کھیل میں بھی زندگی ہے

وجہ سادہ سی ہے کہ کھیلوں اور گراؤنڈز کا اہتمام والدین کی ترجیح ہے نہ تعلیمی اداروں کی


خالد محمود رسول December 17, 2022

آپ فکر نہ کریں، میں ضرور آؤں گا۔ میرے آنے سے اگر بچوں میں کھیلوں کا شوق پیدا ہو سکتا ہے تو ضرور ، کیوں نہیں۔ اور نہیں تو بچے سیلفیوں کے شوق میں ہی ہاکی سے کچھ تعلق بنا سکیں گے؛ پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اور اولمپین شہباز سینئیر نے ہمیں یقین دلایا۔

ہمارے لیے ان کی یہ اپروچ خوشگوار حیرت کا باعث تھی۔ کوئی ناز نہ نخرہ، اپنی عالمی شہرت کا کوئی زعم نہ میزبان اسکول کی عام حیثیت کے بارے میں سوالات۔

چوہدری رحمت علی میموریل بوائز اور گرلز ہائی اسکول، ٹاؤن شپ ، لاہور میں الگ الگ دن سالانہ اسپورٹس ڈے منعقد ہوئے ۔ اس ٹرسٹ سے ہمارا بطور ٹرسٹی ایک طویل رشتہ ہے۔ کوشش ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں بالخصوص کھیلوں کے فروغ کو بڑھاوا دیا جائے۔ دونوں اسکولوں کے پاس وسیع و عریض گراؤنڈز بھی ہیں جو فی زمانہ لاہور جیسے شہر میں ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔

اسی لیے اسپورٹس کے مقابلوں کے اختتامی دن ایک رنگارنگ اسپورٹس گالا کا پروگرام بنا تو اس تجویز کو سراہا۔ چند ایک دوست احباب سے مشورہ کیا کہ کسی معروف کھلاڑی کو بطور مہمان ِ خصوصی مدعو کیا جائے تاکہ طلباء کے لیے یہ تجربہ یادگار بن سکے۔

یہ مشکل کام تھا تاہم اللہ بھلا کرے معروف کرکٹ کمنٹیٹر راجہ اسد علی خان کا، انھوں نے یہ مشکل حل کرنے کی حامی بھری جن کی وساطت سے بوائز ہائی اسکول کے لیے ہاکی کے باکمال کھلاڑی شہباز سینئیر جب کہ گرلز اسکول کے لیے پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کی آل راؤنڈر عالیہ ریاض اور ان کے کوچ عرفان اللہ جو خود بھی پاکستان کے ٹیبل ٹینس کے سابق نیشنل چیمپئین رہ چکے ہیں نے رضامندی ظاہر کی۔

دونوں اسپورٹس ڈے میں طلباء و طالبات کی شاندار کارکردگی اور اسکولوں کی انتظامیہ کی محنت نے ان ایونٹس کو انتہائی متاثر کن بنا دیا۔

بچوں کے ساتھ ایک نیشنل ہیرو کی موجودگی، انعامات کی وصولی اور فوٹوگراف نے ان کی زندگی میں جیسے ایک انوکھی خوشی بھر دی ہو۔ اپنے اسپورٹس ہیروز اور رول ماڈل کو اپنے درمیان پا کر طلباء و طالبات کا جذبہ دیدنی تھا۔ والدین کی ایک بڑی تعداد دونوں اسکولوں میں اپنے بچوں کو اِن ایکشن دیکھنے کے لیے موجود تھی۔

کھیل اور تعلیم کا تعلق چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ تعلیم کا بنیادی مقصد علم و دانش کی سوجھ بوجھ ، نقد و نظر کی صلاحیت اور کھوج کا جنون پیدا کرنا ہے جب کہ کھیل ، آرٹ، لٹریچر اور دیگر فنون لطیفہ مزاج اور شخصیت میں ٹیم ورک، مقابلے اور مسابقت کی آبیاری کرتے ہیں۔

مگر وطن عزیز میں جہاں ہمہ جہت تنزلی نے پاؤں پسار رکھے ہیں، وہیں تعلیم طلباء اور والدین کے لیے محض اچھی جاب اور کامیابی کی ایک سیڑھی بن کر رہ گئی ہے۔ گریڈز گریڈز اور گریڈز اور بس !

الّا ماشاء اللہ ، نجی سیکٹر بلکہ اب تو بہت حد تک سرکاری کالجز اور یونی ورسٹیوں میں بھی تعلیم، فیس اور گریڈکا اٹوٹ رشتہ ہے۔ والدین بطور سرمایہ کار بچے کے رزلٹ کو سرمائے کے ریٹرن کے طور پر جانچتے ہیں۔

کئی ایک نجی بلکہ سرکاری یونی ورسٹیوں کے اساتذہ کو ایک سانس میں طلباء اور طالبات کی تعلیم سے بے رغبتی کا رونا روتے سنا جب کہ دوسری ہی سانس میں یہ گلہ اور مجبوری بھی بیان کرتے سنا کہ انتظامیہ کی طرف سے اصرار ہوتا ہے کہ گریڈنگ کرتے ہوئے ہاتھ تنگ نہ رکھیں، انتظامیہ کی مجبوری ہے کہ کالج اور یونیو رسٹی کی رینکنگ اور نئے داخلے رزلٹ چارٹ سے جڑے ہوئے ہیں۔

ایسے میں تعلیم ایک ایک مکینیکل سا عمل بن کر رہ گئی ہے۔ انڈے سے چوزہ نکالنے اور وقت مقررہ پر ایک خاص وزن تک پہنچانا ہی کامیابی ہے ورنہ گھاٹا ہی گھاٹا۔ حیرت نہیں ہوتی کہ گریڈوں کے سیلاب ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی افراط کے باوجود ملک میں عمومی ریسرچ، ٹیکنالوجی اور پیٹینٹس رجسٹر ہونے کا ریکارڈ بیشتر ترقی یافتہ ممالک سے کہیں نیچے ہے۔ نجی تعلیمی اداروں میں اسکول ، کالج اور یونی ورسٹی لیول پر کھیلوں کے لیے بالعموم اسپورٹس گراؤنڈز، فزیکل ٹریننگ اسٹاف کا اہتمام ہی نہیں کیا جاتا۔

وجہ سادہ سی ہے کہ کھیلوں اور گراؤنڈز کا اہتمام والدین کی ترجیح ہے نہ تعلیمی اداروں کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تعلیم کے ساتھ کھیلوں کے ذریعے بچوں کی صحت، کردار سازی اور ذہنی اپروچ کا کردار ساکت ہو گیاہے۔ یو این او کی ایک اسٹڈی کے مطابق کھیل طلباء اور طالبات کو پر امن شہری بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

حیرت نہیں ہوتی کہ کھیلوں، آرٹ، ڈرامہ اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں کی آن کیمپس عدم موجودگی یا کمیابی کی وجہ سے تعلیمی ادروں میں تنگ نظری، شدت پسندی اور برداشت کی کمی اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔تعلیم زندگی کے لیے ضروری ہے مگرا سپورٹس ، پرفارمنگ آرٹ اور دیگر غیر نصابی سرگرمیاں طلباء و طالبات کی شخصیتوں کو ہمہ جہت اور مسابقت کی سان پر تیز دھار کرکے کہیں بہتر انسان اور پروفیشنل بنانے میں کلیدی کردار کر سکتی ہیں۔

امریکا ، یورپ اور ایشیاء کے بیشتر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں تعلیم کے ساتھ کھیلوں ، آرٹ اور لٹریچر کا بھی اہتمام لازم پایا۔ حیرت نہیں ہوتی کہ اس پسِ منظر میں ان کے ہاں مقابلے اور مسابقت کا ماحول ایک قدرتی ماحول کی طرح ہے جب کہ ہمارے ہاں ڈگریوں اور اعلیٰ گریڈز کے باوجود شارٹ کٹ کی تلاش رہتی ہے۔ رہی سہی کسر ہر فیلڈ میں بے انصافی اور میرٹ سے پہلو تہی کے قومی وصف نے پوری کر دی ہے۔

سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور دشنام طرازیوں سے حکمران اشرافیہ کبھی فارغ ہو تو اسے اور والدین کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ تعلیم کے ساتھ اپنے بچوں کو مقابلے اور مسابقت کے لیے تیار کرنے کے لیے کھیلوں میں بھی زندگی کا کچھ سامان ڈھونڈنا ضروری ہے۔

اسکول لیول پر اسپورٹس کے شوق کو بڑھاوا دینے کے لیے شہباز سینئیر کی طرح بہت سے اسپورٹس ہیروز آگے آنے کو تیار ہو سکتے ہیں بہ شرطیکہ ہم تعلیمی نظام میں گریڈز کی دھند کے پار دیکھنے کو تیار ہوں۔ نہ صرف یہ بلکہ اولمپک سمیت مختلف کھیلوں کے عالمی ٹورنامنٹس میں پاکستان کے عدم وجود کا خلاء پر کرنے کے لیے اسکول کے دور سے ہی بچوں کو اسپورٹس کا خوگر بنانے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں