اردو کانفرنس بہاولپور یونیورسٹی میں

کیا سوچ کر گھر سے نکلے تھے۔ یہی کہ جس نگر میں جارہے ہیں وہاں ریگ زار سے سابقہ پڑے گا۔


Intezar Hussain March 27, 2014
[email protected]

کیا سوچ کر گھر سے نکلے تھے۔ یہی کہ جس نگر میں جارہے ہیں وہاں ریگ زار سے سابقہ پڑے گا۔ مگر ہوا کیا۔ اس نگر میں قدم رکھا تھا کہ ٹھنڈی ہوا چلی۔ بوندا باندی ہوئی۔ پھر بارش۔ ایسی کہ چھتیں ٹپکنے لگیں۔ صبح ہوئی تو عجب منظر نظر آیا۔ یا اللہ یہ چولستان ہے یا بہارستان ہے۔ اور بہار سی بہار۔ یہ گھٹا کہاں سے اُمنڈی تھی۔ اور یہ سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں۔ ارے اتنے گل پھول اس طرح پھولتے امنڈتے تو ہم نے لاہور کے بھی کسی گوشے میں نہیں دیکھے تھے۔ یہ گیندا' یہ گلاب۔ ریگ زار کی کونسی تہہ کو توڑ کر برآمد ہوئے ہیں۔ اب رضا علی عابدی کی کہی ہوئی بات پر ایمان لانا پڑا کہ مجھے سکھ چین کی تلاش تھی۔ میں بہاولپور چلا گیا۔ شہر کو سبزے نے ڈھانپ رکھا ہے۔

درختوں کو جہاں جگہ ملی وہاں چھتنار بن گئے ہیں۔ پھر کسی بہاولپوری کا لکھا ہوا بیان ذہن میں گونجا کہ بہاولپور منی علی گڑھ ہے۔ اچھا' وہ کیسے۔ عابدی صاحب نے بتایا کہ راہ میں اتنے اسکول اتنے کالج اور یونورسٹیاں تھیں کہ بیساختہ منہ سے نکلا کہ یہاں تو تعلیم کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے۔ تو لیجیے ہم لاہور سے نکل کر پنجاب کے جنوب تک پہنچتے پہنچتے تعلیم کے جمعہ بازار میں آ نکلے ہیں بلکہ بیچ جمعہ بازار میں ہیں۔ یعنی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں۔ اس کے بلاوے پر تو یہاں آئے ہیں۔ یہاں عالمی اردو کانفرنس کا ڈول ڈالا گیا ہے۔ کہاں کہاں سے اردو کے علما فضلا محقق نقاد شاعر افسانہ نگار آئے ہوئے ہیں۔ مصر سے' ترکی سے' ہندوستان سے' بنگلہ دیش سے' انگلستان سے' آسٹریلیا سے' اور خود پاکستان کے مختلف شہروں سے لاہور سے' کراچی سے' اسلام آباد سے' ملتان سے۔

باہر کے مہمان تو خیر ہوئے۔ مگر یونیورسٹی میں طلبا اور طالبات قطار اندر قطار۔ مہمانوں کو دیکھ کر کِھلے جا رہے ہیں۔ اچھا یہ وہ علما ادبا ہیں جنھیں ہم اپنی کتابوں میں پڑھتے آ رہے تھے اور اب انھیں اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ یہاں کتابوں کے دو اسٹال سجے ہوئے ہیں۔ لپک کر ادھر جاتے ہیں۔ اپنی اپنی پسند کے لکھنے والوں کی کتابیں خرید رہے ہیں اور ان سے آٹوگراف لے رہے ہیں۔ پہلے کتاب آگے بڑھائی پھر بیگ سے کیمرہ نکالا۔ لیجیے مصنف کی کتاب اس کے دستخطوں کے ساتھ۔ اور پھر اس کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی تصویر کے ساتھ۔ چُپڑی اور دو دو۔ اور پھر سوالات کی بھر مار کہ آپ نے فلاں افسانہ جو لکھا ہے اور فلاں نظم جو کہی ہے اس کا پس منظر کیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ادب سے اتنا شغف۔ اور یونیورسٹیوں میں جانا آنا ہوا ہے۔ یہ شغف اس یونیورسٹی کے طلبا میں کچھ زیادہ ہی نظر آ رہا ہے۔

اس فضا میں یہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ اور موضوع بحث کیا ہے۔ اردو اور اکیسویں صدی۔ اس موضوع کے ذیل میں کون کونسے مسائل زیر بحث آئے۔ ہر بحث کے لیے ایک سیشن مخصوص۔ اور اس طرح کہ ایک ہی وقت میں پہلو بہ پہلو دو سیشن ہو رہے ہیں۔ کتنا اچھا ہوتا کہ ہمارے وجود بھی دو ہوتے کہ ہر سیشن میں شریک ہو کر سن سکتے کہ کیا مسئلہ زیر بحث ہے اور کون کیا کہہ رہا ہے۔ اور صرف یہ نہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے بلکہ یہ بھی کہ کون کیا کہہ رہی ہے۔ کیونکہ اب ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں صرف طلبا اور اساتذہ ہی تو نہیں ہوتے بلکہ طالبات اور استانیاں بھی ہوتی ہیں۔ بلکہ یہ نقشہ بھی جابجا دیکھنے میں آتا ہے کہ طلبا کم ہیں اور طالبات زیادہ ہیں اور بہاولپور میں طالبات اس طرح امنڈی پڑ رہی ہیں کہ یہاں جو 1944ء میں لڑکیوں کا ایک اسکول کھلا تھا۔ وہ بڑھتے بڑھتے ایک کالج بن گیا۔ صادق ڈگری کالج۔ اور اب وہی کالج اتنا بڑھا پھیلا کہ پچھلے برس اس نے یونیورسٹی کی شکل اختیار کر لی۔

تو اس کانفرنس میں ایک سیشن اس واسطے سے بھی ہوا کہ اردو میں لکھنے والیاں کیسے برآمد ہوئیں۔ اب ان کا جمع و خرچ کیا ہے۔ کیا لکھا ہے اور کیا لکھ رہی ہیں۔ خیر پہلے تو اور موضوعات بھی تھے۔ مگر اب تو پاکستان میں عورت خود ایک مسئلہ بن گئی ہے۔ یا مسئلہ تھی مگر ابھر کر اس نے ایک سنگین مسئلہ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ کسی مضمون نگار نے اپنے مضمون میں مجازؔ کا یہ مشہور شعر نقل کیا ؎

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

اور اب وہ واقعی آنچل کو پرچم بنانے پر تلی نظر آتی ہے۔ نسوان کُش رویّوں کے خلاف رونے گانے کے مرحلہ سے نکل کر اب واقعی وہ مجازؔ کے شعر کو جامۂ عمل پہنانے پہ تُلی نظر آتی ہے۔ تو لکھنے والیوں کے افسانوں اور شاعری میں جس طرح ان کے دکھ درد کا' احتجاج کا' مزاحمت کا اظہار ہوا ہے اس کا ایک اچھا خاصا جائزہ لیا گیا۔

اور ہاں جو مشاعرہ منعقد ہوا اس میں بھی شاعرات کی ایک پوری قطار نظر آ رہی تھی۔

باقی نشستوں میں اکیسویں صدی کے پس منظر میں مختلف معاملات زیر بحث آئے۔ افتتاحی اجلاس میں پروفیسر انوار احمد نے اپنے مقالہ میں تفصیل سے بتایا کہ اردو زبان کے فروغ کے لیے سرکاری سرپرستی میں جو ادارے قائم ہوئے تھے ان کا احوال اب کیا ہے کیونکہ وہ خود ایک ایسے ہی ادارے کے سربراہ رہ چکے ہیں تو انھیں قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا کہ حکومت نے کس طرح ان اداروں کو نظر انداز کیا اور کر رہی ہے اور بیورو کریسی وہاں کیا گل کھلا رہی ہے۔ اصل میں پاکستان کی حکومتوں کا مسئلہ تو اب دوسرا ہے۔ کسی بھلے وقت میں اردو کو قومی زبان قرار دیدیا گیا تھا۔ اب آنے والی حکومتوں کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ اس جنجال سے کیسے نبٹا جائے۔

یہاں یہ مسئلہ درپیش تھا کہ اردو کے فروغ کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں۔ اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد مختار بہت پر جوش نظر آ رہے تھے۔ اپنی یونیورسٹی میں انھوں نے سائنس کے شعبوں میں سائنسی فروغ کے لیے کتنے اقدامات کیے ہیں۔ اب وہ اردو کے سلسلہ میں کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ عندیہ یہ دیا گیا ہے کہ یہ کانفرنس تو پہلا قدم ہے۔ آگے کے لیے بیچ میں ایک تجویز ہم نے بھی پیش کر دی کہ زبان کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی ضرورت تو ایک دارالترجمہ کا قیام ہے۔ جس تیزی سے خود سائنس کے شعبہ میں جس طرح یہ علم پھیل رہا ہے نت نئی تحقیقات ہو رہی ہیں اردو آخر اس سے کیوں تہی دامن رہے۔ اور اس سلسلہ میں حکومت سے اپیلیں کرنا تو بے سود ہے۔ اس کا کیا رویہ ہے وہ انوار احمد سے سن چکے ہیں۔ مگر یونیورسٹیوں کا بھی تو کوئی فرض ہے۔ ایسے کام تو بالعموم یونیورسٹیاں بھی انجام دیتی ہیں۔ اور اس یونیورسٹی نے ڈاکٹر مختار صاحب کی سربراہی میں جہاں مختلف شعبوں میں اتنی اصلاحات کی ہیں اور نئے نئے منصوبوں پر کام کیا ہے ایک یہ منصوبہ بھی ان کے ہاتھوں پروان چڑھے تو کیا مضائقہ ہے۔

ہندوستان سے یہاں دو مہمان آئے ہوئے تھے۔ زبیر رضوی اور علی جاوید۔ زبیر رضوی کا استدلال یہ تھا کہ جب پاکستان نے اردو کو اپنی قومی زبان قرار دیدیا اور اب دنیا یہی سمجھتی ہے کہ اردو پاکستان کی زبان ہے تو پھر اسے اس سلسلہ میں اس پر جو ذمے داریاں ہوتی ہیں وہ اسے ادا کرنی چاہئیں۔

اختتامی اجلاس میں ڈاکٹر علی جاوید کو خطبہ دینا تھا۔ اس میں انھوں نے ہندوستان اور پاکستان کے حوالے سے جنگ اور امن کا سوال اٹھایا۔ دونوں ملکوں نے جنگیں کر کے بھی دیکھ لیا۔ ایٹم بم بھی بنا لیے۔ مگر جنگی جنون آخر کب تک۔ جنگ کے نقصانات اور پرامن رہنے کی ضرورت پر انھوں نے معقول گفتگو کی۔

اس خطبہ پر یہ کانفرنس ختم ہوئی۔ دیکھنا چاہیے اس سے آگے کیا ہو گا کیونکہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مختار صاحب کے تیور یہ بتا رہے تھے کہ انھوں نے محض ایک ادبی کانفرنس کے طور پر اس کا اہتمام نہیں کیا ہے۔ کوئی منصوبہ ان کے پیش نظر ہے۔ انتظار کیجیے کہ وہ منصوبہ کیا ہے اور کب وہ بروئے کار آتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں