وسیع تر مفاد
ایک خوشحال خاندان نے، جس کی اپنے پڑوسی سے دشمنی چل رہی تھی،
ایک خوشحال خاندان نے، جس کی اپنے پڑوسی سے دشمنی چل رہی تھی، خاص طور پر اس سے محفوظ رہنے کے لیے ایک چوکیدار رکھا اور اپنی بساط سے بڑھ کر اس کے لیے جدید اسلحہ بھی خریدا۔ ایک دن اسی چوکیدار نے رات گئے گھر کا دروزہ کھٹکھٹایا اور گھر میں گھس کر اس نے گھر کے مالک ہی کی دی ہوئی بندوق اس کی کنپٹی پر رکھ کر اسے گھر سے بے دخل ہو جانے کا حکم دے دیا اور دیگر فیملی ممبران کو للکارتے ہوئے بولا ''آج سے اس گھر کا انتظام میں چلاؤں گا۔ تمہارا خاندانی سسٹم درست نہیں ہے، تم لوگ آپس میں لڑتے رہتے ہو، نہ وقت پر سوتے ہو، نہ کھاتے ہو اور صبح دیر تک بستر پر لیٹے رہتے ہو۔ تمہاری آمدنی اچھی خاصی ہے لیکن تم لوگ صحیح طریقے سے بچت نہیں کر پاتے ہو۔ آج سے اس گھر کا نظم و نسق میں چلاؤں گا، اگر کسی کو اعتراض ہے تو بتائے۔''
یہ کہہ کر اس نے بندوق لہرائی اور چاروں طرف اسے گھمایا، بندوق کے سامنے کوئی بھی کچھ نہ بولا اور اس کا گھر پر قبضہ تسلیم کر لیا۔ خاندان کے سربراہ کو گھر سے باہر ہانک دیا گیا۔ اس کے بعد چوکیدار نے محلے کی پنچایت کے سرپنچ کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ وہ اسے اس گھر کا مالک تسلیم کر لے، اس نے انکار کیا تو بندوق کے زور پر اسے معزول کر دیا گیا، اس نے دیگر پنچوں سے پوچھا کہ کسی اور کو سرپنچ بننا ہے تو ہاتھ کھڑا کرے اسے نیا سرپنچ بنا دیا جائے گا، لیکن اسے اس گھر پر میرے قبضے کو جواباً تسلیم کرنا پڑے گا۔ ایک سرپنچ نے یہ پیشکش قبول کر لی، اسے پنچایت کا نیا سربراہ بنا دیا گیا۔ چند پنچوں نے اعتراض کیا تو ان سے بندوق کے زور پر استعفیٰ لے کر انھیں پنچایت سے خارج کر دیا گیا اور ان کی جگہ ایسے پنچ آ گئے جو چوکیدار کے اس قبضے کو تسلیم کرنے پر تیار تھے۔ اس کے بعد چوکیدار محلے کی کونے والی بڑی حویلی پر پہنچا، یہ محلے کے بدمعاش اور بڑے چوہدری کا گھر تھا۔
اس نے چوکیدار کو اس گھر کا مالک تسلیم کرنے کے لیے چند شرائط چوکیدار کے سامنے رکھ دیں۔ چوکیدار نے خوشامدانہ انداز میں دانت نکالے اور جھک کر بڑے چوہدری کے پاؤں چھو کر بولا ''جیسے ہی آپ کوئی حکم دیں گے آنکھ بند کر کے اس حکم پر عمل درآمد کیا جائے گا۔'' بڑے چوہدری نے اس کی پیٹھ تھپکی اور اسے گلے لگا کر بولا ''جاؤ تمہاری طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا، اگر کوئی ایسا کرے گا تو تم جانتے ہو کہ ہم کتنے طاقتور ہیں۔'' چوکیدار خوشی خوشی گھر لوٹ آیا، اب اس کا قبضہ تسلیم ہو چکا تھا۔ اس نے گھر کا نظم و نسق سنبھالا اور گھر کے اصل مالکان کو احکامات دینا شروع کر دیے۔ برسوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
چوکیدار اعلان کرتا رہا کہ میں جو کچھ بھی کر رہا ہوں وہ اس گھر اور اس خاندان کے مفاد میں کر رہا ہوں۔ مان لیا جائے کہ چوکیدار نے گھر کا نظم و نسق بظاہر گھر کے اصل مالک سے بہتر چلایا، لیکن اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ چوکیدار کا اسلحے کے زور پر گھر پر قبضہ کرنے کا عمل کیا درست تھا؟ اس کی ڈیوٹی تھی کہ گھر کے باہر بیرونی دشمنوں سے گھر اور اس کے مکینوں کو محفوظ رکھے۔ گھر کے اندر کیا ہو رہا ہے؟ کون کس سے لڑ رہا ہے؟ کون آ رہا ہے اور کون جا رہا ہے؟ یہ دیکھنا اس کا کام ہی نہیں تھا۔ اس کا گھر پر قبضہ کرنے کا عمل سراسر ناجائز، غیر قانونی اور غیر اخلاقی تھا۔ بالکل یہی صورتحال ہمارے اس ملک کی ہے۔
58ء میں آرمی سی این سی نے زبردستی اس ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا۔ ان کے دور کو کم سے کم مغربی پاکستان کے لیے مثالی دور کہا جاتا ہے۔ امن و امان، اور ان کے دس سالہ دور میں صنعتی ترقی ہوئی لیکن وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کا بیج بو گئے۔ انھوں نے عوام کے احتجاج پر اقتدار بجائے اسپیکر قومی اسمبلی کو دینے کے فوج کے نئے آرمی چیف کو سونپ کر خود اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کی۔ اس کے بعد فقط دو سال میں ملک دولخت ہو گیا۔ چھ سال کے بعد پھر نئے چوکیدار نے ملک پر قبضہ کر لیا اور ساڑھے گیارہ برس تک وہ اس ملک میں اسلام نافذ کرنے کی کوشش ہوتی رہی۔ اسی دور میں اس ملک کے بچوں کے ہاتھ میں ٹی ٹی اور کلاشنکوف آ گئی اور ہیروئن کے ایک نئے مہلک نشے سے نوجوان متعارف ہوئے۔
گیارہ برس بعد ایک ریٹائر کیے جانے والے جنرل ملک کے ''وسیع تر مفاد'' میں اقتدار پر قابض ہوگئے اور منتخب وزیراعظم کو جلاوطن ہونے پر مجبور کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام آمروں نے اپنے غیر آئینی اقدامات کو اپنی بنائی ہوئی پارلیمنٹ کے ذریعے آئینی تحفظ دلوا دیا۔ لیکن وہ صاحب دوسری ایمرجنسی اور سپریم کورٹ کے ججوں کی معزولی کے اقدامات کو آئینی تحفظ نہ دلوا سکے اور اب انھیں 73ء کے آئین کے تحت بنائے گئے خصوصی عدالتی ٹریبونل میں آئین توڑنے کے کیس کا سامنا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ڈکٹیٹر کو اس قسم کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان پر فرد جرم عائد ہو چکی ہے۔ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے یہ اس کا اختیار ہے اور اس پر کچھ تبصرہ کرنا قبل از وقت ہو گا۔
تاہم یہ ٹرائل ضروری ہے تا کہ اس ملک میں طاقتور کا کمزور پر بذریعہ طاقت قابض ہونے کی ظالمانہ رسم ختم ہو۔ آئین اور قانون کی حکمرانی قائم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے کو قبضہ مافیا، بھتہ مافیا، رشوت، کمیشن اور ناجائز کو جائز قرار دینے کے عمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ سب سے اوپر بیٹھے ہوئے شخص کو جب اس کا ضمیر کچوکے لگاتا ہے کہ ''تو'' اس ملک کا صدر طاقت کے زور پر بنا ہے اور جو طریقہ صدر بننے کے لیے آئین میں درج ہے، تو نے اس کی خلاف ورزی کی ہے، اس کی ساری توجہ اسی کام پر لگ جاتی ہے کہ اس کے ناجائز اقدام کو کسی طرح جائز سمجھ لیا جائے۔ ایسے میں اگر نیچے والے یہی عمل دہراتے ہیں تو وہ اس کو روک نہیں سکتا۔ اسی عمل کی وجہ سے ہم اپنی جمہوری، معاشرتی، آئینی اور اخلاقی اقدار کھو بیٹھے ہیں، جن پر کسی بھی معاشرے کی تعمیر کی جاتی ہے۔
پرویز مشرف پر فرد جرم عائد ہونا ہی ہمارے لیے اور ہمارے معاشرے کے لیے ایک خوش کن اشارہ ہے۔ ہماری جمہوری حکومت خواہ اچھی ہو یا بری، یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ جمہوریت اپنی خامیاں خود دور کر لیتی ہے۔ زرداری صاحب کی حکومت اور ان کا دور کیسا بھی رہا ہو لیکن وہ اس ملک کے آئینی صدر تھے۔ ممنون حسین آئین میں درج طریقے کے مطابق ہی اس ملک کے صدر بنے ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں کوئی کرپشن کی کہانی ابھی تک سننے میں نہیں آئی۔ ریلوے کا نظام اور پی آئی اے کی سروسز بہتری کی جانب گامزن ہیں، ڈالر کو کنٹرول کر لیا گیا ہے۔ رفتہ رفتہ جمہوریت سب کچھ ٹھیک کر لے گی لیکن طاقت کے زور پر قبضے کا یہ کھیل اب ختم ہو جانا چاہیے۔ اگر ہمیں اپنے ملک کی معاشرتی اور اخلاقی اقدار بدلنی ہیں تو یہ ٹرائل ضروری ہے تا کہ سب ادارے اپنا اپنا کام کریں جیسا ساری دنیا میں ہوتا ہے۔