صرف گھڑی ہی کیوں

وطن عزیز میں گھڑی کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں جنہیں ترجیحی بنیادوں پر دیکھنے کی ضرورت ہے


توشہ خانہ کی بیچی گئی گھڑی عمران خان کے لیے سوہانِ روح بن چکی ہے۔ (فوٹو: فائل)

کہا جاتا ہے کہ ایک نئے نویلے جعلی پیر صاحب اس وقت پریشان ہوگئے جب انہیں پہلا بکرا ہڑپ کرنے کے بعد اپنے اندر سے بکرے کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ پہلے پہل تو انہوں نے اسے اپنا وہم گردانا مگر جب یہ سلسلہ طویل ہوا تو انہوں نے اپنے شعبے کے پرانے لوگوں سے رابطہ کیا تاکہ اس مسئلے کو حل کیا جاسکے۔ ایک زیرک اور دانا پرانے جعلی پیر نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے مرید کو بکرا واپس کردیں۔

''مگر اس سے میری بے عزتی ہوگی۔'' انہوں نے سوال کیا۔

''یہ تو ہے مگر بکرے کی بیں بیں بند کرنے کا اس کے علاوہ کوئی اور چارہ کار بھی تو نہیں۔''

''پیر صاحب کوئی محفوظ راستہ نکالیں۔'' وہ ملتمس ہوئے۔ گرو جی نے کافی سوچ بچار کے بعد مسئلہ کچھ اس طرح حل کیا کہ مرید کو بطور ہدیہ بکرا واپس کروا دیا۔ اس طرح بکرا بھی واپس ہوگیا اور عزت بھی رہ گئی۔ بکرا واپس کرنے کے بعد انہوں نے گرو جی سے سوال کیا کہ حضور آپ تو اکثر بکرے کھاتے ہیں مگر آپ کے اندر سے آوازیں کیوں نہیں آتیں؟ انہوں نے قہقہہ لگایا اور بولے کہ ہمیں عادت ہوچکی، ہم اکثر کھاتے رہتے ہیں جبکہ تم ابھی نئے ہو۔

کچھ ایسی ہی صورت حال عمران خان کے ساتھ بھی ہے، جنہوں نے قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے گھڑی بیچی مگر اب یہ گھڑی ان کےلیے سوہان روح بن چکی ہے۔ عین ممکن ہے انہوں نے اپنے اخراجات پورے کرنے کےلیے کرپشن کرنے کے بجائے ایسا کیا ہو۔ کیونکہ وہ برملا اس بات کا اظہار کرچکے تھے مہنگائی اس قدر زیادہ ہے کہ دو لاکھ تنخواہ میں ان کا گزارا نہیں ہوتا۔

ایسا گمان اس لیے بھی کیا جاسکتا ہے کہ آج کل ان کے حامی گھڑی کا دفاع کچھ اس طرح سے کررہے ہیں ''گھڑی بیچی ہے، قومی دولت نہیں لوٹی''، ''گھڑی بیچی ہے، تعلیمی امداد تو نہیں کھائی''، ''گھڑی بیچی ہے، ہار تو نہیں چرایا''، ''گھڑی بیچی ہے، قومی دولت سے لندن میں فلیٹ تو نہیں خریدے''، ''گھڑی بیچی ہے، لندن میں محل تو نہیں بنائے''، ''گھڑی بیچی ہے لندن میں جرمانے تو نہیں ہوئے''...

جو لوگ اس منطق کو پیش کررہے ہیں ان کی خدمت میں انتہائی ادب سے عرض ہے کہ حضور بے شک خان صاحب نے صرف گھڑی بیچی ہے، لیکن یہ عمل اس شخص سے سرزد ہوا ہے جو ہجوم کو قوم بنانے چلا تھا۔ جو سبز پاسپورٹ کی عزت کروانے نکلا تھا۔ جس نے قوم کو جینے کی امید دلائی تھی۔ جو اقوام عالم میں ہمیں ہمارا کھویا ہوا مقام دلانا چاہتا تھا۔ جو سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالث بننے جارہا تھا۔ جو مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ جسے قائداعظم ثانی کہا جاتا تھا۔ جس کی گفتگو جلسے جلوس میں ہی نہیں اقوام متحدہ جیسے پلیٹ فارم پر بھی ''ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں'' سے شروع ہوتی تھی۔ جس کا انتخاب ہی قوم نے اس لیے کیا تھا کہ وہ دوسروں سے الگ تھا۔ اس لیے ایسے شخص کی جانب سے ایسی حرکت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

وہ تمام لوگ جو اس انداز میں اس فعل کا دفاع کررہے ہیں براہِ کرم ایسا نہ کریں۔ ہم سب مل کر خان صاحب سے درخواست کریں کہ وہ قوم سے معافی مانگیں اور اس معاملے کو ختم کریں۔ کیونکہ وطن عزیز میں گھڑی کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں جنہیں ترجیحی بنیادوں پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ البتہ یہ مطالبہ ضرور کیا جاسکتا ہے کہ گھڑی کے علاوہ توشہ خانہ سے مستفید ہونے والے تمام افراد کا احتساب کیا جانا چاہیے۔ مستقبل کے حوالے سے ایسی قانون سازی کی جانی چاہیے کہ سربراہ مملکت کو ملنے والے تحائف گھروں کو لے جانے کا سلسلہ بند ہوجائے، تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات ہماری سبکی کا باعث نہ بن سکیں۔ مزید برآں صاف شفاف احتساب یا بھارت کی طرز پر ٹیکس معافی کے ذریعے کرپٹ سیاستدانوں اور دیگر بااثر افراد کا احتساب کرکے ملکی دولت کی واپسی ممکن بنائی جائے۔ بصورت دیگر ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ اور مخالف گروپ ایسے واقعات کو دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور اپنی کارکردگی چھپانے کےلیے مخصوص میڈیا گروپ کے ذریعے استعمال کرکے قوم کو گمراہ کرتا رہے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں