ضیاء محی الدین بزم جہاں سے رخصت ہوتے ہیں

انہوں نے انگریزی اُردو نظم و نثر کو اپنے سحر آفریں اُسلوب سے درجہء کمال تک پہنچایا


Ghulam Mohi Uddin February 14, 2023
فنون لطیفہ کی ترویج و ترقی میں اُن کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ فوٹو : فائل

حرف و صوت اور حسن ادا کی ضیائ...ضیاء محی الدین ہم میں نہیں رہے۔ ان کی عمر بانوے برس تھی۔

لفظوں کے جادوگر ضیاء محی الدین الفاظ کو صوتی معنویت عطا کرنے میں حرف آخر تھے۔ اس میں شک نہیں کہ اردو اور انگریزی ادب کی ادائیگی کو انہوں نے آسمان کی بلندیوں سے روشناس کرایا۔ اس شعبے کو اُن کے کمال فن نے درجہ کمال تک پہنچایا۔

ضیاء محی الدین کے سحر آفریں اُسلوب بیان کا اعجاز تھا کہ پہلے سے معلوم شعری اور نثری فن پاروں کی ان کی زبان سے ادائیگی کا حظ اُٹھانے لوگ ٹکٹ خرچ کر ان کے پروگراموں میں آیا کرتے تھے۔

یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ان کے انداز بیان نے بہت سے ایسے لوگوں کو ادب شناس بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا جو اس جانب رحجان نہیں رکھتے تھے۔اپنی فن کاری اور صدا کاری کے توسط سے ضیاء محی الدین برسوں تک پاکستانی اور برطانوی سنیما اور ٹیلی ویڑن سے اداکار ، صدا کار ، ڈائرکٹر اور پروڈیوسر کے طور پر وابستہ رہے۔ وہ معروف ٹی وی اینکر، ہدایتکار، صداکار اور مصنف کے طور پر بین الااقوامی شہرت رکھتے تھے۔

اردو ہو یا انگریزی ، درست تلفظ اور تاریخی حوالہ جات کو موثرا نداز میں پیش کرنے کا سہرا ان کے سر جاتا ہے۔ وہ الفاظ اور اُن سے مطلوب تاثر کو لہجے میں ڈھال دینے کی جادوئی صلاحیت رکھتے تھے۔ ہرموضوع پر مضبوط گرفت رکھنے والے ضیا محی الدین کو سننے، پڑھنے والے ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہوئے بنا نہ رہ سکتے۔

تقریباً 67 سال تک تھیٹر اور فلم انڈسٹری سے منسلک رہے۔ ان کی ٹھیٹر اور پرفارمینگ آرٹ سے محبت کا ثبوت ناپا کی صورت میں موجود ہے۔ انھوں نے کراچی میں ناپا کے نام سے اکیڈمی کی بنیاد رکھی جہاں فنون لطیفہ سے شغف رکھنے والے طلباء طلبات کو تعلیم دی جاتی تھی۔

ضیا محی الدین قیام پاکستان سے قبل برطانوی ہند میں لائلپور حالیہ فیصل آباد میں 20 جون1931ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد خادم محی الدین تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے ۔ فن سے محبت ان کو وراثے میں ملی تھی۔ ان کے والد کو پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد کے مصنف اور مکالمہ نگار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

انھوں نے 50 کی دہائی میں لندن کی رائل اکیڈمی آف ڈراماٹک آرٹ سے اداکاری کی تربیت حاصل کی۔ 1949ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی اور مزید تعلیم کے لیے پہلے آسٹریلیا اور پھر انگلستان چلے گئے جہاں انہوں نے رائل اکیڈمی آف تھیٹر آرٹس سے وابستگی اختیار کی۔

1956 میں وہ پاکستان لوٹے مگر جلد ہی ایک اسکالر شپ پر انگلستان واپس چلے گئے اور اس بار کا سفر ان کے لئے ڈائریکشن کی تربیت حاصل کرنے کا موجب بنا۔

1960ء میں ای ایم فوسٹر کے مشہور ناول 'اے پیسج ٹو انڈیا' کو اسٹیج کیا گیا تو اس میں ڈاکٹر عزیز کا کردار ادا کرکے انہوں نے شائقین کی توجہ حاصل کی۔

1962ء میں انہوں نے فلم 'لارنس آف عربیا' میں کام کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے اس فلم میں بھی ایک یادگار کردار ادا کیا جس کے بعد اُن کے لئے تھیٹر اور ہالی وڈ کے دروازے کُھل گئے اور انہوں نے کئی فلموں میں کردار ادا کیے۔ ضیاء محی الدّین نے برطانیہ میں قیام کے دوران وہاں کے ایک بڑے ٹیلی ویڑن کے لیے ''Here and Now ''کے عنوان سے کئی برس ایک ہفتہ وار پروگرام بھی پیش کیا۔

یہ پروگرام کسی مخصوص طبقے کے لیے نہیں تھا،مندرجات بہت وسیع اور متنوّع تھے۔ وہ کئی برطانوی چینلز سے وابستہ رہے۔ ضیاء محی الدّین نے اداکاری میں ہر قسم کے کردار قبول کرنے کے بجائے محض اْن کرداروں کی ہامی بھری،جن میں اْنہیں بہترین اداکاری کا یقین تھا۔ 1970ء میں ضیا محی الدین پاکستان آئے جہاں انھوں نے پاکستان ٹیلی وڑن کے لیے 'ضیاء محی الدین شو' کے نام سے ایک اسٹیج پروگرام کی میزبانی کی۔

یہ پی ٹی وی کی تاریخ میں ایک ایسا شو تھا جس نے نہ صرف یہ کہ مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے بلکہ آئیندہ کے لئے اسٹیج شوز کا معیار بھی طے کر دیا۔ اس شو کو بجا طور پر ایک 'ٹرینڈ سیٹر' ثابت ہوا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران انہیں پی آئی ائے آرٹس اکیڈمی کا ڈائرکٹر مقرر کیا گیا۔

اسی دوران انہوں نے نامور رقاصہ ناہید صدیقی سے شادی کر لی۔ ضیا محی الدین نے پاکستان ٹیلی ویثرن سے جو پروگرام پیش کیے ان میں 'پائل'، 'چچا چھکن'، 'ضیا کے ساتھ'، 'جو جانے وہ جیتے' اور 'دھن ہماری تمہارے نام ہوئی' سر فہرست ہیں۔ ضیا محی الدین 2005 سے 2021 تک نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) سے بطور بانی اور سربراہ وابستہ رہے۔

اس دوران انھوںنے ترویج ادب کے لئے بہت کام کیا۔2022 میں شیکسپیئر کے ڈرامے رومیو اینڈ جولیئٹ کو اردو زبان میں پیش کر کے طالب علموں کو کلاسیکل تھیٹر بھی سکھایا۔اس کے بعد وہ اس عہدے سے اپنی مرضی سے سبکدوش ہو کر اپنی خدمات ادارے کو رضاکارانہ طور پر دے رہے تھے۔

انھوں نے ایک غیر ملکی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ پاکستان میں بننے والے ڈراموں کے معیار سے مایوس ہیں اور آخری بار انھوں نے سنہ 1981 میں پاکستانی ڈرامہ دیکھا تھا۔انھوں نے کہا تھا کہ 'میں ڈرامے قطعی نہیں دیکھتا، مجھے کوئی کمی نہیں محسوس ہوتی، سنا ہے مگر بڑے اچھے ہوتے ہیں۔

میں کبھی کبھی خبریں دیکھتا ہوں ورنہ ٹی وی دیکھنا بہت کم ہوتا ہے۔ کبھی خبریں الجزیرہ پر دیکھتا ہوں، کبھی بی بی سی بھی دیکھ لیتا ہوں۔ مطالعہ کرتا ہوں دو بجے تک نیند آ جائے تو ٹھیک، نہ آئے تو نہیں۔'

انھیں شکوہ تھا کہ پاکستانی ٹی وی پر غلط تلفظ بولا جاتا ہے۔ انھوں نے ملک، مِلک اور مْلک کا حوالہ دیا اور کہا زبر زیر اور پیش سے لفظ اور مطلب بدل جاتا ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ 'مختلف الفاظ جنھیں ہم عام طور پر اور ٹی وی ڈراموں میں غلط ادا کرتے ہیں، جیسے قبر، فکر، صبر وغیرہ، ہم کس کس کا رونا روئیں۔'

اُن کا کہنا تھا کہ''پروفیشنلزم میرے نزدیک ایمان کی مانند ہے'' ۔انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ بہت کم مواقع پر اپنے کسی کام سے مطمئن ہوا ہوں۔

ہاں، ایسی ہیں دو چار جن پر مجھے ناز بھی ہے لیکن بات یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پیمانے بدلتے رہتے ہیں، اپنی ہی نظروں میں اس پیمانے پر نہیں پہنچا جو میری توقع تھی۔ ارادہ کچھ بھی ہو لیکن عمل نہ ہو سکے تو اکثر ان دونوں چیزوں کا ملاپ نہیں ہوتا۔'

ان کی ادب سے متعلقہ خدمات کے پیش نظر انھیں2012ء کو ہلال امتیاز اور ستمبر 2021ء کو صدر ایمیرٹس کا اعزاز دیا گیا۔

ضیاء محی الدین نے تین شادیاں کیں جن سے اْن کے چار بچے ہیں۔ ان کی تیسری اہلیہ عذرا محی الدین کا تعلق بھی شوبز انڈسٹری سے ہے۔

عذرا محی الدین سے انہوں نے 1994 میں شادی کی تھی جن سے ان کی ایک صاحبزادی ہیں۔ عذرا محی الدین گاہے بگاہے اپنے شوہر ضیا محی الدین کے ساتھ تصاویر اور ویڈیوز انسٹاگرام پر بھی اپلوڈ کرتی رہتی تھیں۔

70 کے عشرے میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں ضیا محی الدین کو 'پی آئی اے آرٹس اکیڈمی' کا ڈائریکٹر بنایا گیا۔

رقص میں کمال رکھنے والی ناہید صدیقی سے یہیں اْن کی ملاقات یہی ہوئی تھی۔ وہ اکیڈمی میں مستقل طور پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھیں اورکچھ وقت بعد یہی ناہید ان کی دوسری اہلیہ بن گئیں۔ضیا محی الدین کی پہلی اہلیہ کا نام سرور زمان تھا، جس سے ان کے دو بیٹے ہوئے۔

ضیاء محی الدین طبیعت کی ناسازی کے باعث کچھ روز سے کراچی کے نجی اسپتال میں زیرِ علاج تھے۔

گزشتہ دنوں انہیں بخار اور پیٹ میں شدید تکلیف کے باعث ہسپتال داخل کرایا گیا تھا جہاں پر الٹرا ساونڈ کیے جانے پر معلوم ہوا ہے کہ ان کی آنت میں خرابی پیدا ہوئی ہے جس پر ان کی آنت کا آپریشن کر دیا گیا۔

آپریشن کے بعد ضیاء محی الدین کو ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ دورانِ علاج انتقال کر گئے۔

ہم شاعری کیسے پڑھتے ہیں ؟

ضیاء محی الدین کا کہنا تھا ''ہم شاعری بہت بری طرح سے پڑھتے ہیں، مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں جب تک ایک ایک لفظ پر ہتھوڑا نہ مارا جائے، اس وقت تک ہم شاعری نہیں پڑھ رہے۔ ہم شاعری کو بھنبھوڑتے ہیں، پڑھتے نہیں ہیں۔

ایک تو مسئلہ ہماری شاعری کا یہ ہے چوں کہ ہمارے ہاں اعراب نہیں ہیں، Punctuation جس کو کہتے ہیں، کوما، سیمی کولن، سوالیہ نشان وغیرہ، تو میں نے بیسیوں بار اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو اشعار غلط پڑھتے سنا ہے۔ بے شمار غالب کے اشعار ایسے ہیں، جن میں بغیر کسی تکلف کے ہم ذری سی بھی احتیاط نہیں کرتے''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں