچھی تھی کہ ترقی ہماری زندگی میں شامل ہوگئی مگر ہمارا روایتی ملنساری اور محلہ داری والا کلچر کہیں گم ہوگیا اور ترقی یافتہ ممالک کے کلچر کی آمیزش ہمارے کلچر کو نگل گئی۔

آخر یہ کلچر ماس کلچر میں کیسے اورکیونکر تبدیل ہوتا ہے؟

ماہرین کے مطابق ہر علاقے کا ایک کلچر ہوتا ہے مگر جب بیرونی کلچر کا سامنا ہوتا ہے تو لوگوں کی ایک تعداد اس کو اپنا لیتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ تعداد بڑھتی رہتی ہے ، یوں عالمی سطح پر جب ایک جیسی چیزیں مشترک ہو جائیں تو ماس کلچر وجود میں آجاتا ہے۔ ویسے تو لوگوں کی ایک علاقے سے دوسرے علاقے یا خطے میں سفر سے بھی یہ عمل ہوتا ہے، جس میں لوگ ایک دوسرے سے متاثر ہوکر ثقافت کے اثرات قبول کرتے ہیں مگر میڈیا اس کا سب سے اہم ذریعہ یا سبب کہا جا سکتا ہے۔

میڈیا سے لوگ نئی اشیاء اور دوسرے کلچر سے متعارف ہوتے ہیں۔ میڈیا پر مختلف نظریات کا پرچار بھی ہوتا ہے، اس طرح میڈیا کسی بھی معاشرے میں ماس کلچر کا سب سے بڑا سبب بنتا ہے۔ ماس کلچر روایتی کلچر کو ختم کرتا جاتا ہے ، جیسے جیسے دنیا گلوبل ویلج میں تبدیل ہو رہی ہے، ویسے ویسے ہی روایتی کلچر ختم اور ماس کلچر بڑھتا جا رہا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ماس کلچر اس غیر محسوس طریقے سے روایتی کلچر کوکھا جاتا ہے کہ ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا، حتیٰ کہ ہمارے نظریہ حیات کو بھی بدل کر رکھ دیتا ہے۔ میڈیا پر اس کا ایک طاقتور ذریعہ اشتہارات، فلمیں اور ڈرامے ہیں۔ بین الاقوامی برانڈ رکھنے والے ادارے چاہتے ہیں کہ کسی بھی قیمت پر ان کی پروڈکٹ صرف ان کے اپنے ملک تک محدود نہ رہے بلکہ دنیا بھر میں فروخت ہوں تاکہ زیادہ منافع کمایا جاسکے۔

اس مقصد کے لیے ایسے اشتہارات میڈیا پر پیش کیے جاتے ہیں کہ دیکھنے والوں کے ذہن میں اتر جاتے ہیں۔ ان اشتہارات میں جو کلچر پیش کیا جاتا ہے وہ بھی دیکھنے والوں کے ذہن میں پیوست ہو جاتا ہے یوں ان مناظر کا کلچر اور پھر اشتہارات میں پیش کی گئی پروڈکٹ کا بھی ماس کلچر کی صورت میں لوگوں پر پڑتا ہے اور دیکھنے والے اس کلچر کو غیر محسوس طریقے سے اپنا لیتے ہیں۔ مثلاً کسی پیزا وغیرہ کا اشتہار دیکھنے کے بعد لوگ صرف یہ غیر ملکی کلچر کی اشیاء ہی نہیں خریدتے بلکہ باہر جا کر ریسٹورنٹ میں کھاتے بھی ہیں۔

چنانچہ آپ کسی بھی ایسے ریسٹورنٹ کے گیٹ پر کچھ دیر کھڑے ہوکر نظارہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہاں فروخت ہونے والی شئے ہی غیر ملکی کلچر کی نہیں بلکہ یہاں کا ماحول ، لوگوں کی سرگرمی کے علاوہ لوگوں کا لباس بھی روایتی کلچر کے برعکس ہے۔ آج ایسے مناظر کراچی شہر کے متوسط ہی نہیں اس سے نچلے طبقے کے علاقوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ اب کسی یونیورسٹی میں جب سندھی ثقافت کا دن منایا جا رہا ہوتا ہے تو وہاں وہ طلبہ بھی نظر آتے ہیں جو سندھی ٹوپی اور اجرک کے ساتھ جینز پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔

غور کیا جائے تو اس ماس کلچر نے ہمارا سب کچھ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ اب رشتہ داروں اور پڑوس کے لوگوں سے ملنے کا وقت بھی نہیں ہے بس فون پر ہی حال احوال جان لیا جاتا ہے۔ دوستیاں اور تعلقات سب سوشل میڈیا پر استوار ہوگئے ہیں، گھر کے اندر بیٹھے لوگوں کے مسائل کا علم نہیں اور ان کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینے کا بھی وقت نہیں مگر سوشل میڈیا پر دنیا جہان کے مسئلے حل کیے جا رہے ہیں۔

نیک عمل کرنے کا وقت نہیں مگر واٹس ایپ پر نیکیاں کرنے کی احادیث تک فارورڈ کی جا رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اپنے بوڑھے ماں باپ کے لیے بھی وقت نہیں مگر جہاں بھر کا درد اپنے جگر میں ہے۔ آئیے غور کریں '' کلچر سے ماس کلچر تک '' کے اس سفر میں ہم کیا کچھ کھو چکے ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