بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال


جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

سنہری کرنیں
تالیف: عبدالمالک مجاہد، صفحات:349
ناشر: دارالسلام۔ 36 لوئر مال، سیکرٹریٹ سٹاپ ، لاہور(04237324037)



عورت ہمارے معاشرے کی ایسی اکائی ہے جو زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتی ہے، کبھی سامنے اور کبھی پس پشت رہ کر اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ عورت ماں ہو، بیوی ہو ، یا بیٹی اس کا ہر کردار نہایت اہم ہے، وہ اپنی ذہانت، متانت اور سلیقہ مندی سے ہر الجھن کا حل نکال لیتی ہے ۔

زیر تبصرہ کتاب میں ایسے واقعات جمع کئے گئے ہیں جن سے مسلم خواتین کی اعلٰی اقدار پر روشنی پڑتی ہے ۔ مولف لکھتے ہیں '' تعمیر قوم کے مراحل میں عورت کو جہاں ذہا نت اور دور اندیشی درکار ہوتی ہے وہیں انسانیت کے اعلیٰ اصولوں سے واقفیت ، زندگی کی اعلیٰ قدروں سے شناسائی ، مذہبی تعلیمات سے آشنائی اور دنیا کے بدلتے رجحانات سے آگاہی کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔ اس طرح اپنے ماضی، حال اور مستقبل سے جڑی ہماری نئی نسل اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے مرحلے کے لیے تیاری کے مراحل سے گزرتی ہے ۔

ایک عورت اپنے ہر رشتے کے اعتبار سے مقدس و محترم ہوتی ہے چاہے وہ ایک ماں ، نانی، دادی ، بہن، بیٹی، خالہ اور پھوپھی کے روپ میں ہو یا ساس ، بہو اور بیوی کے روپ میں ۔۔۔۔ ہر حال میں لائق تکریم ہے ۔ عورت کی شخصیت کے ایسے تمام پہلو جن میں اس کی ذہانت، فراست ، لیاقت ، صداقت، مہارت اور طہارت ظاہر ہوتی ہو، اس کتاب کی زینت ہیں ۔ '' کتاب میں امہات المومنینؓ ، صحابہ کرامؓ کے علاوہ بھی ایمان افروز واقعات پیش کئے گئے ہیں ۔ حوالہ جات نے مولف کی کاوش کو اور بھی تقویت دی ہے ۔

انتہائی شاندار کتاب ہے ہر فرد کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ، خاص طور پرگھر کے سربراہان کو چاہیے کہ اسے اپنے بچوں کو ضرور مطالعہ کے لئے دیں کیونکہ دور جدید میں مغرب کی چکا چوند ترقی کے راستے ہمارے معاشرے میں پنپنے والے منفی رجحانات کا مقابلہ ایسے ہی کیا جا سکتا ہے ۔ مجلد کتاب کو بہت خوبصورت انداز میں آرٹ پیپر پر شائع کیا گیا ہے ۔

گجرات فائلز
مصنفہ: رعنا ایوب، مترجم: محمد ضیا اللہ ندوی
قیمت:800 روپے، صفحات:220
ناشر: فیکٹ پبلی کیشنز، علی پلازہ سیکنڈ فلور، ٹیمپل روڈ، لاہور (04235240076)


بھارتی صوبہ گجرات میں آج سے بیس سال قبل جس طرح بہانہ بنا کر سیاسی مقاصد کے لئے مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا وہ دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب ہے ۔

پھر ان فسادات کے بعد انصاف کرنے کی بجائے جس طرح مسلمانوں کو دبانے کی کوشش کی گئی وہ اس سے بھی زیادہ افسوسناک ہے اور اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہوا کہ جن شخصیات پر ان فسادات کو برپا کروانے کا الزام لگا وہ آج بھارت میں برسر اقتدار ہیں، برسر اقتدار پارٹی بی جے پی کے کرتا دھرتا نریندر مودی اور امیت شاہ کا نام ان فسادات کو کرانے والوں کی فہرست میں سب سے اوپر تھا مگر کوئی ان کا بال بھی بیکا نہ کر سکا اور نریندر مودی وزیر اعلیٰ سے وزیر اعظم کے سنگھاسن پر براجمان ہو گئے ۔

زیر تبصرہ کتاب انھی گجرات فسادات کے پس پردہ حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔ صحافی رعنا ایوب نے تحقیق کے لئے کئی مہینے میتھلی تیاگی کا روپ بھر کر بھارتی صوبہ گجرات میں گزارے اور جب ان کی تحقیق مکمل ہوئی تو ان کے اپنے ہی ادارے نے اسے شائع کرنے سے انکار کر دیا، تب انھیں اسے کتاب کی شکل میں شائع کرنے کے لئے خود میدان میں اترنا پڑا۔

جب کتاب شائع ہوئی تو بک سٹال والے اسے فروخت کرنے سے معذرت کرنے لگے، اس کے باوجود کتاب تھوڑے ہی عرصہ میں بیس ہزار کا ہندسہ پار کر گئی کیونکہ لوگ چھپا سچ جاننا چاہتے تھے۔ ارون دتی رائے کہتی ہیں ''اس کتاب میں شامل سینئر افسروں اور پولیس اہلکاروں سے کئے گئے مکالمات اس ملک کی عدالتوں میں زیر سماعت متعدد معاملوں کے شواہد کو سیاق و سباق اور تقویت فراہم کرتے ہیں ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایسے مجرموں کے ساتھ کیا رویہ روا رکھیں گے جو اس ملک کے طاقت ور ترین افراد میں سے ہیں اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ ہم خود اپنے ساتھ کیا رویہ روا رکھیں گے جنھوں نے ایسے افراد کو اقتدار بخشا؟'' بہت تحقیقی کام کیا گیا ہے۔ ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

Daska To United Nations
مصنف: محمد اسلم مغل، قیمت:2400 روپے، صفحات:311
ناشر:بک ہوم ، 36 مزنگ روڈ ، لاہور (03014568820)


محمد اسلم مغل پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں مگر وہ اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں ملک و قوم کی خدمت کے لئے کوشاں ہیں ۔ قوم کے نونہالوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے لئے بہت سے تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لائے اور سرپرستی کر رہے ہیں ۔

اندرون و بیرون ملک تعمیر کے متعدد منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے ، پاکستان میں کئی کچی بستیوں کو ریگولرائز کیا ۔ ایک بہت بڑا کام سعودی عرب میں مکہ مکرمہ میں حرم شریف کے آس پاس کے علاقے کی پلاننگ اور تعمیر کی نگرانی تھی جو انھوں نے اٹھارہ سال تک کیا، ملی و قومی جذبہ کے ساتھ فلاحی ادارے ''اخوت'' کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب مصنف کی سوانح عمری ہے جس میں وہ اپنی زندگی کی جدوجہد کی داستان سناتے ہیں ۔

اپنے بچپن کے معمولی واقعات سے لے اس اونچے مقام تک پہنچنے کے تمام واقعات وہ بڑی خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں ۔ اس میں کیا مشکلات پیش آئیں انھوں نے اپنی قوت ارادی، ہمت و حوصلہ اور خدا کی مدد سے ان پر کیسے قابو پایا ، ان کی زندگی میں کن شخصیات نے اہم کردار ادا کیا ، انھیں کن سے آگے بڑھنے کی طاقت اور جذبہ ملا، وہ کہاں کہاں گئے۔

وہاں کا رہن سہن کیسا تھا اور انھوں نے کیا کچھ سیکھا ، حتیٰ کے معمولی چیزوں کو بھی بڑے دلکش انداز میں بیان کیا ہے ، یوں لگتا ہے جیسے آپ کتاب پڑھ نہیں رہے بلکہ دیکھ رہے ہیں ، یہ سب منظر نگاری کا کمال ہے اور یہی آپ بیتی کا خاصہ ہوتا ہے ، جس سے کتاب پڑھے بغیر چھوڑنے کو جی نہیں کرتا ۔ ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کہتے ہیں'' کتاب کے مطالعہ سے امید کا پیغام اور اپنے ملک و قوم کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ ملتا ہے ۔ اس کا ضرور مطالعہ کیا جانا چاہیے ۔'' آرٹ پیپر پر شائع کی گئی مجلد کتاب کو رنگین تصاویر سے بھی مزین کیا گیا ہے ۔

سوچ کا الائو
مصنفہ: یاسمیں پرویز، قیمت:800 روپے، صفحات:112
ناشر: بک ہوم، 36 مزنگ روڈ،لاہور (03014568820)


ہمارے ہر طرف کہانیاں بکھری پڑی ہیں، یہ الگ بات ہے کوئی اسے کہانی کی نظر سے دیکھتا ہے اور کوئی اسے روزمرہ کا معمول قرار دے کر نظر انداز کر دیتا ہے۔

جس کے اندر فنکار چھپا ہوتا ہے اسے ہر طرف کہانیاں ہی نظر آتی ہیں، وہ زندگی کے ہجوم میں ہو یا کسی جنگل میں اسے ہر جگہ کہانی بکھری نظر آتی ہے۔ درحقیقت فنون لطیفہ کا ذوق رکھنے والوں کا دل و دماغ عام افراد سے زیادہ محسوس کرتا ہے، وہ ایسے چھپے گوشے بھی دیکھ لیتا یا محسوس کر لیتا ہے جو دوسروں کو نظر نہیں آتے۔

یاسمین پرویز نے جو دیکھا جو محسوس کیا انھیں قلم سے کاغذ پر اتار دیا کیونکہ قلم سے رشتہ جوڑنا ادیب کی مجبوری ہے اگر وہ ایسا نہ کرے تو ذہن و قلب میں پھیلے غبار سے زندگی بسر کرنا دوبھر ہو جائے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے والد گرامی صادق حسین کی بکھری ہوئی تحریروں کو یکجا کر کے بھی ادب کی بڑی خدمت کی ہے۔

زیر تبصرہ کتاب میں کہانیوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنی خاندانی شخصیات کے بارے میں بھی خوبصورت تحریریں شامل کی ہیں۔ ہرکہانی دل کو چھو لینے والی ہے کیونکہ یہ ہر گھر کی کہانی ہے، قاری محسوس کرتا ہے جیسے وہ ایسے کرداروں کو جانتا ہے وہ اس کے ارد گرد ہی پھیلے ہوئے ہیں۔ 'سوچ کا الائو' کہانیوں کی دنیا میں خوبصورت اضافہ ہے۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

ریاست
مصنف : افلاطون، قیمت : 1395روپے
ناشر : بک کارنر، جہلم ، (واٹس ایپ نمبر : 03215440882 )


زیرنظردلچسپ کتاب دنیا کے عظیم فلسفی افلاطون کا وہ نظریہ ہے جو ڈھائی ہزار سال بعد بھی دنیا کے ہر خطے میں ، ہر تعلیمی ادارے میں پڑھایا جاتا ہے۔

دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی زبان ہو جس میں ' ریاست ' کا ترجمہ نہ کیا گیا ہو۔ علم سیاست کی کلید ہی یہ نظریہ ہے۔ برٹرینڈ رسل کے بقول '' اتنی صدیاں بیت گئیں لیکن انسانی فکر و دانش پر افلاطون اور ارسطو کے خیالات و افکار اتنے گہرے ہیں کہ انھیں انسانی فکر کی مرکزیت حاصل ہو چکی ہے۔

عمومی طور پر سیاست اور ریاست کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں کو خشک سمجھا جاتا ہے لیکن ' ریاست ' نہایت دلچسپ ہے۔ مکالمہ کے انداز میں لکھی گئی، اس میں کہانی جیسا مزہ ہے۔اس میں ہر اُس موضوع پر بات کی گئی ہے جس سے ایک انسان کو اپنی زندگی میں واسطہ پڑتا ہے، حتیٰ کہ موت کے بعد کی زندگی سے متعلق بھی بحث کی گئی ہے۔کتاب دس ابواب پر مشتمل ہے۔ یہاں' باب ' کو ' کتاب ' کا نام دیا گیا ہے۔

کتاب کا آغاز ایک تقریب جیسے ماحول میں ہوتا ہے جہاں ایتھنز کے لوگ جمع ہیں، ان میں سقراط اور گلاکن بھی ہیں، پالیمارکس، ایدیمینتس اور کلراٹس بھی۔ وہ اس محفل سے اٹھ کر پالیمارکس کے والد سفیلس کے ہاں چلے جاتے ہیں تاکہ اس سے ذہن میں کلبلانے والے سوالات کے جوابات حاصل کرسکیں۔ سوال اٹھا کہ انصاف کیا ہے؟ سیدھے سادے بوڑھے سفیلس نے دوچار باتیں کیں اور ان نوجوان سے کہا کہ وہ خود بھی اس پر غور و فکر کریں۔

اس کے بعد مکالمہ آگے بڑھتا ہے، اس میں کچھ دیگر لوگ بھی شامل ہوتے ہیں، وہ ایک کے بعد دوسرے سوال پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً تھریس میکس نامی ایک کج بحث آدمی خودغرضی کو انصاف قرار دیتا ہے لیکن سقراط کے مسکت دلائل سن کر اس کی دانش کی ہنڈیا بیچ محفل پھوٹ جاتی ہے۔ سقراط نے انصاف کے اصل مفہوم اور منصف کی خوبیاں بیان کیں، اور سب کو قائل کر لیا۔

اس کے بعد مکالمہ آگے بڑھتا ہے۔ ریاست کی ہئیت ترکیبی اور اس کے مختلف طبقات کی تعمیر پر بات ہوتی ہے۔ قوم کا عروج بھی موضوع بحث بنتا ہے اور زوال بھی۔ اس سارے مکالمے میں سقراط کا کردار مرکزی ہوتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سقراط کے نام سے اصل میں افلاطون ہی بولتا ہے یعنی اس کتاب کا مصنف۔ وہ تعلیم دیتا ہے کہ ہم کس طرح صحیح معنوں میں فکری انداز میں اپنے آپ کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ افلاطون انصاف کو ریاست کی روح سمجھتا ہے، چنانچہ وہ سارے انسانوں میں یہ روح پھونکنا چاہتا ہے۔

وہ علم اور نیکی پر بھی بہت زور دیتا ہے۔ اگرچہ افلاطون کے پیش کردہ تصور ریاست کے مطابق آج تک کہیں کوئی ریاست قائم نہیں ہوئی، تاہم اگر اس تصور سے سبق حاصل کیا جائے تو انسانی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔ جو میدان سیاست میں اترنا چاہتا ہے ، یا سیاست کو سمجھنا چاہتا ہے یا پھر سیاست پر بات کرنا چاہتا ہے ، اسے چاہیے کہ پہلے یہ کتاب پڑھ لے۔ ( تبصرہ نگار : عبیداللہ عابد)

میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی (خودنوشت)
مصنف : سید سلمان گیلانی، قیمت :3000 روپے
ناشر : قلم فائونڈیشن ، بنک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ، رابطہ : 03000515101


سید سلمان گیلانی کی سب سے بڑی پہچان ان کی مزاحیہ شاعری ہے جس پر یونیورسٹیوں اور کالجز کے طلبہ و طالبات جھوم جھوم اٹھتے ہیں، خوب قہقہے لگاتے ہیں۔

میں نے بھی پہلی بار انھیں پنجاب یونیورسٹی کی ایک بڑی محفل مشاعرہ میں دیکھا ، جہاں طلبہ و طالبات ان کے ہرشعر پر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ تب میں نے سوچا کہ سید سلمان گیلانی کی وضع قطع دیکھیں اور ان کی شاعری دیکھیں!!

ایسی وضع قطع کے لوگ عمومی طور پر ماتھے پر تیوری چڑھائے، ہاتھ میں لمبا سے ڈنڈا اٹھائے رکھتے ہیں، جس سے وہ ہر کسی کو دائرہ اسلام سے باہر نکالنے میں لگے ہوتے ہیں۔

تاہم سید سلمان گیلانی ایسے ہرگز نہیں۔ ان کے والد گرامی سید امین گیلانی برصغیر پاک و ہند کے عظیم حریت پسند شاعر، ختم نبوت کے مجاہد اور اپنے عہد کے خطیب بے بدل، عاشق رسول سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے روحانی شاگرد اور قریبی عزیز تھے۔ سید سلمان گیلانی کا بچپن، لڑکپن، جوانی اور اس کے بعد کے ادوار ایسے ہی بلند مرتبت اسلاف کے درمیان میں گزرے ۔ان کی شخصیت پر بزرگوں کی صحبت اور تعلیم کا اثر گہرا نظر آتا ہے۔

زیرنظرخودنوشت لکھے جانے کا کوئی امکان نہ تھا لیکن پھر یہ لکھی گئی۔کیسے؟ یہ دلچسپ قصہ ہے جو سید صاحب نے' پیش لفظ ' میں لکھا ہے:'' نثر لکھنے کا کبھی شوق پیدا نہ ہوا تھا ، شعر کہنا اور پڑھنا مجھے پسند رہا ۔ اس شعر و شاعری کے انہماک نے موقع ہی نہ دیا کہ نثری کاوش کی طرف دھیان دیتا۔کورونا کی پہلی لہر نے جب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا اور سب جلسے ، کانفرنسیں ، سیمینارز ، مشاعرے ، اجتماعات بند ہوگئے تو ہم بھی گھر میں بند ہوگئے... کبھی کبھار شعروشاعری آن لائن ہوتی تھی۔ وقت بہت فالتو تھا۔

