یوم یکجتہی کشمیر روایتی احتجاج کب تک

روایتی احتجاج سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے


ضیا الرحمٰن ضیا February 05, 2023
کشمیر پر بھارت کا قبضہ سراسر ناجائز ہے۔ (فوٹو: فائل)

کشمیر ہر لحاظ سے پاکستان کا حصہ ہے اور پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے۔ کسی بھی زاویے سے جانچ لیا جائے بھارت کا کشمیر پر کوئی حق نہیں۔ انہوں نے صرف اٹوٹ انگ کا ایک خود ساختہ نعرہ لگادیا، جس میں کسی طرح کی کوئی سچائی نظر نہیں آتی۔ یہ صرف پاکستانیوں کا دعویٰ نہیں بلکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ کشمیر ہر لحاظ سے پاکستان کا حصہ ہے۔

اگر کشمیر کی آبادی کو دیکھا جائے تو وہاں پر اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب 70 فیصد سے زیادہ ہے۔ مردم شماری کے مطابق کشمیر کے 22 اضلاع میں سے 17 اضلاع میں مسلمانوں کو واضح اکثریت حاصل ہے، باقی 4 اضلاع میں کہیں ہندو، کہیں سکھ اور کہیں بدھوں کو اکثریت حاصل ہے، لہٰذا مذہبی لحاظ سے کشمیر کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے نہ کہ بھارت کا۔

اگر عوام کے جذبات کو دیکھا جائے تو پوری دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ کشمیری پاکستان کے جھنڈے اٹھائے احتجاج کر رہے ہیں، اپنے شہدا کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کرتے ہیں، 'پاکستان زندہ باد' اور 'کشمیر بنے گا پاکستان' کے نعرے لگا رہے ہیں، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کشمیری ہر حال میں پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر جغرافیائی حالات کو دیکھا جائے تو بھی یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کشمیر پاکستان کا ہی حصہ ہے اور بھارت کا قبضہ سراسر ناجائز ہے۔ کشمیر کی طویل سرحد پاکستان کے ساتھ ملحق ہے، بھارت کے ساتھ کشمیر کی سرحد کی لمبائی صرف 200 کلومیٹر ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کی سرحد 700 میل طویل ہے۔ کشمیر ہر لحاظ سے پاکستان کے ساتھ الحاق کا حق دار ہے۔ پاکستان کے پاس ہر طرح کی دلیل موجود ہے جس کی رو سے کشمیر کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے۔

کشمیر پر بھارت کا قبضہ سراسر ناجائز ہے، جس کی مزاحمت کرنا کشمیریوں کا بنیادی حق ہے اور دنیا کی ہر قوم ایسا ہی کرتی ہے جس پر انہیں کوئی بھی دہشتگرد نہیں کہتا بلکہ انہیں آزادی پسند کہا جاتا ہے۔ مگر کشمیری ایسی مظلوم قوم ہیں کہ وہ اپنی ریاست اور اپنے گھر پر قبضہ کرنے والے ظالموں کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کریں تو انہیں ہی دہشتگرد قرار دیا جاتا ہے اور ان پر حقیقی دہشتگردوں سے بھی بڑھ کر مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔

کشمیر میں جاری حالیہ بھارتی دہشتگردی نے پاکستان کے ہر فرد کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر کب تک کشمیری اسی طرح ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہیں گے؟ کب تک قابض بھارتی افواج ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتی رہیں گی؟ کیا کشمیری ہمیشہ پاکستان کے پرچم تھامے یوں ہی احتجاج کرتے رہیں گے اور بھارتی فوج ان پر گولیاں برساتی رہے گی؟ کیا آزادی مانگنا جرم ہے؟ کیا حق خود ارادیت کا مطالبہ کرنا بغاوت ہے؟ جو قوم کسی کے ساتھ کبھی ملحق ہی نہ ہوئی ہو، اس پر زبردستی قبضہ کرنے کے بعد انہیں علیحدگی پسند و حریت پسند کہنا کہاں کا انصاف ہے؟ ان کے شہروں پر قبضہ کرنا، ان کے گھروں پر بلا جواز چھاپے مارنا، ان کے لوگوں کو شہید کرنا، ان کے ہنستے بستے جنت نظیر شہر اجاڑ دینا اور پھر ان کی مزاحمت پر انہیں ہی دہشتگرد کہنا کہاں کی عقلمندی ہے اور کیسی جمہوریت ہے؟ ننھے منے معصوم بچوں کو پیلٹ گنوں سے زخمی کرنا، ان کی بینائی چھین لینا، انہیں تڑپتے ہوئے چھوڑ کر بھاگ جانا، ہر روز نوجوانوں کو شہید کرنا، خواتین اور بزرگوں کو بلاجواز پریشان کرنا کہاں کی انسانیت ہے؟ کیا بھارتی افواج بے لگام ہیں، انہیں نکیل ڈالنے والا کوئی نہیں؟

بھارت کا مقصد صرف کشمیریوں کی نسل کشی کرنا ہے، جس کےلیے وہ ہر طرح کے ناجائز حربے استعمال کررہا ہے۔ بھارت کا اصل نشانہ کشمیری نوجوان ہیں اور وہ آئے روز کئی نوجوانوں کو شہید کررہے ہیں۔ کشمیر میں میڈیا آزادی سے کوریج نہیں کرسکتا، جس کی وجہ سے شہادتیں رپورٹ نہیں ہوسکتیں۔ تھوڑی بہت جو رپورٹ ہوتی ہیں وہ ہم تک پہنچتی ہیں، جو رپورٹ نہیں ہوتیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ بھارت نے کشمیر میں مسلمانوں کی تعداد کم کرنے کے لیے کشمیریوں کو شہید کرنے کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کو بھی وہاں بسانا شروع کردیا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں ہندو کشمیر کی شہریت حاصل کرچکے ہیں۔ جسے دیکھتے ہوئے اب کوئی ابہام نہیں رہ گیا کہ بھارت صرف اور صرف کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی اور ہندوؤں کو بسانے کے ذریعے مسلمانوں کی تعداد کم کرکے ہندوؤں کی تعداد میں اضافہ کررہا ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر پاکستانیوں کے دل تڑپ اٹھتے ہیں۔ باقی تمام تر صورتحال بھی پاکستانی عوام کےلیے باعث غم ہے مگر جب وہ بھارتیوں کے سامنے گولیوں اور آنسو گیس کی شیلنگ میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں تب پاکستانی ان کےلیے بہت زیادہ دردمند ہوجاتے ہیں۔

یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر پاکستانی بہت بڑے پیمانے پر احتجاج کریں، کوئی فرد ایسا نہ ہو جو احتجاج میں اپنا حصہ نہ ڈالے، جس کی جہاں تک رسائی ہے وہاں تک وہ احتجاج کرے۔ حکمرانوں کی رسائی دیگر ممالک کے حکمرانوں تک ہے تو وہ ان سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے انہیں مسئلہ کشمیر کی اہمیت سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی رائے اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی غیر ملکی عہدیدار سے تعلقات رکھتا ہے تو اس تک اپنا پیغام پہنچائے، ملک میں مختلف جماعتوں کی طرف سے منعقد ہونے والی ریلیوں اور جلسوں میں شرکت کریں۔ میڈیا اور عوام مسئلہ کشمیر کو وسیع پیمانے پر اجاگر کریں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کو بے نقاب کریں اور بھارت کے خلاف ایک زبردست مہم چلائیں۔

عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر کشمیر کی آزادی کےلیے مہم چلائیں اور کشمیریوں کے حق میں دنیا بھر میں آواز اٹھائیں۔ ویسے تو روزانہ ہی کشمیر کےلیے آواز بلند کرنی چاہیے لیکن 5 فروری کو سوشل میڈیا پر صرف کشمیر ہی ہونا چاہیے۔ یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ جن ذرائع تک ہماری رسائی ہے ہم انہیں بروئے کار لاتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کے حق کےلیے کوشش کریں۔ ان کی آزادی کےلیے ہمیشہ دعا گو بھی رہیں۔ کوئی شخص اس دن آرام نہ کرے بلکہ پورا ملک سراپا احتجاج ہو۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی اہم مقامات پر کشمیریوں کے حق میں ریلیاں نکالیں اور اقوام متحدہ کے دفاتر اور بھارتی سفارتخانوں کے سامنے احتجاج کریں تاکہ کشمیریوں کے حق میں ایک مؤثر آواز بلند کی جاسکے اور پوری دنیا کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کرائی جاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں