قاسمی صاحب

میری کم ازکم تین کتابیں ’’عکس‘‘، ’’کالے لوگوں کی روشن میں نظمیں‘‘ اور ’’نئے پرانے‘‘ شاید کبھی تکمیل کو نہ پہنچتیں


Amjad Islam Amjad November 20, 2022
[email protected]

20 نومبر، احمد ندیم قاسمی صاحب کی ایک سو چھ ویں سالگرہ کا دن ہے۔ اگرچہ ان کو جسمانی طور پر اس دنیا سے پردہ کیے سولہ برس ہونے کو ہیں مگر جن لوگوں نے ان کو دیکھا یا ان کی صحبت میں کچھ وقت گزارا ہے، ان کے لیے وہ آج بھی موجود اور زندہ ہیں کہ ان سے اور ان کی صحبت سے فیض حاصل کرنے والوں کے دلوں اور تحریروں میں وہ آج بھی مختلف حوالوں سے ڈھڑک رہے ہیں۔

خود ان کی اپنی تحریریں، افسانے، شاعری، کالم نویسی اور ''فنون'' کے اداریوں کے حوالے ہماری ادبی تاریخ کے روشن ترین ابواب میں سے ہیں۔ وہ جتنے بڑے ادیب تھے، اتنے ہی بڑے انسان بھی تھے اور جہاں تک نئی نسل بلکہ کئی نسلوں کی تربیت اور رہنمائی کا معاملہ ہے تو کم ازکم میں نے گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں میں کسی بھی سینئر ادیب کو ان سے زیادہ اپنے بعد کے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے نہیں دیکھا۔

اپنے دل کی فطری دردمندی کے باعث وہ وقت کے ساتھ ساتھ زود رنج بھی ہو گئے تھے مگر ان کے اندر کا دیہاتی کسی بھی دکھ دینے والے دشمن کو اپنے دروازے سے خالی نہیں لوٹاتا تھا بلکہ اس کی اس طرح پذیرائی کرتا تھا جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

اب کبھی میں سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ میری کم ازکم تین کتابیں ''عکس''، ''کالے لوگوں کی روشن میں نظمیں'' اور ''نئے پرانے'' شاید کبھی تکمیل کو نہ پہنچتیں، اگر قاسمی صاحب اپنے مخصوص انداز میں مسلسل ان کا پیچھا نہ کرتے۔ اور جہاں تک شاعری کا تعلق ہے، میری سب سے کسی بڑے ادبی پرچے میں شایع ہونے والی نظم بھی ''فنون'' ہی میں چھپی اور پھر یہ سلسلہ اگلے چالیس برسوں تک بغیر کسی تعطل کے جاری رہا۔ اسی طرح بے شمار نئے لکھنے والوں سمیت عطاء الحق قاسمی کا پہلا اور بہت عمدہ سفرنامہ ''شوقِ آوارگی'' بھی فنون ہی کی معرفت لوگوں تک پہنچا۔

میں نے ان کی پچھترویں سالگرہ پر 1991ء میں ان پر ایک نظم لکھی تھی جسے کئی بار مختلف تقاریب میں ان کی موجودگی میں پڑھنے کا موقع ملا۔ اتفاق سے اب اس کے ٹھیک 31 برس بعد میں نے ان کے لیے ایک اور نظم لکھی ہے تو آیئے آگے بڑھنے سے پہلے اس نظم پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

وہ ایک فرد تھا لیکن تھا کارواں جیسا
تھا ایک باب پہ لگتا تھا داستاں جیسا

وہ تیز دھوپ میں بنتا تھا سائباں سب پر
کہ چاندنی میں وہ روشن تھا آسماں جیسا

جو کچھ کہے بھی نہیں اور بولتا جائے
میرے لیے تھا وہ استاد میری ماں جیسا

اٹھا کے سر کو جیا، جب تلک جیا وہ شخص
ہمیشہ چہرہ رہا اس کا مہرباں جیسا

سکھایا اُس نے مجھے شاعری میں سچ کہنا
سخن کے باغ میں تھا ایک باغباں جیسا

کچھ ایسے کرتا رہا نسل نو کی تربیت
کبھی تھا تیر کی صورت، کبھی کماں جیسا

خزاں کے سامنے لگتا تھا وہ گل اُمید
ہجوم درد میں تھا گوشۂ اماں جیسا

ہمارے واسطے مشعل تھے قاسمی صاحب
تھا ان کا نام ہی امجدؔ ندیمِ جاں جیسا

مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ میں نے ان کی زندگی میں ان کے بارے میں ایک دو گھنٹے کی ڈاکیومنٹری فلم تیار کی جو شاید ان کی شخصیت اور کام سے متعلق اب تک کا سب سے منظم کام ہے۔ بھارت سے برادرم گلزار نے مجھے اپنے سمیت پانچ بڑے ادیبوں کے انٹرویو کیمرے میں محفوظ کر کے بھیجے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے آبائی گاؤں انگہ ضلع سرگودھا میں ان سے متعلق کوئی یادگار تعمیر کی جاتی اور بالخصوص لاہور میں جہاں ان کی زندگی کا بیشتر حصہ گزرا، ان کے نام پر کسی بڑی سڑک یا انڈرپاس کا نام ہونا چاہیے تھا البتہ اسلام آباد والوں کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے ایک بڑی شاہراہ ان کے نام سے موسوم کی ہے۔

آخر میں ان کی ایک بہت معروف نظم کاخاص طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک اس نظم کی ایک ایک لائن میں ان کا وہ کردار جھلک رہا ہے جو صرف بہت ہی غیرمعمولی لوگوں سے وابستہ کیا جاسکتا ہے۔ کبھی وقت ملے تواسے یوٹیوب پر دیکھیے اور سنئے گا کہ ان کی آوازاور پڑھنے کا انداز ایسا جداگانہ اور باکمال تھا کہ ان کی بیشتر نظموں کی طرح یہ نظم بھی سیدھی دل میں اترتی جاتی ہے۔

زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں

دیکھنا، حدنظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے

سوچنا اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر

سوچنا بھی جرم ہے

آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر

جھانکنا بھی جرم ہے

کیوں بھی کہنا جرم ہے، کیسے بھی کہنا جرم ہے

سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر

زندہ رہنے کے لیے انسان کو

کچھ اور بھی درکار ہے

اور کچھ اس اور بھی کا تذکرہ بھی جرم ہے

اے ہنرمندانِ آئین و سیاست

اے خداوندان ایوان عقائد

زندگی کے نام پر بس اک عنایت چاہیے

مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہیے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