جون میںایک دن اچانک ایک سوچ بیدار ہوئی کہ روزانہ اتنے بندے کورونا کھا رہا ہے،کتنے دوست اس کی زد میں آرہے ہیں ، خدانخواستہ اگر ایسا میرے ساتھ ہوا تو کتنے سخن ہائے گفتنی ناگفتہ رہ جائیں گے۔ نصف صدی پر محیط کئی واقعات میری کتاب زیست میں درج ہیں، یہ کتاب میرے ساتھ منوں مٹی تلے دب جائے گی۔ سو ایک عزم مصمم لئے اپنے موبائل پر روزانہ کی بنیاد پر تحریر کرکے فیس بک پر ڈالنا شروع کردئیے۔ احباب کے کمنٹس نے حوصلہ افزائی کی اور ان کی افادیت و اہمیت پر خوب دلیلیں دیں، ان واقعات کو کتابی شکل دینے پر زور دیا۔''

یوں سید سلمان گیلانی کی خود نوشت منصہ شہود پر آگئی۔غیر معمولی طور پر دلچسپ یادداشتیں ہیں۔ ان میں علمائے کرام اور بزرگان عظام کا تذکرہ ہے تو حکمرانوں اور سیاست دانوں کا بھی ملتا ہے۔ پڑھیے گا ، خوب لطف ملے گا۔

پوٹھوہار : خطہ دل ربا
مصنف : شاہد صدیقی، قیمت : 1195روپے
ناشر : بک کارنر، جہلم ، (واٹس ایپ نمبر : 03215440882 )


مصنف پاکستان کے معروف ماہر تعلیم اور ماہر لسانیات ہیں۔گزشتہ چارعشروں سے بطور استاد ، محقق ، تعلیمی منتظم ، مصنف اور ادیب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔

ایک طویل عرصہ ملک بھرکی مختلف جامعات میں اہم تعلیمی اور انتظامی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے، چار برس تک علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔ آج کل ایک تعلیمی ادارے کی فیکلٹی آف سوشل سائنسز ، میڈیا سٹڈیز ، آرٹ اینڈ ڈیزائن کے ڈین ہیں۔

ڈاکٹر شاہد صدیقی تدریسی اور انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ ہی ساتھ مختلف قومی اخبارات میں کالم لکھتے رہے۔ بعدازاں انہی کالموں کے مجموعے بھی شائع ہوئے۔ زیر نظر کتاب بھی ایسا ہی ایک مجموعہ ہے۔ اس میں شامل سب تحاریر ایک خاص عنوان کے تحت جمع کر دی گئیں۔

یوں یہ کتاب اپنے خطے سے عشق و محبت کا ایک اظہاریہ بن گئی۔ بقول ان کے'' یہ کتاب محض تحریروں کا مجموعہ نہیں بلکہ راولپنڈی اور پوٹھوہار سے میرے عشق کا احوال ہے۔ یہ ان گلی کوچوں، عمارتوں، قلعوں، حویلیوں اور دلبروں کی کہانیاں ہیں جو ہمیشہ میرے ساتھ رہے۔

یہ میری اپنی کہانی بھی ہے جو کبھی میرے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور کبھی بانسری کی لے کے تعاقب میں تاریخ کی گم گشتہ پگڈنڈیوں پر نکل جاتی ہے... یہ پوٹھوہار کے ان سربستہ گوشوں کا احوال ہے جن کے طلسم نے مجھے اپنا اسیر بنا لیا اور انھیں دیکھنے کا تجسس ایک نہ ختم ہونے والی تلاش میں بدل گیا۔ ''

ایک سادہ وضع ، خوش اطوار و خوش گفتار شخص جو استاد اور ادیب بھی ہو ،کی تحریریں نہایت دلچسپ اور رنگا رنگ ہوتی ہیں۔ ادب و شعر، موسیقی، تاریخ ، تعلیم ، فلم اور سیاحت، ناقابل فراموش مناظر، واقعات اور انوکھے کردار، ان تحریروں کو شاندار بناتے ہیں۔

اس کتاب کے ذریعے آپ پنڈی کے کوچوں اور بازاروں سے لے کر اس خطے کی قدیم بستیوں تک، میں گھوم پھر سکتے ہیں، یہاں کی حویلیوں، درس گاہوں، مندروں اور قلعوں کی زندگی کا حصہ بن سکتے ہیں۔ بہادروں، صوفیوں، شاعروں، مغنیوں، جفاکشوں اور تخلیق کاروں سے عشق کا ایسا تذکرہ شاید ہی کسی نے کیا ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں