بھٹو ریفرنس میں پیپلز پارٹی کی دلچسپی ختم 3 سال سے سماعت نہیں ہوئی

2سماعتوں کے بعد بابراعوان کالائسنس معطل ہوگیا تھا،سپریم کورٹ کے نوٹس کے باوجود سابق حکومت نے نیاوکیل مقررنہ کیا.


Ghulam Nabi Yousufzai April 04, 2014
2سماعتوں کے بعد بابراعوان کالائسنس معطل ہوگیا تھا،سپریم کورٹ کے نوٹس کے باوجود سابق حکومت نے نیاوکیل مقررنہ کیا. فوٹو: فائل

بھٹو ریفرنس کیس کا مستقبل کیا ہوگا،3 سال سے زیر التوا اس کیس کی دوبارہ سماعت اس وقت ہوگی جب وفاق کی طرف سے نیا وکیل مقرر ہوگا۔

پیپلز پارٹی حکومت کی دلچسپی اس کیس میں اس وقت ختم ہوگئی تھی جب عدالت نے حکومتی وکیل بابر اعوان کا لائسنس منسوخ کیا تھا، بعد میں سابق پی پی حکومت یا سابق صدر آصف علی زرداری نے نئے وکیل کا تقرر نہ کیااورموجودہ حکومت کو بھی اس کیس میں دلچسپی نہیں۔ سپریم کورٹ نے متعدد بار حکومت کو نیا وکیل مقررکرنے کیلیے نوٹس بھیجا لیکن سابقہ حکومت نے کوئی جواب نہ دیا۔یکم اپریل 2011کو دائرکیے جانیوالے ریفرنس میں اس وقت کی حکومت نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکو قتل کے الزام میں سزائے موت دینے کے متنازع فیصلے کادوبارہ جائزہ لینے کی استدعا کی تھی،چونکہ سابق وزیر اعظم کی سزائے موت کے فیصلے پر نظرثانی ہو چکی تھی اس لیے اس وقت کے وزیر قانون بابر اعوان نے بھٹوکی پھانسی کے فیصلے پر نظرثانی کیلیے آئین کے آرٹیکل186کا سہارا لیا تھا،اس آرٹیکل کے تحت صدر مملکت کسی قانونی نکتے پر سپریم کورٹ کی رائے کیلیے ریفرنس بھیج سکتے ہیں۔

سابق چیف جسٹس افتخارحسین چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے ابتدائی سماعت میں ریفرنس کی قانونی حیثیت کے بارے میںکئی سوالات اٹھائے تھے تاہم ریفرنس کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظورکرکے لارجر بنچ میں اس کو زیر غور لانے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ غیر جانبدار قانونی رائے حاصل کرنے کیلیے ایس ایم ظفر، عبد الحفیظ پیرزادہ، اعتزاز احسن، مخدوم علی خان، فخرالدین جی ابراہیم، خالد انور، لطیف آفریدی، علی احمدکرد اور طارق محمود کو عدالتی معاون مقررکیا تھا۔ یہ ریفرنس سابق حکومت کی ایک سیاسی چال تھی یا واقعی تاریخ کو درست کرنے کی سعی اس بارے کوئی رائے قائم نہیںکی جاسکتی لیکن یہ حقیقت ہے کہ لارجر بنچ میں ایک 2 سماعتوںکے بعد اس کیس میں حکومت کی دلچسپی ختم ہوگئی تھی کیونکہ عدالت ہر پہلو سے اس کا جائزہ لینا چاہ رہی تھی۔ بابر اعوان نے اپنے ابتدائی دلائل میں ذوالفقار علی بھٹوکی پھانسی کو ایک تاریخی نا انصافی قرار دیتے ہوئے نظرثانی کی استدعا کی تھی جبکہ عدالت نے ایسا کرنے کیلیے قانونی راستہ بتانے کا کہا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں