اپنے بچوں کی خود حفاظت کیجیے

ملک میں بچوں کے ساتھ زیادتی اورتشدد کے واقعات تشویشناک حد تک بڑھ رہے ہیں


سعدیہ مظہر December 02, 2022
زیادتی کا شکار ہونے والوں میں لڑکوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ (فوٹو: فائل)

انسان نے جیسے جیسے ترقی کی منازل طے کیں، سہولتوں کے انبار لگائے ،وہیں اس دوڑ میں اخلاقیات کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ دیا۔

بانو قدسیہ کہا کرتی تھیں کہ رشتے ایک دوسرے پر انحصار کرنے سے چلتے ہیں۔ یہی محبت بنائے رکھنے کی کنجی ہے۔ معیار زندگی بلند کرنے کے اس چکر میں ہم نے رشتوں کو بے توقیر اور انسانیت کو ریت کی طرح پھسلتے دیکھا ہے۔

اسلام آباد سے لے کر کوئٹہ تک پاکستان کے ہر شہر اور گاؤں سے آپ کو بچوں کے ساتھ زیادتی کے ایسے واقعات سننے کو ملیں گے کہ روح تک کانپ جائے۔

ایک کم سن اور نوعمر بچے کو کسی دکان، فیکٹری، گیراج یا بیگار پر لگا دیا جائے تو کون جانتا ہے ان میں سے کتنے بچے دن بھر کی مزدوری کے بعد اپنے مالکان کی زیادتی کا بھی نشانہ بنتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے اس طرح کے جن واقعات کی خبریں ہم تک پہنچتی ہیں وہ دس فیصد بھی نہیں ہوتیں۔ زیادتی کا شکار ان بچوں کو گھر والوں کو بتانے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ جب کہ بہت سے گھرانے ان واقعات کا علم ہونے کے بعد بھی ''بات'' کو دبا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا ماحول ہو تو بچے اپنے مسائل کس سے کہہ سکتے ہیں۔

پاکستان میں جنسی زیادتی کے مجرم اور پورن ویب سائٹس پر کام کرنے والے بہت سے چہرے سامنے آئے۔ خبر گرم رہنے تک ایسے افراد کے خلاف کارروائی ہوتی رہی مگر پھر سب آزاد ہوجاتے ہیں۔ جو خوف ہمارے معاشرے میں بیٹی کی عزت کو لے کر رہتا تھا وہ اب بیٹوں کی طرف بھی منتقل ہوگیا ہے۔ سرکاری ادارے ہوں یا فلاحی تنظیمیں، اعدادوشمار بہت باقاعدگی سے عوام کو بتائے جاتے ہیں اور جب سوال سزا کا ہو تو خاموشی گہری ہوتی رہتی ہے۔ نہ ہم کسی کو سزا دے کر عبرت بنا پائے اور نہ ہی قانون پر عمل کرپائے۔ زینب الرٹ مگر فائلوں میں کہیں دیمک کی خوراک بن رہا ہے۔

ساہیوال اور اسلام آباد پولیس سے معلومات تک رسائی کے قانون کے ذریعے حاصل کی گئیں معلومات کے مطابق 2022 میں جون کے مہینے تک کے اعدادوشمار کے مطابق 21 بچیوں اور 4 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ تعداد پچھلے سال کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے جبکہ پنجاب کے شہر ساہیوال میں اسی سال کے پہلے چھ ماہ میں جنسی زیادتی کے رپورٹ ہونے والے واقعات کی تعداد 13 ہے، جس میں 10 بچے اور 3 بچیاں شامل ہیں۔ یہ بات یہاں قابل غور ہے کہ پنجاب میں زیادتی کا شکار ہونے والوں میں لڑکوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ صرف ان واقعات کے اعدادوشمار ہیں جو رپورٹ ہوئے۔ پاکستان میں یا تو بچے خود اس زیادتی کا نہیں بتاتے اور اگر بتا بھی دیں تو والدین چپ رہتے ہیں۔ پولیس میں رپورٹ کرنا اپنی عزت اچھالنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔

قابل غور امر زیادتی کا شکار ان بچوں کی ذہنی اور جسمانی واپسی ہے۔ بدقسمتی سے ہم اس وقت تک شہر اقتدار میں بھی ایسا کوئی ری ہیبیلی ٹیشن سینڑ نہیں بنا پائے۔ زیادتی یا جسمانی استحصال ایک واقعہ نہیں بلکہ انسان کے ذہن اور وجود پر چھوڑا گیا ایسا زخم ہے جس کا نشان کبھی نہیں مٹتا مگر کوشش کی جائے تو اس نشان کو ہلکا ضرور کیا جاسکتا ہے۔

ہم جنس پرستی کے خلاف جھنڈے اٹھا کر دین کی حفاظت کی ضامن تنظیموں سے ایک گزارش ہے کہ اپنی توانائیاں زخموں پر مرہم رکھنے کےلیے بھی استعمال کریں، نہ کہ لوگوں میں کریکٹر سرٹیفکیٹ بانٹنے میں۔ مذہب ذاتی مسئلہ ہے جبکہ انسانیت اجتماعی ذمے داری ہے۔ آبادی بڑھنے سے روکنا، بچوں کو ہر وقت اپنی حفاظت کے حصار میں رکھنا، والدین بننے سے لے کر کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نکلنے کےلیے کاؤنسلنگ سینٹرز پر توجہ مرکوز کرنا آنے والے وقت میں پیش آنے والے خوفناک حادثات سے بچنے کےلیے بہت ضروری ہے۔

پودے مرجھانے لگیں تو اس کی جگہ تبدیل کرکے اس میں کھاد اور پانی ڈالتے ہیں نا کہ اسے جڑ سے نکال کر باہر پھینکا جاتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں