سربسجود مسلمانوں پر خودکش حملہ

خیبرپختونخوا پولیس نے گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران فرض کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے دو ہزار سے زائد اہلکاروں نے قربانی دی


[email protected]

رواں ہفتے کا آغاز بہت بھاری ثابت ہوا۔ پیر کا دن تو ایسے تھا جیسے قیامت صغریٰ برپا ہوگئی ہے۔ کوئٹہ سے پشاور تک موت کا رقص جاری رہا۔ ہر جانب صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ اس ایک دن میں ملک میں پانچ افسوسناک اور دل دہلا دینے والے واقعات رونما ہوئے۔

ایک واقعہ بلوچستان کے علاقے لسبیلہ میں پیش آیا جہاں مسافر بس الٹنے سے 41 افراد جاں بحق ہوگئے مبینہ طور پر بس کی حالت ایسی نہ تھی کہ اسے چلایا جاتا لیکن روکنے کے باوجود اس پر مسافر لاد کر لے جائے گئے اور بس کھائی میں جاگری۔ دوسرا واقعہ کوہاٹ میں پیش آیا جہاں سیر پر آئے بچوں کی کشتی الٹنے سے 13 بچے جاں بحق ہوگئے۔

تیسرا واقعہ پنجاب کے شہر چشتیاں میں باراتیوں کی کار کو حادثہ کی صورت پیش آیا۔ جس میں ایک ہی خاندان کے 6 افراد جاں بحق ہوگئے۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھکر میں جہاں بارات کی کار کو حادثہ پیش آیا، جس میں 4 افراد جاں بحق ہوگئے۔ اس دن کا سب سے خوفناک اور افسوسناک سانحہ پشاور کی پولیس لائنز کی مرکزی مسجد میں پیش آیا۔

اس سانحہ میں مسلمان جو نماز پڑھنے میں مصروف تھے ان پر خود کش حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں امام مسجد سمیت سو سے زائد مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا اور ڈیڑھ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ مسجد میں جگہ جگہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کی لاشیں پڑی تھیں، قرآن پاک بکھرے پڑے تھے جن پر ان بے گناہ لوگوں کا خون لگا ہوا تھا۔

آئی جی پولیس کے پی کے معظم جاہ انصاری نے پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ حملہ آور کے سہولت کار کا پتہ لگا رہے ہیں اور ایک مہینے کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھ رہے ہیں۔ دھماکے میں 10سے12کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا تاہم جلد جے آئی ٹی میں سب کچھ واضح ہوجائے گا اور دھماکے میں ملوث تمام کرداروں کا تعین ہو سکے گا۔

دھماکا کرنے والے، اس کے سہولت کار اور سرپرستوں کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہوسکتا ہے لیکن اسلام سے کسی صورت نہیں ہوسکتا، کیونکہ ہر کلمہ گو مسلمان کے لیے قرآن مجید فرقان حمید کا حکم حجت ہے، جو کوئی قرآن کی بات سے انکار کرے وہ مسلمان نہیں رہ سکتا اور قرآن نے کئی جگہوں پر انسانی جان کی حرمت بیان کی ہے۔

مسجد کو شعائر اللہ کہا گیا ہے، اس کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے، قرآن مجید کی عظمت و رفعت بیان کی گئی ہے۔ جن لوگوں نے یہ حملہ کیا، یا جن لوگوں نے کرایا، انھوں نے ایک ہی وقت میں مسجد کی حرمت کو بھی پامال کیا اور قرآن مجید کی بھی توہین کی ہے اور انسانیت کا قتل عام بھی کیا ہے۔

قرآن کہتا ہے جس کسی نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی، اور جس نے ایک بے گناہ کو قتل کیا گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کردیا۔ یہاں تو ان درندوں نے سو سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ افراد بھی وہ جو اللہ کے آگے سجدہ ریز تھے۔ اپنے گھناؤنے اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے عام شہریوں اور پْراَمن انسانوں کو بے دریغ قتل کرنے والوں کا دین اِسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

اِسلام میں ایک مومن کی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگالیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے ایک مومن کے قتل کو پوری دنیا کی تباہ ہونے سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ اِس حوالے سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔

ترمذی شریف میں ہے کہ ''حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے۔'' نسائی کی ایک حدیث شریف ہے کہ ''حضرت عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مومن کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کے برباد ہونے سے بڑا ہے۔''

کیا ان دہشت گردوں کو اسلام کے واضح احکامات دکھائی نہیں دیتے ؟ گزشتہ دنوں اسی موضوع پر اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں پیغام پاکستان کانفرنس ہوئی جس میں ملک بھر کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے جید علماء نے شرکت کی اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا بلکہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تجاویز بھی دیں۔

اس کانفرنس میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب نے نہایت مدلل اور جاندار خطاب کیا۔اس کانفرنس میں ان کی گفتگو ہر پاکستانی بالخصوص ان لوگوں کے لیے فکر انگیز ہے جو پاکستان میں مسلح جدوجہد کو جہاد کا نام دے کر اپنی زندگیاں برباد کررہے ہیں۔

مفتی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہا کہ''ریاست پاکستان کے خلاف مسلح کارروائی حرام اور کھلی بغاوت ہے، پاکستان کے علماء ملک کے خلاف کسی مسلح کارروائی کی تائید نہیں کر سکتے۔''

مفتی تقی عثمانی صاحب نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ نور ولی سے ہونے والی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ''میں نے ان سے کہا کہ آپ حضرات نے 20 سال تک اسلحہ اٹھایا، بچوں، عورتوں اور علماء کو بھی نہیں بخشا، آپ بتائیں کیا 20 سال کی اس جدوجہد سے کوئی ادنٰی سی بھی تبدیلی آئی؟ آپ کیوں مصر ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف بندوق اٹھائے رکھنا ہے۔''

مفتی تقی عثمانی نے بتایا کہ میری گفتگو کے بعد نور ولی اور ان کے رفقاء نے کہا کہ آپ کی باتیں سمجھ آگئی ہیں، مجھے یاد ہے کہ نور ولی نے اس کے بعد کہا تھا کہ ہم ہتھیار نہیں اٹھائیں گے، نور ولی سے براہ راست گفتگو ہوئی، جس میں کوئی واسطہ بھی نہ تھا، نور ولی نے علماء سے رہنمائی کے لیے جو بیان جاری کیا، وہ رہنمائی فراہم کی جا چکی۔ بے شک ہم نے امریکا اور روس کے خلاف جہاد کے فتوے دیے اور اب بھی قائل ہیں، لیکن حیران ہوں کہ مسلمان ملک کے خلاف جہاد کا فتویٰ کیسے استعمال کرسکتے ہیں؟ پاکستان کے خلاف جہاد کے مغالطے سے جتنا جلدی باہر نکل آئیں بہتر ہے۔''

مفتی تقی عثمانی صاحب کے اس دو ٹوک بیان کے بعد جو لوگ پاکستان میں مسلح جدوجہد کے ذریعے بے گناہوں کا قتل عام کرتے ہیں اور اسے اسلام کی خدمت سمجھتے ہیں انھیں ہوش کے ناخن لینا چاہئیں۔ یہ اسلام کی خدمت نہیں انسانیت دشمنی، اسلام بیزاری اور اللہ سے بغاوت ہے۔ جو کسی صورت جنت میں نہیں لے جاسکتا، بلکہ جہنم کا ایندھن بنائے گی۔ پیغام پاکستان کے نام سے ملک کے 1800 علماء نے دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دے رکھا ہے۔

میں آخر میں پاکستان کی سیاسی قیادت کی خدمت میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت پاکستان تین بڑے چیلنجز کا سامنا کررہا ہے، معاشی چیلنج، سیاسی چیلنج اور دہشت گردی کا چیلنج۔ تاریخ میں ایسی بدترین صورتحال شاید ہی پہلے کبھی ہوئی، جو آج ہمارے سامنے ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی قیادت معاملات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے اقتدار کی رسہ کشی میں لگی ہوئی ہے۔ خدا کے بندوں پہلے ملک بچا لو، پھر اپنی سیاست کرتے رہنا۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملک کو خطرات سے نکالنا ہے۔

اگر سیاسی قیادت بلیم گیم سے باہر نکل کر ملک و قوم کے لیے سر جوڑ کر نہ بیٹھی تو قوم انھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ یہ کوئی معمولی سانحہ نہیں ہے، ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے یہ بہت بڑا سانحہ ہے۔ ریاست کی ذمے داری ہے کہ شہداء کے لواحقین کا خیال رکھے، ان کے خاندان کی کفالت کا معقول بندوبست کرے۔جہاں تک خیبرپختونخوا پولیس کی کارکردگی اور فرض شناسی کا تعلق ہے، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نامساعد حالات میں بھی میرے صوبے کی پولیس نے فرض شناسی کی لازوال داستانیں رقم کی ہیں۔

خیبرپختونخوا پولیس نے گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران فرض کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے دو ہزار سے زائد اہلکاروں نے قربانی دی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان قربانیوں کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں کے جان و مال اور خاص کر ان کے اہل و عیال کے تحفظ کے لیے کوئی قابل عمل لائحہ عمل بھی تشکیل دیا جائے گا یا پھر ان کی ان بے تحاشا قربانیوں کی واہ واہ پر ہی اکتفا کیا جائے گا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ خیبرپختونخوا پولیس کا شمار دنیا کی ان چند بہادر پولیس فورسز میں ہوتا جو عالمی سطح پر اپنی بہادری کی دھاک بٹھا چکی ہیں۔

ہماری جواں مرد پولیس نے پچھلی ایک دہائی کے دوران دہشتگردوں کا جس پامردی سے مقابلہ کیا ہے اس پر نہ صرف کے پی پولیس بجا طور پر فخر کر سکتی ہے بلکہ اس جرات اور بہادری پر صوبے کے عوام کو بھی ناز ہے۔ ریاست کو بھی اس بہادر پولیس کا خیال رکھنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں