جاپان نامہ اور آج کا جاپان

جاپان کی تین بڑی یونیورسٹیوں میں اردو کی تعلیم و تدریس کے لیے باقاعدہ شعبے قائم ہیں۔


Amjad Islam Amjad March 29, 2014
[email protected]

جاپان کی تین بڑی یونیورسٹیوں میں اردو کی تعلیم و تدریس کے لیے باقاعدہ شعبے قائم ہیں۔ یہ ایک ایسا بیان ہے جو مبنی بر حقیقت ہونے کے باوجود عموماً شک و شبے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ بظاہر اس کا کوئی منطقی جواز سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ملک میں اردو زبان بولنے اور سمجھنے والوں کی کل تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں ہے جن میں سے 98 کا تعلق پاکستان اور بھارت سے ہے جو یا تو ملازمت اور تعلیم کے سلسلے میں یہاں مقیم ہیں یا انھوں نے جاپانی خواتین سے شادی کر کے جاپانی شہریت حاصل کر رکھی ہے۔

اس دوسری قسم کے متعلق زیادہ تر لوگ استعمال شدہ اور ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کے کاروبار سے متعلق ہیں چند برس قبل جب مجھے جاپان کے ایک مختصر دورے کا موقع ملا تو اس وقت وہاں پاکستانیوں کی کل تعداد تقریباً 8ہزار تھی اس حوالے سے دیکھا جائے تو واقعی یہ بات قرین قیاس نہیں لگتی کہ اردو زبان یہاں کی تین یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہوگی تحقیق پر پتہ چلا کہ اس کی وجہ اصل میں جاپانی صنعت کاروں کی دور اندیشی ہے کہ انھیں اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے تقریباً چالیس کروڑ اردو بولنے اور سمجھنے والوں سے واسطہ پڑتا ہے اور چونکہ وہ بوجوہ انگریزی زبان پر بھی زیادہ دسترس نہیں رکھتے اس لیے وہ اپنے شہریوں کو براہ راست اردو سیکھنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں تا کہ آگے چل کر یہی فارغ التحصیل طلبہ ان کے لیے مترجم وغیرہ کا کام انجام دے سکیں اور یوں غالباً پاکستان اور بھارت کے علاوہ صرف امریکا ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں جاپان سے زیادہ اردو کی تدریس سے متعلق یونیورسٹی کی سطح کے شعبے موجود ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ جاپان کے بارے میں اردو میں نسبتاً بہت کم مضامین اور سفر نامے لکھے گئے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ جاپان کے عوام' اہم مقامات اور طرز معاشرت کے بارے میں برصغیر کے لوگ بہت کم معلومات رکھتے ہیں۔

حال ہی میں ''جاپان نامہ'' (عرفان صدیقی) اور ''آج کا جاپان (عامر بن علی) کے عنوان سے دو اخباری کالموں کے مجموعے شائع ہوئے ہیں جن کی وجہ سے جاپان کے لوگوں کی زندگی' رسم و رواج سیاست' معیشت اور معاشرت کے بارے میں ہماری معلومات میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے اور ہم جاپانیوں کے برصغیر بالخصوص پاکستان سے تعلقات کے بارے میں بہت نئی اور اہم باتوں سے آگاہ ہوئے ہیں اتفاق سے دونوں کتابوں کے مصنّفین سے نہ صرف میری جاپان میں ملاقات رہی بلکہ عامر بن علی تو میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہے وہ جب بھی پاکستان آئے (جو کہ اکثر آتا رہتا ہے) مجھ سے ملے بغیر نہیں جاتا البتہ عرفان صدیقی سے پہلی بالمشافہ ملاقات برادرم محمود شام کے توسط سے ٹوکیو میں ہی ہوئی جہاں سے وہ ہر ہفتے ایک ایسے ہفت روزہ رسالے کے لیے تسلسل سے کالم بھیجتا ہے جس کا تعلق اسی اشاعتی ادارے سے ہے جس کے ساتھ محمود شام کئی برس تک متعلق رہے ہیں۔

دونوں لکھاری عمر کے اعتبار سے نوجوان نسل کے نمایندہ ہیں یہ اور بات ہے کہ ان کی تحریر میں خاصی پختگی پائی جاتی ہے دونوں ہی ادب کے ساتھ ساتھ جاپان کی تاریخ اور تہذیب پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں دونوں کی نثر اچھی' ہموار اور دلچسپ ہے اور دونوں موضوعات کے تنوع پر یقین اور دسترس رکھتے ہیں البتہ عامر بن علی کی تحریر میں حس مزاح کا استعمال ایک اضافی خوبی کی حیثیت رکھتا ہے یہ کتابیں جاپان اور جاپانیوں کے بارے میں ہمارے علم اور معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں اور ان کے عوام کے بارے میں بھی بعض ایسے دلچسپ حقائق کو سامنے لاتی ہیں جن سے مطالعے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے عرفان صدیقی کے چند کالموں کے عنوانات کچھ اس طرح سے ہیں۔

-1 بیرون ملک نئے پاسپورٹ و امیگریشن دفاتر کا قیام۔ حکومت پاکستان کا قابل تحسین اقدام ۔-2 بیورو کریسی کی روائتی کاہلی۔ پاکستانی آم اس سال بھی جاپان برآمد نہیں ہو سکیں گے۔-3 مسئلہ کشمیر' جاپان اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ -4بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ۔ -5جن سے دنیا مانگتی ہے وہ جاپان سے مانگتے ہیں۔ -6پاکستان میں اقتصادی ترقی کے لیے جاپان سے تجارت میں اضافہ ضروری ہے۔-7 عالمی شہرت یافتہ پاکستانی باکسر جاپان میں بھوک ہڑتال کرے گا۔-8 پاکستانی تارکین وطن میں جاپانی خواتین سے شادی کا بڑھتا ہوا رجحان۔

ان عنوانات سے یقینا آپ کو یہ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ عرفان صدیقی زیادہ تر ایسے مسائل پر فلم اٹھاتے ہیں جن کی نوعیت سنجیدہ اور تعمیری ہے ایک مختصر اقتباس دیکھیے:

''جاپان میں پاکستانی مرد شہریوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق دس ہزار کے لگ بھگ ہے جن میں سے 70% نے جاپانی خواتین سے شادیاں کر رکھی ہیں اور ان سے اب ایک نئی نسل وجود میں آ رہی ہے یہ نئی نسل پاکستان کو اپنا ددھیال اور جاپان کو اپنا ننھیال سمجھتی ہے اور امید ہے کہ یہ نسل آئندہ چند برسوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں اضافے اور اپنے دین اسلام کی جاپان میں اشاعت کا بہترین ذریعہ ثابت ہو گی''

عرفان صدیقی کے مقابلے میں عامر بن علی کے کالم نسبتاً مختصر ہیں مگر ان میں موجود موضوعات کی وسعت اور تحریر کے ہلکے پھلکے اور شگفتہ انداز نے کہیں کہیں انھیں مزاحیہ تحریروں سے قریب تر کر دیا ہے اس کے ابتدائی حصے کو ''چڑھتے سورج کی سرزمین کا سفر'' کا نام دیا گیا چند عنوانات دیکھیے

-1خزاں کی دستک-2 چیری بلاسم-3 برفانی بندر-4 علامہ اقبالؔ اور جاپان-5 جگنو کہاں گئے؟ -6 پاکستانی ادیبوں کا دورہ جاپان -7 نصرت فتح علی خان کے انمٹ نقوش-8 آئن سٹائن اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان -9 دوہری شہریت' دوسرا رخ-9 ایٹمی بم باری کے 64 سال۔

اب مشتے از خروارے کے طور پر ایک ایسے کالم سے کچھ مختصر اقتباسات جس کا تعلق پاکستانی ادیبوں کے اس دورہ جاپان سے ہے جس میں میں خود بھی شامل تھا۔ ''یہ کسی پاکستانی ادبی وفد کا اپنی طرز کا پہلا دورہ تھا اس وفد کی آمد سے قبل ابن انشا اور حکیم محمد سعید جیسے نامور لوگ اور لکھاری جاپان آئے ضرور اور اپنے سفر کا احوال بھی لکھتے رہے مگر سب فرداً فرداً نیز کسی کا بھی جاپان میں مقیم پاکستانی کمیونٹی سے مکالمہ نہیں ہوا تھا... مقامی دانش وروں ہیروجی کتائو کا اور نی شی مورا شوبے نے بھی اظہار خیال کیا۔ شوبے نے اپنی تقریر میں کہا کہ انھیں پاکستان کا مشترکہ خاندانی نظام بہت پسند ہے جس میں سب ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں جاپان کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ امریکا اور مغرب کی پیروی کرنے کے بجائے پاکستان سے اچھی چیزیں سیکھیں اور دوسرے مشرقی ممالک سے بھی۔ یاد رہے کہ ان اساتذہ اور طلبہ نے اظہار خیال اردو زبان میں کیا تھا نا کہ جاپانی زبان میں۔

...اوساکا یونیورسٹی کا پروگرام اردو ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ماتسو مورا کے ساتھ سویمانے نے ترتیب دیا تھا۔ اس پروگرام میں طلبہ کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی اور سب نے پاکستانی لباس شلوار قمیض پہن رکھا تھا... ایک طالب علم ناکا موراتے نے طبلہ سرائی کی''

عرفان صدیقی اور عامر بن علی دونوں کئی برسوں سے جاپان میں نہ صرف مقیم ہیں بلکہ جاپانی زبان اور تہذیب سے بھی گہری واقفیت رکھتے جس کی وجہ سے ان کے کالموں کے یہ مجموعے ایک ریفرنس کی چیز بن گئے ہیں اور بلاشبہ ان جیسے لکھاریوں کے ذریعے دونوں ملکوں کے عوام اور ادیب ایک دوسرے کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ اور جان سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں