’الخدمت‘

ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے بھی ایک خود مختار ڈھانچہ کھڑا کیا گیا ہے جو وقت کے ساتھ بہتر ہو رہا ہے


Ghulam Mohi Uddin February 18, 2023
[email protected]

جس طرح کسی معاشرے میں تادیبی اختیارات رکھنے والے ادارے اس سماج میں بہترین اخلاقی معیار اور مثالی امن و امان کی ضمانت فراہم نہیں کرسکتے، اسی طرح حکومتیں محض اپنی مشینری اور وسائل کے بل بوتے پر معاشرے میں پیچھے رہ جانے والی خلقت' بے وسیلہ لوگوں اور غیر معمولی حالات کا شکار ہو جانے والوں کی تن تنہا داد رسی نہیں کرسکتیں۔

شہر کے کسی چوراہے پر کھڑا ٹریفک پولیس اہلکار کے اشاروں کا احترام شہریوں کے اندر پائے جانے والے قانون کے احترام کے تصور کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس کی درست تفہیم یہ ہوگی کہ قانون کا احترام جب تک احساس ذمے داری کے رضاکارانہ احساس کے ماتحت نہیں آجاتا پائیدار نہیں ہوتا۔

نظم اجتماعی کی بنیادی شرط لوگوں کی اخلاقی تربیت ہے۔ بالکل اسی اُصول کے تحت اگر کوئی معاشرہ اپنی ناہمواریوں کو دور کرنے کے لیے صرف سرکار پر انحصار کر کے بیٹھ جائے تو کبھی بھی اجتماعی خوشحالی کی منزل حاصل نہیں کرسکتا۔

تاریخ عالم میں سماج سدھار اور مصیبت میں گھرے لوگوں کی مدد کی غیر معمولی مثالیں موجود ہیں۔ کار خیر کی ان سرگرمیوں کے لیے انگریزی زبان میں Phylanthropy کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لفظ سے خیراتی اور کار خیر کی سرگرمیوں کے معنی اخذ کیے جانے کی کہانی بہت دلچسپ ہے اور اس کام کی اصل روح کو بھی بیان کرتی ہے۔

یہ لفظ دراصل یونانی زبان کے ایک لفظ Philantropia سے نکلا ہے جس کے معنی 'انسانوں کے ساتھ بے غرض محبت' ہے لیکن اس سے بھی پیچھے جائیں تو اس لفظ کا اصل ماخذ ایک پودا ہے جس کا نام یونانی زبان میں Phylanthrops ہے۔ اس کی مختلف اقسام کم و بیش دنیا بھر میں ملتی ہیں۔ اس پودے پر روئیں دار بیج لگتے ہیں جو ان پودوں سے چھو کر گزرنے والوں کے کپڑوں کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں، یعنی ان کا وصف ہے کہ کسی دوسرے کی خاطر اپنی شاخ سے الگ ہوجاتے ہیں۔

اسے انسانی ذہن نے مثبت پیرائے میں دیکھا تو قربانی کے معنوں میں لیا۔ پھر یہ بھی ہے کہ یہ پودا صدیوں سے جلدی بیماریوں اور زہریلے کیڑوں کے کاٹے کے علاج کے لیے بطور دوا استعمال ہورہا ہے۔یعنی ایسی خدمت جس سے منفعت وابستہ نہ ہو۔ اپنے ملک کی بات کریں تو یہاں عبدالستار ایدھی نے خدمت کی اعلیٰ مثال پیش کی تو روتھ فائو جیسی غیر ملکی خاتون بھی اسی ملک کا افتخار ہیں جنھوں نے تن تنہا اداروں جتنا کام کیا۔

پاکستان کے موجودہ سماجی منظر نامے کا جائزہ لیں تو اس بات میں دو رائے نہیں کہ 'الخدمت' ایک ایسی تنظیم ہے جس نے نہ صرف یہ کہ معمول کے حالات میں ملک کے طول و عرض میں بے وسیلہ ضرورت مند لوگوں کی مدد کا موثر نظام وضع کیا ہے بلکہ بڑی تیزی کے ساتھ خود کو اس قابل بھی بنایا ہے کہ کسی قدرتی آفت کی صورت میں سرکاری سطح پر کی جانے والی مدد و بحالی کی کوششوں کے شانہ بشانہ موثر سرگرمیاں سر انجام دے سکے۔

بالخصوص حالیہ سیلاب سے پیدا ہونے والی تباہ کُن صورتحال میں اس تنظیم نے مثالی کام کیا ہے۔ مدد اور بحالی کی سرگرمیوں کے جدید تصور کے مطابق اگر سرکار اور این جی اوز صرف اپنے طور پر کام کرنے کی کوشش کریں گی تو بہت سی محنت اور وسائل ضایع ہو جائیں گے۔ بہترین نتیجہ تبھی سامنے آئے گا جب ملکی سطح پر تمام موجود وسائل، افرادی قوت اور ذرایع کو باہم مربوط انداز میں استعمال کیا جائے اور مرکزی سطح پر معلوم ہو کہ کس جگہ پر کونسی چیز یا خدمت کتنی درکار ہے۔

حال ہی میں ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے دوسری مرتبہ 'الخدمت' کی باگ ڈور سنبھالی ہے۔ گزشتہ دنوں محترم طارق محمود احسن کے ہاں ان سے ملاقات کا موقع نصیب ہوا۔ طارق صاحب احباب کے درمیان وجہ ملاقات کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ وہ ایک ایسے دور میں دوستوں کی ملاقات ممکن بنالیتے ہیں جب ہم تمام ابلاغی سرگرمیوں کے لیے برقی رابطہ کاری پر انحصار کرنے سے سمجھوتا کر چکے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کے نام اور کام سے کچھ تعارف پہلے سے تھا۔ پیشے کے اعتبار سے ماہر امراض چشم ہیں اور اسلامک میڈیکل کالج اسلام آباد میں بطور ایسوسی ایٹ ڈین اور پرنسپل کے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پری ونیشن آف بلائنڈنس ٹرسٹ (P.B.O) سے ہمارا تعارف ڈاکٹر انتظار حسین بٹ کے توسط سے ہوا تھا اور ڈاکٹر حفیظ الرحمن اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے دنیا بھر میں لاکھوں بے وسیلہ لوگوں کی بینائی بحال کرنے کے مشن کا حصہ بھی ہیں۔

ڈاکٹر صاحب سے ملاقات میں جو سب سے نمایاں تاثر سامنے آیا وہ یہ تھا کہ وہ اپنے کام، اس کے طریقہ اور مقاصد کے حوالے سے کسی معمولی سے ابہام کا بھی شکار نہیں۔ یہ بات بہترین نتائج کی شرط اول ہوتی ہے۔ وسائل افرادی مہارتوں اور وسیع نیٹ ورک رکھنے والے ادارے بھی اگر فیصلہ سازی اور حکمت عملی کی سطح پر یکسو نہ ہوں تو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔

ایک بات جو ہمارے لیے غیر معمولی تھی وہ یہ کہ حالیہ سیلاب کے دوران ریسکیو اور بحالی کی سرگرمیوں میں اس وقت تک الخدمت 20 ارب روپے سے زائد کے اخراجات کرچکی ہے جب کہ جماعت اسلامی اور ذیلی سیاسی تنظیموں کے مجموعی سالانہ اخراجات 32 کروڑ روپے کے آس پاس ہیں۔

ان اعداد و شمار پر شک کی گنجائش اس لیے نہیں کہ سیاسی اعتبار سے جماعت اسلامی کی سیاسی مخالفت کرنے والے بھی 'الخدمت' کی خدمت اور دیانت پر اُنگلی نہیں اٹھاتے اور جماعت کو ملک کی باگ ڈور تھمانے سے گریزاں لوگ بھی اپنے عطیات کے لیے الخدمت پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کرنے کو تیار ہیں۔

یہ حقیقت اپنی جگہ ایک سوال بھی ہے جس کا جواب ایک الگ تحریر کی صورت میں انشاء اللہ کسی آیندہ کالم میں دینے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ بات سمجھنے کے لیے کوئی غیر معمولی ذہانت درکار نہیں کہ اگر ریاستی سطح پر عوامی فلاح اور انتظامی اخراجات میں 20 ارب اور 32 کروڑ والا تناسب پیدا کر لیا جائے تو معاملات تیزی سے سدھرنے لگیں گے۔ الخدمت ملک بھر میں معمول کی سماجی خدمات فراہم کر رہی ہے۔

مزید یہ کہ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے بھی ایک خود مختار ڈھانچہ کھڑا کیا گیا ہے جو وقت کے ساتھ بہتر ہو رہا ہے۔ اس کی انتظامی باگ ڈور 'الخدمت'ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل' کے پاس ہے۔ پھر علاقائی سطح پر بھی ایسے سیل موجود ہیں جن کی حیثیت خود مختار محکمہ جیسی ہے۔ یہ سیل کسی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں فوری طور پر متحرک ہوجاتے ہیں۔

عمومی حالات میں کسی آفت کی صورت میں ان سرگرمیوں کو موثر بنانے کے لیے الخدمت کے 40 اسپتال، 63 میڈیکل سینٹر، 131 لیبارٹریز، 281 ایمولینسز، 426 میڈیکل کیمپ موجود ہیں۔ جن سے معمول کے حالات میں سالانہ 7,986,110 لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ طبی خدمات کا یہی نیٹ ورک کسی غیر معمولی صورتحال میں ہنگامی خدمات انجام دینے پر لگ جاتا ہے۔ اسی طرح تعلیم کے شعبے میں تعلیمی ادارے اور اسکالر شپس کا نظام موجود ہے۔

پسماندہ علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی کے مختلف منصوبوں سے 3,191,150 لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ اسی طرح یتیم اور بے سہارہ بچوں کے لیے خدمات سے ملک بھر میں 17,867 بچوں کی کفالت کی جارہی ہے جب کہ بے وسیلہ لوگوں کی معاشی بحالی اور امداد کے بہت سے پروگرام بھی چل رہے ہیں۔

یہ کارکردگی یقیناً غیر معمولی ہے اور مسلسل وسعت پذیر ہے۔ اسے عوام کی اعانت اور اعتماد بھی حاصل ہے جب کہ عالمی سطح پر اسے مین اسٹریم میں لانے کے اقدامات کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ تمام مثبت پیش رفت مستقبل کی جو تصویر پیش کرتی ہے وہ عالمی سطح پر ملک کی نیک نامی کا باعث ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں