آپا بانو قدسیہ ایک ناقابل فراموش ملاقات
آخری عمر میں ان کی یادداشت بہت کمزور ہو چکی تھی، اور معلوم ہوا کہ زیادہ تر بیڈ پر یا ویل چیئر ہی پر رہیں
آپا بانو قدسیہ کی برسی قریب آ ئی ہے، تو یادوں کے دریچے کھل گئے ہیں۔مارچ 1990، بہار کے رنگ ہر سو پھیل رہے تھے۔
میں ان دنوں لارنس روڈ پر رہتا تھا۔ معمول یہ تھا کہ روزانہ صبح باغ جناح میں سے ہوتا ہوا مال روڈ اسٹاپ پر آتا، یہاں سے کچہری چوک جانے والی بس میں بیٹھتا اور لوئر مال پر ہفت روزہ '' زندگی '' کے دفتر پہنچتا ۔ واپسی پر باغ جناح کے وسط میں ایک درخت تلے بیٹھ کے کچھ دیر کوئی ناول وغیرہ پڑھتا، پھرکچھ دیرواک کرنے کے بعد چائنہ چوک اپنے کمرے میں پہنچ جاتا تھا ۔
شوکت صدیقی، ہرمن ہیسے اور دوستو فیسکی پہلی بار یہیں بیٹھ کے پڑھے۔ بانوقدسیہ کا ناول ''راجہ گدھ '' یونیورسٹی کے زمانہ میں نیوکیمپس ہوسٹل میں پڑھ چکا تھا، لیکن یہاںاسے پھر سے پڑھا ،یوں لگا جیسے پہلی بار پڑھ رہا ہوں۔ہفتہ میں ایک بار جب پرچہ پریس جانا ہوتا، تو واپسی پر رات ہو جاتی تھی اور ٹرانسپورٹ بند ہوچکی ہوتی تھی ۔
رکشہ مہنگا پڑتا تھا، چنانچہ پیدل ہی چل پڑتا تھا ۔ چیئرنگ کراس تک کچھ نہ کچھ رونق ہوتی تھی، لیکن اس کے بعد گھر پہنچنے کے لیے باغ جناح کے اندر سے چائنا چوک کی طرف نکلنے والا راستہ ہی مختصر پڑتا تھا۔ رات کے اس پہر باغ جناح پر سکوت طاری ہوتا تھا۔ چاروں طرف سے اپنے ہی قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ درختوں کے جھنڈ میں کوئی پرندہ ذرا سی بھی حرکت کرتا، توسناٹے میںعجیب طرح کی پراسراریت پید ا ہوتی تھی۔
یہ انھی راتوں میں سے ایک رات تھی، سنسان اور پُراسرار ۔میں رات کو اپنے کمرے میں بیٹھ کے بانوقدسیہ کا ناول ''راجہ گدھ' 'پڑھ رہا تھا۔ اس ناول کے سب مقامات نیوکیمپس ، لارنس باغ اور ساندہ سب میرے جانے پہچانے تھے۔
پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس میں،میں قریب قریب5 سال رہا ہوں۔ مسجد دارالاسلام اور قائداعظم لائبریری کے باعث باغ جناح میں مستقل آمدورفت رہی، اور اب تویہ میرا روزمرہ کا راستہ تھا ۔ ساندہ میں کچھ عرصہ کرائے کے ایک مکان میں رہ چکا ہوں۔ اس تناظر میں اس ناول اور اس کے کرداروں کے ساتھ جذباتی وابستگی پیدا ہو چکی تھی۔ اس رات دیر تک میں ناول پڑھتارہا، اور پڑھتے پڑھتے ہی آنکھ لگ گئی ۔
صبح دفتر پہنچا تومعلوم ہواکہ قومی ڈائجسٹ کی کاپیاں بھی پریس جا چکی ہیں۔ ڈاکٹر انورسدید صاحب ، جنھوں نے کچھ ہی عرصہ پہلے ڈائجسٹ کی ادارت سنبھالی تھی، پُرسکون بیٹھے تھے۔ انورسدید صاحب ہفت روزہ '' ندا'' میں احمد ندیم قاسمی صاحب اور اشفاق احمد صاحب کے ساتھ میرے ادبی مکالمے پڑھ چکے تھے ،اور اپنے سالانہ ادبی جائزے میں انھوں نے ان مکالموں کو بہت سراہا تھا۔ اُن کے ساتھ ادب پرہلکی پھلکی گفتگو رہتی تھی۔
ایک روز چونکہ ہفت روزہ '' زندگی'' بھی پریس جا چکا تھا، اور میری کوئی فوری مصروفیت نہیں تھی، چنانچہ ان کے پاس بیٹھ گیا۔ بانو قدسیہ کے ناول ''راجہ گدھ'' پر بات چل نکلی ، تو میں نے اس پر ان سے اپنی چند الجھنیں بیان کیں۔
ڈاکٹر صاحب نے صاف گوئی سے جواب دیاکہ اس پر تو بانوقدسہ کچھ کہہ سکتی ہیں،اور پھر کہا، آپ ان کا انٹرویو کیوں نہیںکرتے ہیں؟'' اور یہ کہتے ہوئے انھوں نے ٹیلی فون سیٹ میری طرف بڑھا دیا۔ اُن کی ہدایت پر میں نے اسی وقت آپا بانو قدسیہ کا نمبر ملایا۔ان کو ڈاکٹر انورسدید صاحب کا پیغام دیا ، تو انھوں نے شفقت بھرے لہجہ میں کہا ،''میں تو گھرمیں ہی ہوتی ہوں، آپ جب چاہیں آ جائیں، لیکن مغرب کے بعد آئیں تو زیادہ بہتر ہے۔
اُس وقت میری کوئی اور مصروفیت نہیں ہو گی ''۔ دوسرے روز مغرب کے بعد جب میں ''داستان سرائے'' جا رہا تھا، تو2سال پہلے کے سارے مناظر میری آنکھوںکے سامنے گھوم گئے، وہی دروازہ، وہی سرسبز صحن، ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو وہی پردے، وہی صوفہ سیٹ، وہی ترتیب،سب کچھ اسی طرح تھا، جس طرح دو سال پہلے تھا۔
معمولی سی تبدیلی بھی نہیں تھی۔ یہیں 2 برس پہلے اشفاق احمد صاحب سے پہلی بارملاقات ہوئی تھی ۔ میں انھی خیالوں میں گم تھا کہ آپا بانو قدسیہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں۔ سانولی رنگت، عام سی شکل و صورت ،کوئی آرایش نہیں، سر میں سفیدی اور اس پر دوپٹہ۔ وہ اس وقت سویٹربُن رہی تھیں، کیونکہ سلائیاں اور اُون کے گولے ان کے ہاتھ میں تھے۔
وہ میرے پاس ہی بیٹھ گئیں۔ پھر جیسے انھیں کچھ یاد آیا ، وہ'' ذرا ٹھیریں'' کہہ کے واپس چلی گئیں ، اور کچھ دیر بعد جب آئیں تو ان کے ہاتھوں میں فروٹ چاٹ سے بھری ہوئی پلیٹ تھی۔ انھوں نے وہ پلیٹ میرے سامنے رکھی اور کہا، '' پہلے یہ ختم کریں ، پھر بات کرتے ہیں ''،اور اس سمے ان کے لہجہ میں وہی شفقت تھی، جو ماں کے بعد صرف آپا میں ہوتی ہے۔ حقیقتاً، آپا کا لقب اُن پر سجتا بھی بہت تھا۔
ٹیپ ریکارڈر آن کرنے سے پہلے میں نے کہا، ''آپا ، آج انٹرویو کا موضوع صرف ناول '' راجہ گدھ'' ہے ۔ اس پر وہ ذرا چونکیں، ''بیٹا، یہ تو میرے لیے آسان نہیں، میں اس پر کس طرح بات کروں گی۔'' اس دوران میں ٹیپ ریکارڈر آن کر چکا تھا۔
داستاں سراے میں یہ سوچ کے گیا تھا کہ اشفاق احمد صاحب سے شادی کے بعدجب بانوقدسیہ ان کے ساتھ سمن آباد ایک کوارٹر میں منتقل ہوئیں، تویہ زندگی کس طرح کی تھی، لیکن '' راجہ گدھ'' پر گفتگو کے دوران اس موضوع پر بات نہ ہو سکی ۔اے حمید صاحب، اشفاق احمد صاحب کے بے تکلف دوست تھے،اور آپا بانوقدسیہ ان سے بھائیوں کی طرح پیار کرتی تھیں۔
اے حمید اب بھی سمن آباد میں رہتے تھے۔ ایک بار وہ آئے ، تو ان کے ہاتھ میں اشفاق احمد صاحب کے بارے میں ان کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب 'داستان گو ' کا نسخہ بھی تھا۔ پھر کہا ، اس میں ان دنوں کی یادیں موجود ہیں ،جب اشفاق احمد اور بانوقدسیہ سمن آباد رہتے تھے، اور یہ کہہ کے ان دنوں کی یادوں میں کھو گئے، ' اشفاق نے بانو قدسیہ سے شادی کر لی اور سمن آباد کے ایک مکان میں رہنے لگا۔ یہ مکان چھوٹی مارکیٹ میں سینٹرل ماڈل اسکول کے بالکل سامنے تھا۔
اس مکان میں شیشے لگے ہوئے تھے، جس کی وجہ سے اسے شیشوں والا کوارٹر کہتے تھے۔ لیکن اس مکان میں اشفاق نے تھوڑا ہی عرصہ قیام کیا اور قریب ایک دوسرے مکان میںمنتقل ہوگیا۔ یہ دوسرامکان سمن آباد گراونڈکے سامنے تھا۔ اب یہ گراونڈ ایک باغ میں تبدیل ہو چکی ہے۔لیکن اُس زمانے میں یہاں مٹی اڑتی تھی۔
اشفاق کے گھر کے سامنے گراونڈ میں کھجور کے تین درخت تھے، جن کو میں تین بہنیں کہا کرتا تھا۔ میں اکثر اشفاق سے ملنے اس مکان میں آتا تھا۔ ایک بارمیں نئے مزنگ میں اپنے ایک واقف کار سے ملنے گیا۔ وہ گھر پر نہیں تھا۔ گرمیوں کی دوپہر تھی۔ لو بھی چل رہی تھی، مگر مجھے یہ سب بڑااچھالگ رہا تھا۔ میں تانگے میں نئے مزنگ تک آیا تھا۔
جب مجھے میرا واقف کار نہ ملا تو میں پیدل ہی سمن آباد کی طرف چل پڑا۔ یہ قیام پاکستان کے شروع شروع کا زمانہ تھا۔ سمن آباد کےN ٹائپ کوارٹروں کی قطاریں ہی ابھی تعمیر ہوئی تھیں۔نئے مزنگ سے سمن آبادکی طرف جاتی سڑک خالی خالی رہتی تھی۔ ایک طرف قبرستان میانی صاحب تھا۔ میں پیدل چلتا ہوا اشفاق کے گھر پہنچ گیا۔
یہ N ٹائپ کا گھرتھا۔ میں چھوٹی سی گلی میں سے گزر کر مکان کے عقبی صحن میں گیا۔ بانو قدسیہ باورچی خانے میں چوکی پر بیٹھی روٹیاںپکا رہی تھی۔ میں اور اشفاق دیوان خانے میں آ کر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں بانو قدسیہ میرے لیے آئس کریم لے آئی۔
مجھے بڑی خوشی ہوئی کیونکہ اس وقت آئس کریم کی سخت ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔''اشفاق صاحب کی رحلت کے بعد آپا بانو قدسیہ کے نزدیک اب اُن کی زندگی کا کوئی مصرف ، کوئی مقصد ہی نہیں تھا، لیکن جدائی کا یہ عرصہ10برس پر محیط ہے۔
آخری عمر میں ان کی یادداشت بہت کمزور ہو چکی تھی، اور معلوم ہوا کہ زیادہ تر بیڈ پر یا ویل چیئر ہی پر رہیں، اور پھر ایک روز ماڈل ٹاون قبرستان میں اپنے محبوب سرتاج اشفاق صاحب کے پاؤں میں ابدی نیند سو گئیں۔ اشفاق صاحب اورا ٓپا بانوکی برسیوں پر ان کی قبروںپر فاتحہ خوانی اب برسوں سے میرا معمول ہے۔
اب ان کا ایک بیٹا بھی ان کے پہلو میں محو ِخواب ہے۔ آپا بانو قدسیہ جس طرح زندگی میں اشفاق صاحب کی موجودگی میں بہت مؤدب رہتی تھیں، خود کو اُن کی باندی سمجھنے میں فخر محسوس کرتی تھیں، اُن کے سامنے بچھ بچھ جاتی تھیں، اُن کو ان آداب ِ محبت کی پابندی اس قدر عزیز از جاںتھی کہ اپنی زندگی ہی میں یہاں اشفاق صاحب کے قدموں میںانھوں نے اپنے لیے یہ جگہ منتخب کر لی تھی۔
بحرایست بحر عشق کہ ہیچش کنارہ نیست
آنجا جزاینکہ جاں بسپارندچارہ نیست