جی یہ تھے ہم سب کے انتظار حسین
جب خزاں کے جھونکے سر اٹھاتے ہیں تو کچھ جھڑ جاتے ہیں، کچھ ان کی جگہ لینے کے لیے جڑیں پکڑنا شروع کر دیتے ہیں
یہ دنیا ایک وسیع و عریض گلشن ہے، جس میں رنگ رنگ کے پھول اپنی بہار دکھاتے ہوئے اپنی خوشبو سے ماحول کو نہ صرف معطر رکھتے ہیں بلکہ زندگی کی شاخوں پہ لہرا لہرا کے دلکش اور دلفریب مناظر کا باعث بنتے ہیں۔
جب خزاں کے جھونکے سر اٹھاتے ہیں تو کچھ جھڑ جاتے ہیں، کچھ ان کی جگہ لینے کے لیے جڑیں پکڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی حال کم و بیش زندگی کے تمام شعبوں کا ہے۔ ادب چونکہ ایک متحرک ، حساس اور دلوں کی اتھل پتھل کرنے والا شعبہ ہے جب کوئی بڑا کردار اپنے اختتام سے بغل گیر ہوتا ہے تو اس کے اثرات تا دیر نظر آتے ہیں۔
دنیائے ادب کا تابندہ ستارہ انتظار حسین ہے جو اس ازلی وابدی عمل سے گزرنے کے بعد بھی اس دنیائے فانی سے لافانی دنیا کی طرح کوچ کرگئے۔ انتظار حسین جسمانی طور پر آج کے ماحول میں تھے لیکن ذہنی وروحانی لحاظ سے ماضی اور بھی خاص کر ہجرت کے ماحول کے باشندے تھے۔
انتظار حسین ایک صاحبِ اسلوب ادیب اور کثیر الجہات ادبی شخصیت کے مالک تھے، انھوں نے 7 دسمبر 1923 کو بھارت کے آبائی گائوں ڈبائی ضلع بلند شہر (یو پی) میں آنکھ کھولی۔ ان کے والدِ گرامی منظر علی ایک علمی اور مذہبی شخصیت کے طور پر'' ڈبائی'' کی ایک معروف شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے ،وہ اپنے بیٹے کو عالمِ دین بنانا چاہتے تھے مگر انتظار حسین کا دھیان اُردو ادب کی کتابوں کی طرف مائل ہوا۔
تقسیمِ ہند کے وقت وہ اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان کے شہر لاہور میں سکونت پذیر ہوئے۔ انھوں نے ایم اے اُردو کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی ، جہاں وہ پروفیسر کرار حسین کے شاگرد تھے۔ انتظار حسین نے زندگی بھر کوئی سرکاری نوکری نہیں کی بلکہ اپنی عملی صحافت کا آغاز روزنامہ '' آفاق'' سے کیا، پھر انھوں نے فیض احمد فیض کی ادارت میں ہفت روزہ '' امروز'' میں کچھ عرصہ کام کیا۔
1970 میں انھیں عنایت اللہ کے روزنامہ ''مشرق'' میں لے آئے جہاں یہ '' لاہور نامہ '' لکھنے لگے۔ ان کے یہ کالم ادب سے متعلق موضوعات پر مبنی ہوتے۔ اسی دور کے ایک مضمون کی نقل میرے پاس محفوظ ہے۔ اس مضمون کی نقل میرے اُستاد نواسہ محمدعلی جوہر ملت کے ولی ابصار عبدالعلی مرحوم سے موصول ہوئی۔
انتظار حسین کی کالم نگاری کے حوالے سے بات کریں تو انھوں نے نہ صرف اُردو میں کالم لکھے بلکہ انگریزی زبان میں بھی لکھے، ان کے یہ کالم ڈیلی '' ڈان '' کے ادبی ایڈیشن Authors and book میں چھپا کرتے۔ انھوں نے زندگی کی آخری سانس تک اپنی کالم نگاری کے جوہر روزنامہ ''ایکسپریس'' میں '' بندگی نامہ '' کے نام سے دکھائے۔
