بسوں کی کمی 380 روٹس بند لاکھوں مسافر پریشان

پیپلزبس سروس کے تحت 286بسیں درآمد، چھ روٹس پر نئی بسیں چل چکی ہیں


Syed Ashraf Ali December 04, 2022
پبلک ٹرانسپورٹ کے کاروبار کوچنگ چی رکشہ سروس نے نقصان پہنچایا ۔ فوٹو : فائل

سندھ حکومت کی مجرمانہ غفلت کے باعث شہر میں 14سال کے دوران پبلک ٹرانسپورٹ کے تقریباً 380روٹس بند ہوچکے ہیں جبکہ صرف80روٹس پر بڑی بسیں، منی بسیں کوچز چل رہی ہیں، اگرچہ کہ وفاقی حکومت گرین لائن بس ریپیڈ ٹرانزٹ سسٹم اور اورنج لائن(بی آرٹی ایس) آپریٹ کررہی ہے جبکہ سندھ حکومت پیپلزبس سروس کے تحت 286بسیں درآمد کرچکی ہے اور چھ روٹس پر نئی جدید بسیں آپریشنل بھی ہوچکی ہیں۔

تاہم 3کروڑ آبادی والے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی یہ سہولت اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے اور وفاقی وسندھ حکومت کی کاوش سے صرف 5فیصدٹرانسپورٹ سہولیات فراہم کررہی ہیں، ایکسپریس ٹریبوین کے سروے اور سندھ ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ سے ملنے والی دستاویزات کے مطابق بڑی بسوں کے مجموعی روٹس 60 ہیں جن میں 44روٹس بند ہوچکے ہیں اور صرف 16فعال ہیں، منی بسوں کے مجموعی روٹس 234ہیں جن میں 192 بند ہوچکے ہیں اور صرف 42 پر منی بسیں چل رہی ہیں، کوچز کے 20روٹس آپریشنل ہیں اور 50روٹس بند ہوچکے۔

بڑی بسوں کے بند ہونے والے معروف روٹس میں روٹ نمبر8، 8A،1C، 5، 5D، 5E، 11A، 1F، 72، 72 A، 5A، 5B،4Jشامل ہیں، منی بسوں کے بند ہونے والے معروف میں روٹس A، A1، A2، B، B1، C، C2، D، D2، F3، F4، G، G1، M، M3، N2، N3، P2، P6، S، S1، U2، U3 شامل ہیں، کوچز میں محفوظ کوچ، عمرکوچ، نیشنل پختون کوچ، نیو غازی کوچ اور دیگر کوچز کے روٹس بند ہوچکے ہیں، کوچز کی طرز پر پبلک ٹرانسپورٹ سوسائٹی کی 22سیٹوں والی گاڑیاں چلتی تھیں۔

ان میں صرف 3روٹس آپریشنل باقی تمام روتس بند ہوچکے ہیں، سابق ناظم شہری حکومت نعمت اللہ خان کے دور میں چلنے والی اربن ٹرانسپورٹ اسکیم کے تقریبا تمام روٹس بند ہوچکے ہیں اور صرف ایک روٹ UTS12پر چند بسیں چل رہی ہیں، سابق ناظم شہری حکومت سید مصطفی کمال کے دورمیں خریدی گئی 75 بسیں مرمت نہ ہونے کے سبب ناکارہ ہوگئیں اور اس کے تین روٹس بھی بند ہوگئے، ایکسپریس ٹریبیون کے سروے کے مطابق اس وقت شہر میں پرانی پبلک ٹرانسپورٹ کی تقریبا4ہزار گاڑیاں چل رہی ہیں۔

جن میں بسوں کی تعداد 500 ہے جبکہ منی بسیں تقریبا دوہزار سے 2200اور کوچز 1500چل رہی ہیں، ٹرانسپورٹرز کے مطابق گذشتہ چند سالوں میں ڈیزل وسی این جی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث نئی سرمایہ کاری ناپید ہے جبکہ پرانے ٹرانسپورٹرز بھی کاروبار میں گھاٹے کے باعث یہ کاروبار چھوڑ رہے ہیں، وفاقی وصوبائی سرکاری اداروں کی جانب سے ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے سوتیلی ماں کے سلوک کے باعث کالعدم شہری حکومت کراچی کی اربن ٹرانسپورٹ اسکیم جو 2004میں متعارف ہوئی تھی ناکام ہوگئی۔

اس اسکیم کے تحت 250نئی بڑی بسیں چلائی گئیں تاہم ڈیزل کے قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے، سبسڈی کی عدم فراہمی اور دیگر وجوہات کے باعث یہ اسکیم منطقی انجام کو پہنچ گئی، بڑی بسیں چونکہ پرانی ہیں اس لیے اسکریب کی شکل میں کباڑیوں کے ہاتھوں فروخت ہورہی ہیں جبکہ منی بسیں اور کوچز تیزی سے لوڈنگ ٹرک، پانی کے ٹینکرز یا کنٹریکٹ کیرئیرز بسوں میں تبدیل ہورہی ہیں، اس صورت حال کے باعث کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ معدوم ہوتی جارہی ہیں اور ان کے روٹس بھی بند ہورہے ہیں۔

پبلک ٹرانسپورٹ کے کاروبار کو غیرقانونی چنگچی رکشہ سروس نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، یہ رکشہ سروس پہلے اندرونی سڑکوں و گلیوں میں چلائی جارہی تھیں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ آپریٹ نہیں ہوتی تھی تاہم اب تمام اہم شاہراؤں پر چلائی جارہی ہیں، کراچی ماس ٹرانزٹ سیل کی مختلف اسٹیڈیز کے مطابق کراچی میں روزانہ 70لاکھ مسافر ٹرپس ہیں جو پبلک ٹرانسپورٹ کو استعمال کرتے ہیں تاہم عوامی گاڑیوں کی بدترین قلت کے باعث انہیں چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرنا پڑتا ہے، اگر حکومت نے فوری طور پر ٹرانسپورٹرز کے مسائل حل نہ کیے تو موجودہ پبلک ٹرانسپورٹ معدوم ہوجائیگی۔

جاپان کے ادارے جائیکا کی سفارشات کے مطابق کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کے حل کے لیے درمیانی مدت کی پالیسی کے تحت8ہزار نئی بسیں اور طویل مدت پالیسی کے تحت کراچی سرکلر ریلوے اور ماس ٹرانزٹ سسٹم کے پروجیکٹس مکمل کرنے ہونگے۔

کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے صدر ارشاد بخاری نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ٹریفک پولیس کی سرپرستی میں چلنے والی غیرقانونی چنگ چی رکشاؤں نے پرانے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو تباہ وبرباد کردیا ہے، 2010 تک ہماری 25ہزار بسیں، منی بسیں اور کوچز چل رہی تھیں لیکن سندھ حکومت کی ناقص پالیسی کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ سے وابستہ ٹرانسپورٹرز اپنا کاروبار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور اب صرف چھ ہزار بسیں، منی بسیں اور کوچز چل رہی ہیں، انھوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے پیپلزبس سروس متعارف کراکے خوش آئند کام کیا ہے لیکن بہتر ہوتا کہ پرانے پبلک ٹرانسپورٹرزجن کا اس کاروبار میں 50سال کا تجربہ ہے۔

ان کی سرپرستی کی جاتی، انھیں سبسڈی اور قرضہ دیا جائے تو اس سے بہتر ٹرانسپورٹ سہولیات فراہم کرسکتے ہیں، ارشاد بخاری نے کہا کہ کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد گارنٹی دیتا ہے کہ اگر سندھ حکومت تجربہ کار ٹرانسپورٹرز کو آسان بنیادوں پر قرضہ فراہم کرے تو بروقت قرضہ کی ادائیگی کی جائے گی۔

صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ کے سیکریٹری ٹرانسپورٹ علیم شیخ نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ سندھ حکومت کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی کو دور کرنے کے لیے پیپلزبس پروگرام کے تحت 236ریڈ بسیں اور 50الیکٹرک بسیں درآمد کرچکی ہیں جبکہ مزید 400بسوں لانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے، اس کے علاوہ شہر میں کراچی سرکلر ریلوے، ریڈلائن بس ریپیڈ ٹرانزٹ سسٹم پر ترقیاتی کام جاری ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں