بچوں کی وفات پر صبر
دنیاوی زندگی میں آنے والی ان آزمائشوں کے دوران بندۂ مومن سے تقاضا کیا گیا ہے
ان کے ذریعے قدرت انسان کو پرکھتی ہے کہ وہ آزمائش کی ان گھڑیوں میں دین پر قائم رہتا ہے یا دین سے دُوری اختیار کرتا ہے۔ دنیاوی زندگی میں آنے والی ان آزمائشوں کے دوران بندۂ مومن سے تقاضا کیا گیا ہے کہ خوشی کے لمحوں میں شاکر بن کر اﷲ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہو اور غم کی گھڑیوں میں صابر بن کر اس کی رضا پر راضی رہے۔
قرآنِ مجید میں صبر کے مواقع بیان کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے، مفہوم:''اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے، کچھ خوف اور بُھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیبؐ!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنا دیں۔'' (سورۃ البقرہ)
گویا مال، جان اور ثمرات میں کمی ہونا صدمے کا اہم سبب ہیں۔ کمی ہونے کے دو پہلو ہیں، ایک کم دینا اور دوسرا دیے ہوئے میں سے چھین لینا۔ اسی طرح جان میں کمی سے مراد کسی عزیز جیسے ماں باپ، بیوی، بچوں یا بھائی بہنوں کی وفات بھی ہے اور اولاد وغیرہ سے محروم رکھنا بھی ہے۔ اگر انسان ان مصائب میں صبر کا دامن تھامے رکھتا ہے تو خدا تعالیٰ کی بارگاہ سے خُوش خبری اور جزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔
یہ قدرتی امر ہے کہ اولاد کی موت ماں باپ کے لیے بہت بڑے غم اور صدمے کا باعث ہے، اسی لیے اولاد کی موت کو اﷲ تعالی کی رضا سمجھ کر صبر کرنے پر والدین کے لیے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جس مسلمان کے تین بچے نابالغ مریں گے وہ جنّت کے آٹھوں دروازوں سے اس کا استقبال کریں گے کہ جس سے چاہے داخل ہو۔''
صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ ! یا دو؟
آپؐ نے فرمایا: '' دو پر بھی اجر ہے۔''
عرض کیا گیا: یا ایک ؟
آپؐ نے فرمایا: ''ایک پر بھی اجر ہے۔'' پھر آپؐ نے فرمایا: ''قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جو بچہ اپنی والدہ کے پیٹ میں (روح پھونکے جانے سے پہلے ) ہی ساقط (ضایع) ہو گیا اگر ثواب الہی کی امید میں اس کی ماں صبر کرے تو وہ اپنی نال (ناف سے ملا ہوئے حصے) سے اپنی ماں کو جنّت میں کھینچ لے جائے گا۔'' (احمد بن حنبل، المسند)
حضرت ابُو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جب مسلمان کا بچہ مرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کرلی۔
وہ عرض کرتے ہیں: ہاں! فرمایا: تم نے اس کے دل کا پھل توڑ لیا ؟ عرض کرتے ہیں: ہاں! فرماتا ہے: پھر میرے بندے نے کیا کہا؟ عرض کرتے ہیں: تیرا شُکر کیا اور ''انا ﷲ و انا الیہ راجعون'' پڑھا۔ اﷲ تعالی فرماتا ہے: میرے بندے کے لیے جنّت میں ایک گھر بناؤ اور اس کا نام حمد رکھو۔'' (احمد بن حنبل، المسند)
مذکورہ آیات و روایات سے واضح ہوتا ہے کہ اولاد کی وفات جیسے اندوہ اور غم ناک صدمے پر صبر کرنے کی صورت میں انسان اﷲ تعالیٰ کے ہاں اجر و ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ کمسنی میں فوت ہونے والے بچے اپنے والدین کے لیے جہنّم سے آزادی اور جنّت میں داخلے کا باعث بنیں گے۔
اس لیے کمسن بچوں کی وفات پر والدین کو چاہیے کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں، بچوں کی یاد میں آنسو آجانے میں کوئی برائی نہیں البتہ شکوہ شکایت کے انداز میں کوئی جملہ ہرگز نہیں بولنا چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ سے صبر کی دعا کرنا چاہیے۔