ان کا آخری اردو کالم '' عربی زبان کے شناور خورشید رضوی'' 25 جنوری 2016 کو چھپا۔ ان کے کالموں میں بیشتر علمی و ادبی کتابوں ، ادبی رحجانات ، ادبی سرگرمیوں ، اردو مصنفین ، اردو کتب و رسائل اور تہذیبی ، ثقافتی اور معاشرتی مسائل کے بارے میں لکھتے تھے۔
ایک تحریر میں انتظار صاحب خود لکھتے ہیں کہ '' کبھی کبھی مجھے گمان گزرتا ہے کہ میں ایک فقرے کی پیداوار ہوں۔''انتظار حسین نے جہاں کالم نگاری میں جوہر دکھائے وہی انھوں نے بہ بیک وقت ناول ، افسانے ، مضامین ، تنقیدی مضامین، تراجم اور ادبی کالموں کو نہ صرف اپنے تخلیقی اظہارکا ذریعہ بنایا بلکہ ہر صنف میں اتنے گہرے نقوش چھوڑے جو آج بھی موجودہ ادب کا تاریخی ورثہ ہے۔
انھوں نے اپنی افسانہ نگاری کا آغاز قیام پاکستان سے قبل ہی کر دیا تھا۔ ان کے افسانوں کا پہلامجموعہ '' گلی کوچے '' 1956 میں شایع ہوا۔ ان کا پہلا افسانہ 7 ستمبر1948 کو ماہنامہ '' ادبِ لطیف '' میں شایع ہوا۔ اس حوالے سے مجھ خاکسار کو ناصر زیدی مرحوم نے بتایا تھا کہ تب '' ادبِ لطیف '' کے مدیر مرزا ادیب تھے ، اس افسانے کا عنوان'' قیوما کی دکان '' تھا ، جسے اُس وقت ادبی حلقوں میں بہت سراہا گیا۔ ''
انتظار صاحب کے ابتدائی افسانے ترقی پسند روایت اور حقیقت نگاری کی روایت کے امین تھے۔ ان کے ہاں علامتی افسانوں کا رنگ بھی ملتا ہیں ،کیونکہ ان کے لکھنے کا اسلوب دیگر لکھاریوں سے جداگانہ تھا یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں اسلوبِ داستاں بھی ملتا ہے۔ اس حوالے سے ان کے افسانوں کے کئی مجموعے ہیں جن میں کنکری ، آخری آدمی، شہرِ افسوس اور ''کوندے'' وغیرہ۔
افسانوں کے علاوہ انھوں نے متعدد ناول بھی لکھے جن میں چاند گہن ، بستی، تذکرہ (جسے بعد میں '' اپنا گھر'' کے نام سے بھی شایع کیا گیا) '' اور آگے سمندر ہے'' سے زیادہ شہرت ملی۔ ان کا ناول '' بستی'' انگریزی میں ترجمہ ہوا تو انھیں اس پر '' بکر پرائز '' سے نوازا گیا یہ اُردو کا پہلا ناول تھا جس کے حصے میں یہ اعزاز آیا ، یوں اُردو کا نام عالمی سطح پر جانا گیا۔
ان کے دیگر ناولوں میں آخری آدمی ، شکستہ ستون پر دھوپ ، شہر زاد کے نام ، اپنی دانست میں اور خوابوں کا مسافر وغیرہ۔ ان کے ناول میں بھی افسانوں کی طرح ایک عجب سی کشمکش جگمگاتی تھی۔ ہمیں عہدِ ماضی کے ہجر کا دُکھ چھپا ہو ، ان کی تحریروں میں جا بجا پڑھنے کو ملتا ، ان کے افسانوں اور ناولوں میں کہیں نہ کہیں حقیقت پوشیدہ ہونے کا راز موجود تھا اور یہی ان کی داستانوں میں جو سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں ، ان میں ایک حقیقت اور سچائی کا روپ نمایاں تھا۔
اس حوالے سے مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں کہ ''میرے نزدیک قرۃ العین اور انتظارحسین شاید دنیا بھر کے ادیبوں میں اس لحاظ سے حیرت ناک طور پر منفرد ہیں کہ ان دونوں کی تحریروں میں صنف مخالف کی کشش کا کہیں کچھ اعتراف نہیں ملتا۔ ''
انتظار صاحب نے جہاں اخباری کالموں ، متراجم، تذکروں، تنقید، سفر ناموں اور صحافتی کالموں میں طبع آزمائی کی وہیں انھوں نے بچوں کے لیے لازوال کہانیوں کے مجموعے تخلیق کیے۔ میرے خیال میں انھوں نے زندگی بھر قلم اور قرطاس سے وابستہ ہوتے ہوئے زندگی کی آخری سانس تک جتنا لکھا اُتنا ہم جیسے بیشتر لوگ ساری زندگی پڑھنے اور لکھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔
2010میں جب عطا الحق نے ان کے اعزاز میں تقریب رکھی تو اس دوران حمید اختر نے انتظار صاحب کو اس زمانے کا سب سے بڑا ترقی پسند لکھاری قرار دیا۔ ان کے ادبی خدمات کے اعتراف میں فرانس کی حکومت نے انھیں ستمبر 2014 میں '' آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز '' نامی ایوارڈ سے نوازا ، جب کہ حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور ستارہ امتیاز جیسے اہم سول اعزازات سے نوازا وہیں انھیں اکادمی ادبیات کی جانب سے ملک کا سب سے بڑا اعزاز کمالِ فن بھی تفویض کیا۔
انتظار صاحب سے بڑا لکھاری اور محبتوں ، صداقتوں کے امین 2 فروری 2016 کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ، مگر ان کی برسی کے موقع پر ادبی فضا آج بھی افسردہ ہیں۔ ان کی وفات پر جب اکادمی ادبیات نے تعزیتی ریفرنس کی تقریب منعقد کی تو اس دوران عرفان صدیقی نے ایک خوبصورت جملہ کہا تھا کہ '' ایک اور انتظار حسین کے لیے ہمیں صدیوں انتظار کرنا ہوگا۔''
انتظار صاحب کا اکادمی ادبیات کے ساتھ بھی ایک دیرینہ تعلق تھا یہی وجہ ہے کہ اکادمی ادبیات نے ان کے فن وشخصیت پر '' انتظار حسین نمبر '' شایع کیا جس میں تمام تر تحریریں ان کی فن و شخصیت کی مختلف جہات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس شمارہ میں جہاں ممتاز ادیبوں، نقادوں اور محققین کے خصوصی مضامین اور مقالات شامل کیے گئے ہیں وہیں ممتاز شعراء کا منظور خراجِ عقیدت بھی اس شمارہ کا حصہ ہے۔
اس کے علاوہ دیگر شخصیات سے ان کے انٹرویوز اور دیگر لکھاریوں کی تحریروں سے انتخاب کو شایع کیا گیا ہے۔ اس رسالے کے نگران اعلیٰ ڈاکٹر قاسم بگھیو اور مدیر اختر رضا سلیمی کا تہہ دل سے مشکور ہوں جنھوں نے '' انتظار حسین نمبر'' انتہائی محنت ، لگن اور عرق ریزی سے ترتیب دیا۔ آخر میں اس شمارے سے انتظار حسین کی عقیدت میں جان کاشمیری کی نظم پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔
کالم نگار بھی تھا فسانہ نگار بھی
تہذیبِ حرف و صوت کا خدمت گزار بھی
پایندہ انتظار تھا، پایندہ انتظار
مُردوں کی بارگہہ میں رہا زندہ انتظار