اقوام عالم پر عدل مصطفویؐ کے لازوال اثرات

انسانیت کے محسن حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے آج سے 14سو برس قبل عالم انسانیت


[email protected]

انسانیت کے محسن حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے آج سے 14سو برس قبل عالم انسانیت کو عدل و انصاف اور مساوات کے مثالی نظریہ سے متعارف کرایا۔ رحمت للعالمین ؐ نے یہ بے مثال نظریہ تاریخ انسانی کے اس دور میں عطا فرمایا کہ جب شاہانہ حکومتوں میں بادشاہ اور شاہی خاندان کے افراد قانون کی زد سے مستثنیٰ تصور کیے جاتے تھے مگر عدل مصطفویؐ کا یہ عالم تھا کہ ہر قانون الٰہی کی تعمیل کا اصل نمونہ اس کا رسولؐ تھے۔ فاطمہ بنت مخدوم کے مشہور مقدمہ سرقہ کے بارے میں پیغمبر عدل و انصاف اور مساوات انسانی کے علمبردارؐ نے فرمایا ''تم سے پچھلی امتیں (اقوام) اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ لوگ (کمتر درجہ، کم تر حیثیت) کے مجرموں کو سزا دیتے اور اونچے درجے والے (صاحب حیثیت و ثروت) افراد کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا'' پیغمبر اسلامؐ نے حاکم و محکوم کی مساوات کا نظریہ پیش کیا۔ آنحضرت ؐ نے خود اپنی ذات کے خلاف مقدمات سنے اور مدعیوں کے حق میں فیصلے صادر فرمائے۔

18 رمضان المبارک 2ھ غزوہ بدر کے موقعے پر رسول اﷲؐ نے صحابہ کرامؓ کی صفیں درست فرمائیں۔ صف کی درستگی کے دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک تیر تھا جس کے ذریعے آپؐ صف سیدھی فرماتے تھے کہ سودا بن عذیر نامی صحابیؓ کے پیٹ پر جو صف سے کچھ آگے نکلے ہوئے تھے تیر کا دباؤ ڈالتے ہوئے فرمایا برابر ہوجاؤ، سودا نے کہا! اﷲ کے رسولؐ آپ ؐ نے مجھے تکلیف پہنچا دی بدلہ دیجیے۔ آپؐ نے اپنا پیٹ کھول دیا اور فرمایا ''بدلہ لے لو'' تو سودا آپؐ سے چمٹ گئے۔ آپؐ نے فرمایا ''سودا! تمہیں اس حرکت پر کس نے آمادہ کیا؟'' انھوں نے عرض کی جس کا مفہوم یہ ہے کہ اے اﷲ کے رسولؐ جو کچھ درپیش ہے آپؐ دیکھ رہے ہیں میں نے چاہاکہ اس موقع پر آپؐ سے آخری سابقہ ہو، میری جلد آپؐ کی جلد سے چھو جائے، اس پر رسول اﷲؐ نے ان کے لیے دعائے خیر فرمائی۔

ایک موقعے پر رسالت مآبؐ صحابہ کرامؓ کو مال تقسیم فرمارہے تھے کہ ایک حرص کا مارا آدمی آیا اور آنحضرتؐ پر ٹوٹ پڑا، آپؐ کے ہاتھ میں کھجور کی چھڑی تھی۔ آپؐ نے اس سے کونچ دیا جس کی وجہ سے اس کے چہرے پر معمولی زخم آگیا۔ آپؐ نے دیکھا تو اس وقت فرمایا کہ آؤ اور مجھ سے قصاص لو، لیکن اس نے کہا یا رسول اﷲؐ میں نے معاف کردیا۔

''مصنف عبدالرزاق'' سے روایت ہے کہ رسالت مآبؐ نے اپنے آخری ایام میں لوگوں سے ارشاد فرمایا ''اگر میں نے کسی کی عزت و ناموس پر حرف گیری کی ہو تو وہ میری عزت و ناموس سے بدلہ لے لے، اگر میں نے کسی کی کمر پر ضرب لگائی ہو تو وہ میری کمر پر ضرب لگاکر بدلہ لے لے، اور جس کسی سے میں نے مال لیا ہے تو وہ میرے مال سے لے لے'' محسن انسانیتؐ نے انسانی تاریخ اور صبر و استحصال، ظلم و استبداد اور طبقاتی تقسیم کے اس تاریک دور میں جو مثالی نظریہ عدل و مساوات پیش فرمایا اس میں بادشاہ و فقیر، وزیر و امیر، دولت مند و حاجت مند، غنی و گدا، تاجدار و چوبدار، فرمانروا و بے نوا، قوم و قبیلہ، خاندان، رنگ و نسل، امیر و غریب، حاکم و محکوم کا کوئی امتیاز نہیں اور بقول اقبال! ''خون شہ رنگین تراز معمار نیست'' (بادشاہ کا خون معمار کے خون سے زیادہ رنگین تو نہیں ہوتا) کا مثالی اور عادلانہ نظام متعارف فرمایا۔

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے امت کے لیے لائے ہوئے احکامات اپنے اوپر بھی مساوی طور پر واجب التعمیل قرار دیے اور عہد نبویؐ میں ذات اقدسؐ کے خلاف دیوانی اور ٹارٹ (ضمان) کے جو مقدمات دائر ہوئے ان نظاروں کی موجودگی میں کہا جاسکتاہے کہ پیغمبر اسلامؐ نے ''King Can Not Do Wrong'' (بادشاہ کسی فعل ناجائز کا مرتکب ہو ہی نہیں سکتا) نظریہ کو مسترد کردیا۔

نبی کریمؐ نے بعثت نبوت کے بعد مکہ معظمہ میں بارہ سال پانچ ماہ اور چند یوم قیام فرمایا، یہ زمانہ اساسی عقائد، بنیادی اسلامی قوانین کے ظہور اور اسلامی معاشرہ کی تشکیل و تنظیم کا زمانہ تھا۔ سیرت، مدینہ کے بعد مدینہ میں دس برس قیام ہوا۔ یہاں دینی جماعت نے ملی تنظیم سے ربط پیدا کیا، اجتماعی ہیئت قائم ہوئی، میدان جنگ گرم ہوئے، معاہدے طے پائے، معاہدہ شکنوں کے خلاف انضباطی کارروائی عمل میں لائی گئی۔ اسلام کے اصولوں کی حکومت قائم ہوئی اور ایک اﷲ کے نام پر ساری دنیا جمع کرنے کے لیے عالمگیر فتح کا رخ معین ہوا۔ 23 برس کی مدت میں دنیا بدل گئی، ایک بڑی اور بے مثال تبدیلی رونما ہوئی جس نے مدت، تصورات، زمانہ دراز کے خیالات، عرصہ کی تنظیمات اور سالہا سال کی تاریخ اقوام اور حکومتوں کو ختم کردیا۔ ساری عمر کے دشمن دوست ہوگئے، صدیوں کے جنگجو قاتل ایک امت بن گئے، صدیوں کی نفرتیں دائمی محبتوں میں بدل گئیں، تمام بھلائیوں کی حکومت قائم ہوگئی اور برائیوں کی ہر عمارت اپنی بنیادوں پر بیٹھ گئی، اسلام کا دور شروع ہوا، اسلام کا نظام عدل و انصاف اور انسانی مساوات عمل میں آئی جو دنیا میں سب سے برے تھے، سب سے اچھے ہوگئے، جو برے کاموں کے لیے مشہور تھے ان کے سارے کام اچھے ہوگئے، خدا کی شان ہے کہ ساری دنیا میں ایک ایسا انقلاب آیا کہ اس سے بہتر انقلاب نہ تاریخ نے دیکھا اور نہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے مثالی نظام عدل و انصاف و مساوات سے علیحدہ ہوکر تاریخ آیندہ دیکھے گی۔

رسول انقلابؐ نے حکمران کی حیثیت سے وہ دلیرانہ اور منصفانہ قانونی اور سیاسی کارہائے نمایاں انجام دیے جو کارناموں کی دنیا میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپؐ مالک الملک مقتدر اعلیٰ کے نائب کی حیثیت سے ریاست کے امیر بھی تھے اور افواج کے کمانڈر اعلیٰ بھی۔ انصاف کی اعلیٰ عدالت کے منصف بھی تھے اور اقتصادیات کے نگران اعظم بھی۔ ذات نبویؐ تمام ذمے داریوں کی امانت بردار تھی، اجتماعی زندگی کے تمام فرائض، جملہ شعبے اور تمام محکمے ایک مستحکم و منظم مرکز پیدا کرکے اپنے اپنے کام میں مصروف تھے اور آپؐ کی گراں قدر ہستی انسانی معاشرے کی ان تمام امیدوں کو پورا کر رہی تھی جس میں سے ایک دنیا کے لیے مثال بننے والی تھی۔ خلیفۃ اﷲ کی حیثیت سے آپؐ کے کارنامے حیرت انگیز ہیں، آپؐ کی وجہ سے سیاسی دائرے میں نئے نئے اصول، قوانین، احکام، ہدایات اور اساسی تنظیمات نے اپنا خوبصورت چہرہ دکھایا اور ان کی بنا پر قدم فطری تصورات ایک اور متوازن نظام سے آشنا ہوئے۔

آپؐ نے انسانی تاریخ کی مثالی عدل و انصاف اور انسانی مساوات کے نظریہ کے تحت مملکت قائم فرمائی، انسانی سوسائٹی کی تشکیل، اسلامی حکومت کے قیام اور اسلام کے نظام عدل و انصاف کے عملی نفاذ کے لیے انقلابی اور تاریخی کارہائے نمایاں انجام دیے، انسانی سوسائٹی کے لیے فطری مذہب کے اصولوں کو لازمی گردانا، اخوت کے قانون کو مملکت عملی کے رنگ میں پیش کرکے دکھایا اور انسانی حقوق، مساوات انسانی، احترام آدمیت اور تکریم انسانیت کے دین کو پوری قوت کے ساتھ نافذ کرکے دکھایا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں